اسلام آباد کے رہائشی 26 سالہ عدنان بتاتے ہیں کہ آج سے چند سال قبل انہیں اچانک سانس لینے میں دقت کا محسوس ہوئی تو انہیں ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر معلوم ہوا کہ کسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔
عدنان بتاتے ہیں کہ انہوں نے اطراف میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ کچھ عرصہ قبل ان کے گھر کے قریب لگائے جانے والے اینٹوں کا بھٹے سے نکلنے والا دھواں ان کی اس تکلیف کا سبب تھا جس سے نہ صرف وہ بلکہ وہاں رہنے والے دیگر لوگ شدید متاثر ہو رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے اطراف میں بسنے والے کئی افراد کو جلد، سینے، معدے، گلے اور پھیپڑوں کے امراض کا سامنا رہا۔ وہ بتاتے ہیں کہ تین چار سال قبل آبادی کے درمیان موجود بھٹا سی ڈی اے نے ختم کروایا تب ان کو راحت حاصل ہوئی۔ عدنان جیسے کئی افراد آبادیوں کے نزدیک موجود ان بھٹوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
حال ہی میں دنیا میں فضائی معیار پر کام کرنے والی سوئس ٹیکنالوجی کمپنی آئی کیو ایئر کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں آلودہ ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان دوسرے نمبر پر رہا۔
آئی کیو ایئر کی ورلڈ ائیر کوالٹی رپورٹ 2023 مطابق پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے والے ذرات جنہیں پی ایم 2.5 کہا جاتا ہے پاکستان میں یہ شرح 73.7 مائیکروگرام فی کیوبک میٹرک رہی۔ یعنی فضا میں آلودگی کی اوسط مقدار 2 اعشاریہ 5 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر ہونی چاہئے مگر پاکستان میں اس کی صورتحال تشویش ناک حد تک زیادہ ہے۔ 2023 میں پاکستان میں فضائی آلودگی کا معیار 73 اعشاریہ 7 پی ایم کی خطرناک حد تک ریکارڈ کیا گیا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ سطح صرف پانچ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر تک ہونی چاہیے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان کے کچھ شہروں میں ایئر کوالٹی انڈیکس 400 سے بھی تجاوز کرتا رہا۔ جب کہ صحت بخش فضا کے لیے اے کیو آئی ایک سے 50 کے درمیان ہونا چاہیے۔
پاکستان میں فضائی آلودگی کے اسباب میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ کوئلہ کا استعمال کرنے والا اینٹوں کا شعبہ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق اینٹوں کے بھٹے فضا میں انتہائی زہریلا دھواں خارج کر کے بے پناہ آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔
پاکستان میں یہ شعبہ زیادہ تر غیر منظم اور غیر رجسٹرڈ رہا ہے۔ تحقیقی ادارے ایس پی ڈی آئی کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں فضائی آلودگی اور گلوبل وارمنگ میں کے ایک چوتھائی تناسب کی یعنی 25 فیصد آلودگی کا سبب اینٹوں کا شعبہ ہے جو فضا میں کاربن کی بڑی مقدار کا سبب بنتا ہے۔
ان تحقیقی رپورٹس اور ائیر انڈکس رپورٹ کی روشنی میں پاکستان کی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ گو کہ پاکستان میں اینٹوں کے بھٹوں کو ماحول دوست بنانے کے لئے مثبت اقدات نظر آئے ہیں۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ کے ترجمان کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں واقع 63 روایتی اینٹوں کے بھٹوں میں سے 49 کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کر دیا گیا ہے جس سے فضائی آلودگی کے مسائل کو کم کرنے میں نمایاں مدد ملے گی۔ زگ زیگ ٹیکنالوجی سے دھوئیں کا اخراج 40 فیصد کم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 4 روایتی اینٹوں کے بھٹوں کو ختم کردیا گیا ہے اور باقی 10 روایتی اینٹوں کے بھٹوں کو بھی ماحول دوست جدید، صاف ستھری زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جارہا ہے۔محمد سلیم نے کہاکہ اینٹوں کی مینوفیکچرنگ کا روایتی شعبہ کا فضا کو آلودہ کرنے اور گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں بڑا حصہ ہے کیونکہ اس طرح کے اینٹوں کے بھٹے اینٹوں کو پکانے کے لیے گندے توانائی کے ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔
جو سیاہ دھوئیں کا سبب بنتا ہے اور سیاہ دھواں نہایت آلودہ، زہریلا اور ماحول کے لیے بے حد خطرناک ہے۔ یہ اسموگ کا سبب بھی بنتا ہے جس سے شہریوں میں دمہ، سانس کی بیماریاں، آنکھوں کے انفیکشن اور پھیپھڑوں کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔
اینٹوں کے بھٹے جہاں فضائی آلودگی کا سبب بنتے ہیں وہیں ان بھٹوں میں کام کرنے والے مرد و خواتین اور بچے بھی دھکتے کوہلوں کی گرمی میں جھلستے ہیں اور ان کو بھی شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارے ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں تقریبا 50 لاکھ مرد ، خواتین اور بچے اس شعبے سے وابستہ ہیں لیکن ان کی حالت زار پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔
حال ہی میں انڈیا کے شری رام چندر انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حاملہ خواتین متاثر ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو حاملہ خواتین گرم جگہوں بالخصوص اینٹوں کے بھٹوں یا شدید گرم جگہوں پر کام کرتی ہیں تو ان کے پیٹ میں موجود بچے کو پیدائش سے پہلے موت اور اسقاط حمل کا خطرہ دوگنا ہو سکتا ہے۔
تحقیقاتی ادارے ایس ڈی پی آئی نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور آئی ایل او کے کنونشنز پر عمل درآمد کے لیے ایک فریم ورک تیار کیا ہے۔ یہ فریم ورک اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور آئی ایل او کے لیبر قوانین پر عمل درآمد کو آسان بناتا ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اہداف پر ایک فریم ورک عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ یہ ایس ڈی جیز اہداف اور اس کا فریم ورک پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق ہیں۔ ان ایس ڈی جیز کے اہداف میں باقاعدہ ایک فریم ورک پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے، جس میں ایس ڈی جی 8، ایس ڈی جی 12 اور ایس ڈی جی 13 وہ اہداف ہیں جن میں مزدوروں کے لیے کام کرنے کا ماحول بہتر ہونا ضروری ہے۔
ان اہداف میں مزدوروں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، واش رومز کی سہولت، مزدوروں کی صحت اور ان کے بچوں کی تعلیم کی سہولت اور ماحولیاتی آلودگی سے پاک ماحول کی فراہمی کو ممکن بنانا شامل ہے۔
رپورٹ میں ادارے نے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقلی کی حکومتی اقدام کی حمایت کرتے ہوئے بقیہ بھٹوں کو بھی اس ٹیکنالوجی پر منتقلی کی سفارش بھی کی ہے۔
حکومت کو چاہئیے کہ وہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق قانون سازی کرے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں کو سہولیات میسر ہوں ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ اگر حکومت پاکستان اینٹوں کے بھٹوں کو ماحول دوست بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو پاکستان میں ماحولیاتی مسائل پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے وگرنہ فضائی آلودگی سمیت بے شمار منفی سماجی اور ماحولیاتی اثرات پر مبنی مستقبل ہمارا مقدر مان لیا جائے گا۔