جن لوگوں میں انسانیت کے لیے خدمت کا جذبہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے سامنے اپنے مذہب یا فرقے کو آڑے نہیں آنے دیتے ۔ ذہن کے وسیع اور دل کے ہمدرد ایسے لوگ دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں۔ لیکن خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والی وہ شخصیات عظیم شخصیات ہوتیں ہیں۔ آئیے مختصراً ایسے عظیم لوگوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اور ہر مختلف مذہب مذاہب سے وابستہ سے ایسے انسان ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ آج کے دور اور انتشار کے ماحول میں ایسے لوگوں کی خدمت خلق سے دوبارہ امید زندہ کی جا سکے۔ انسانی تاریخ اور دنیا کے مختلف حصوں ایسے بیشمار لوگ ہیں تاہم یہاں ہم صرف ماضی قریب ان شخصیات کا تذکرہ کریں گے جن کی خدمات کے اثرات ہمارے خطے برصغیر پاک و ہند میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
عبد الستار ایدھی
ایدھی کے پرکھوں کا تعلق ہندوستان کے علاقے گجرات سے تھا،ان کی پیدائش یکم جنوری 1928 میں بھارت کے شہر باٹوا میں ہوئے ایک مسلمان خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد کپڑوں کے تاجر تھے۔تقسیم ہندوستان کے وقت اس خاندان نے کراچی ہجرت کی، آپ کا مذہب اسلام تھا، جب پاکستان ہجرت کی تو اس وقت ایدھی کی عمر 19 برس تھی۔ دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ ایدھی میں اپنی ماں کی خدمت سے پیدا ہوا۔عبدالستار ایدھی کی والدہ بچپن میں ان کو دو آنے دیا کرتی تھی۔اور کہتی تھی ایک آنے خود استعمال کرنا اور دوسرے آنے کسی ضرورت مند کی مدد کرنا۔ایدھی نے 1951 میں "ایدھی فاؤنڈیشن” کی بنیاد رکھی۔ آگ، طوفان و آندھی، سیلاب و زلزلہ سے متاثر بنی نوع انسان کی تکلیف کا پر سان حال عبد الستار ایدھی سب سے پہلے مدد کو پہنچ جاتا تھا۔
متاثرین کسی بھی مذہب، فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی مدد کرنا ایدھی اپنا فرض سمجھتے تھے۔ وقت اور پیسے کا غلط استعمال، ایدھی کی ڈکشنری میں نہیں تھا، ان کا کہنا تھا کہ ’’ہماری زندگی میں وقت اور پیسے کا غلط استعمال ہر گز نہیں۔ پاکستان میں حادثاتی اور ہنگامی ضرورت کے لیے ملک گیر ایمبیولینس سروس کا سب سے بڑا نیٹ ورک آپ نے ہی بنایا۔ 1989ء میں حکومت پاکستان نے ایدھی کو ’نشان امتیاز‘ دیا، بے شمار مقامی تنظیموں اور اداروں نے بھی ایدھی کو اعزازات سے نوازا۔ عالمی سطح پر بھی ایدھی کو اعزاز سے نوازا گیا، 1988ء میں آرمینیا میں زلزلے سے متاثرہ افراد کی خدت کے اعتراف میں اس وقت کی روس کی حکومت نے ایدھی کو ’’لینن امن انعام‘‘سے نوازا، فلپائن حکومت نے 1986ئ میں عبدا لستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کو ’’میگسیا ایوارڈ دیا، 2006 میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے سب سے پہلے عبد الستار ایدھی کی سماجی خدمات کو سراہتے ہوئے ایدھی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی سندسے نوازا۔ 8 جولائی 2016 کو اس عظیم شخصیت گردوں کے عارضے میں مبتلا ہوکر دار فانی سے کوچ کر گئی۔ ہزاروں یتیم بچوں، بے کس مریضوں، لاوارث لاشوں اور بلاشبہ لاکھوں دکھی انسانوں نے ایدھی مرحوم کی خدمات سے مستفید ہوئے۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ
آج سے پچاس سال قبل جذام کا مرض وطن عزیز پاکستان میں کنٹرول سے باہر تھا ۔ ایسی صورت حال میں 30 سال کی عمر میں اپنے ملک جرمنی میں بیٹھ کر پاکستان میں اس وقت تیزی سے پھیلنے والی اس موذی بیماری کی ایک ڈاکومنٹری ڈاکٹر رتھ فاؤ نے دیکھی تو وہ ہل کر رہ گئی۔ اس مسیحا ڈاکٹر نے اپنا خاندان، اپنا ملک، اپنا گھر باہر بار چھوڑ دیا اور جذام کی بیماری میں مبتلا ہونے والے لوگوں کے علاج کے لیے اپنی زندگی پاکستان میں آکر وقف کر دی۔ آپ ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئیں، مسیحیت کی پیروکار تھیں اور ان کی وفات پر مسیحی تعلیمات کے مطابق ان کے آخری رسومات ادا کیے گئے۔ مگر آپ نے بلا تفریق مذہب و عقیدہ، رنگ و نسل مریضوں کے علاج کے لیے خدمات سر انجام دینے میں ایک عظیم مثال قائم کی۔ پاکستان میں انہوں نے بہت بڑی تعداد میں مسلمان مریضوں کا علاج کیا۔ انہوں نے انسانیت کی خدمت میں اپنے مذہب ، رنگ و نسل کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ ان کا تعلق مذہبی عیسائیت سے تھا۔
پاکستان کراچی آ کر انہوں نے ریلوے اسٹیشن کے قریب چھوٹا سا سینٹر بنایا اور اس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کا علاج شروع کر دیا وہ بیمار لوگ جن کو اپنے خونی رشتے دار بھی چھوڑ کر چلے جاتے ، ڈاکٹر صاحبہ اپنے ہاتھ سے مرہم پٹی کرتی، ان کو دوائی پلاتی۔ یہ سینٹر ایک ہسپتال کی شکل اختیار کر گیا ، پھر 150 سے زائد ایسے سینٹر قائم کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحبہ ریاست پاکستان کے باسیوں کے لیے مسیحا بن گئیں۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کہا کرتی تھیں کہ اُن کی پیدائش کا ملک بے شک جرمنی ہے لیکن دل کا ملک پاکستان ہے اور اُن کا دل صرف پاکستان کے لیے ہی دھڑکتا ہے۔ وہ عیسائی مذہب کی پیروکار تھیں جب کہ پاکستان میں انہوں نے مسلمانوں کا علاج کیا۔
انہوں نے انسانیت کی خدمت میں اپنے مذہب ، اپنے ملک اور خطے کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اسی لیے ان کی پاکستان سے بے پناہ محبت، اپنائیت اور خدمات کی بدولت حکومتِ پاکستان نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی۔ انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائد اعظم، ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائد اعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔وہ پروسی لپروسی کنڑول پروگرام پاکستان کی بانی سربراہ تھیں۔ جرمن نژاد ڈاکٹر ورتھ فاو نے 58 سال تک پاکستان میں جذام کے مریضوں کا علاج کیا۔
ان جذام کے مریضوں سے متعلق غلط، منفی اور فرسودہ تصورات کو ختم کرنے اور ان کے بارے میں مثبت تشخص اجاگر کرنے میں قائدانہ کردار ادا کیا اور اپنی ساری زندگی پاکستان میں ایسے مریضوں کے علاج معالجے اور اس مرض سے جڑے منفی تاثر کو زائل کرنے کے لیے وقف کر دی۔ اس مسیحا ڈاکٹر کی محنت کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے 1998ء میں پاکستان کو ’’لپروسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا۔
آنجہانی ڈاکٹر رتھ فاو 2017ء میں 88 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ اس ڈاکٹر نے بغیر کسی نسلی و مذہبی تعصب کے انسانیت کی خدمت کی ۔
مدر ٹریسا
بیسویں صدی میں انسانیت کی خدمت کے لئے زندگی وقف کر دینے والے افراد اور اداروں میں ایک نمایاں ترین نام مدر ٹریسا اور ان کے قائم کردہ ادارے کا ہے۔ مدر ٹریسا مذہباََ رومن کیتھولک عیسائی تھیں۔ انہوں نے 50برس تک بلا تخصیص رنگ و نسل اور مذہب وقوم ،بیمار اور بے سہارا افراد کی خدمت کی ۔ ان کی خدمات کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا اور 1979 میں انہیں امن کے نوبل پرائز سے نوازا گیا۔
مذہبی طور پر مدر ٹریسا ایک کیتھولک راہبہ اور مشنری تھیں جنہوں نے اپنی زندگی غریبوں، بیماروں، یتیموں اور بے کسوں کی خدمت میں وقف کر دی تھی۔ وہ 1910 میں مقدونیہ (موجودہ شمالی مقدونیہ) میں پیدا ہوئیں اور 1929 میں ہندوستان آئیں۔ 1950 میں انہوں نے کولکتہ میں مشنریز آف چیریٹی کی بنیاد رکھی، جو ایک مذہبی تنظیم ہے جو غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتی ہے۔ مدر ٹریسا نے 45 سالوں سے زیادہ عرصے تک کولکتہ میں غریبوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کی۔ انہوں نے یتیموں کے لیے گھر، بیماروں کے لیے ہسپتال اور بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہیں قائم کیں۔ انہوں نے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے لوگوں کو رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی ترغیب بھی دی۔
انہوں نے تقریبا پچاس برس تک بلا تخصیص رنگ و نسل اور مذہب وقوم ،بیمار اور بے سہارا افراد کی خدمت کی ۔ مدر ٹریسا کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1979 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ 1997 میں ان کا انتقال ہو گیا اور 2003 میں پاپائے روم نے انہیں سینٹ کا درجہ دیا۔مدر ٹریسا ایک عظیم انسان دوست اور ایک روشن مثال تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی مدد کرنے میں وقف کر دی اور دنیا بھر کے لوگوں کو ان کی پیروی کرنے کی ترغیب دی۔
گنگا رام
سر گنگا رام جنہیں فادر آف لاہور بھی کہا جاتا ہے۔ آپ سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے، 13 اپریل 1851 میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انٹر کرنے کے بعد گنگا رام روڑکی چلے گئے جہاں انہیں پچاس روپے ماہانہ وظیفے کے ساتھ ہندوستان کے پہلے انجینئرنگ کالج میں داخلہ مل گیا۔ 1873 میں گنگا رام نے گولڈ میڈل کے ساتھ انجینئرنگ کا امتحان پاس کیا اور لاہور میں اسسٹنٹ انجینئر کے عہدے پر فائز ہوکر لاہور چلے آئے۔ دو سال کے بعد وہ لاہور کے ایگزیکٹو انجینئر بنا دیئے گئے۔
حکومت پنجاب کی سرپرستی کی وجہ سے سر گنگا رام نے ایک جانب لاہور کو جدید نوآبادیاتی فن تعمیر سے متعارف کروایا اور پوری مال روڈ کو شاندار عمارتوں سے بھر دیا۔ بعد ازاں انھوں نے پنجاب بھر میں زمین کی سیرابی کے لیے متعدد منصوبے تیار کیے اور ہزاروں ایکڑ پر پھیلی خشک زمینیں سونا اگلنے لگیں۔حکومت ہند نے گنگا رام کو رائے بہادر کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ان کے کارناموں کا سفر مزید جاری رہتا مگر 1903 میں انھوں نے سرکاری نوکری سے سبکدوشی اختیار کی۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے انہوں نے کئی ایسے ریکارڈ بنانے کی تیاری کر لی جو ان کی منزل تھے۔
گنگا رام نے اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے ضلع (فیصل آباد) میں پانچ سو ایکڑ زمین خرید کر ایک گاؤں آباد کیا جسے گنگا پور کا نام دیا گیا۔ گنگا پور میں ہزاروں کی تعداد میں درخت لگائے گئے، فصلوں، سبزیوں اور چارہ کی پیداوار کے لیے آب و ہوا کے مطابق مقامی اور غیر ملکی بیجوں کے معیار پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس کے علاوہ سر گنگا رام بیوہ عورتوں کی دوسری شادی کی ضرورت کے قائل تھے۔ اس وقت ہندوستان بھر میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ بیوہ عورتیں موجود تھیں۔ انھوں نے اس مقاصد کے لیے ایک خیراتی ٹرسٹ رجسٹرڈ کرایا اور اسے پہلے پنجاب وڈو ری میرج ایسوسی ایشن کا نام دیا جس کا دائرہ بہت جلد ہندوستان بھر میں وسیع ہوگیا اور اسے پنجاب کے بجائے آل انڈیا وڈو ری میرج ایسوسی ایشن کا نام دے دیا گیا۔
1922 میں گنگا رام کو سر کا خطا خطاب دیا گیا۔ لاہور میں ایک جگہ زمین خرید کر پہلے اسے ڈسپینسری پھر اسے ہسپتال کا درجہ دے کر مزید اس ہسپتال کے زیر اہتمام لڑکیوں کا میڈیکل کالج بھی بنا دیا ، آج بھی وہ ہسپتال میو ہسپتال لاہور کے نام سے موجود ہے ۔ ہیلے کالج آف کامرس بھی ان کے ایک پلاٹ پہ تعمیر کیا گیا ۔
1925 میں سر گنگا رام نے دیوان کھیم چند کی مدد سے ماڈل ٹاؤن لاہور کی رہائشی سکیم کی بنیاد ڈالی۔ 1927 میں سر گنگا رام رائے ایگری کلچرل کمیشن کے ممبر کے طور پر انگلستان گئے ہوئے تھے جہاں دن رات کام کرنے کی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی اور بالآخر 10 جولائی 1927 کو لندن ہی میں ان کی وفات ہوگئی۔ ان کی آخری رسومات لندن ہی میں ادا کی گئیں۔
گلاب دیوی
جب کہ ہندو مذہب سے گلاب دیوی کی مثال ہم لے سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی ذات پات اور مذہب کے پیرو کاروں کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتی تھیں انہوں نے اس ڈور میں سماجی خدمات سر انجام دیں جب برصغیر میں ہندو اور مسلم فسادات ہونا ایک عام سی بات تھی۔ ان ہی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آگے چل کر ان کے بیٹے ”لالہ راجپت رائے “ نے بھی سماجی خدمات کو جاری رکھا۔
مندرجہ بالا شخصیات نے اپنی زندگی غریبوں اور بے کسوں کی خدمت کے لیے وقف کر کے بلا تخصیص رنگ و نسل اور مذہب وقوم ،بیمار اور بے سہارا افراد کی خدمت کی۔ جس کی وجہ سے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان جیسی عظیم شخصیات کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم بھی اگر خدمت خلق کے راستے میں ان کے نقش قدم پر چلیں تو ہم بھی لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں اور لوگ اپنی یادوں میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔