چند گھنٹے بیشتر وی پی این کی معرفت سابقہ ٹویٹر اور موجودہ اکس کے درشن کئیے تو سندھ یونیورسٹی کی نوجوان زہین انگریزی زبان و ادب کی پروفیسر ڈاکٹر صائمہ جعفری کی ٹویٹ دیکھ کر آنکھ بھر آئی اور دل بھی بھر آیا۔ ٹویٹ کیا تھی آپ بھی پڑھ لیں ” هالا گرلس ڪاليج کی لیب اسسٹنٹ خدیجہ میمن نے کل رات خودکشی کر لی۔ وجہ کالج ایڈمنسٹریشن کا غیر انسانی رویہ بتایا جاتا ہے ۔ پاکستان خاص کر سندھ میں ورک پلیس ہاراسسمنٹ کی ایسی ایسی مثالیں ہیں کہ دماغ گھوم جاتا ہے ۔ یہ ہراسگی صرف مرد ہی نہیں خواتین بھی کمال فن کے ساتھ کرتی ہیں ۔ سرکاری ادارے ہراسگی کا تو کچھ نہیں کرتے کم سے کم اپنے ایمپلائز کی ذہنی صحت کا ہی کچھ بندوبست کر لیں ۔”
یہ سطریں ہمارے آج کے معاشرے کا سچ ہیں. اور یہ ماجرا صرف سندھ یا اس کے کسی مخصوص تا لکا یا ڈسٹرکٹ تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک کا یہی احوال ہے . خدیجہ ایک معذور اور غریب بیٹی تھی اور بہت حساس اور غیرت مند ہی ہوگی جب ہی تو عزت نفس کی مسلسل آزمائش سے اکتا کر دنیا چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا اور نہر میں چھلانگ لگا کر ” خود کشی ” کر لی ۔
واوین صرف اس لیے نہیں استعمال کئے کہ مجھے شک ہے کہ کوئی اور ہی معامله نہ ہو اور قتل کا کیس نہ ہو بلکہ اس لیے بھی ہیں کہ اگر یہ خود سوزی بھی ہو تب بھی اس میں قتل کا ایلیمنٹ ہے۔ بےحس معاشرہ ، سنگ دل انتظامیہ اور عورت نما پدرسری کا مجسمہ بھی قاتلوں کی فہرست میں ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دلخراش خبر کو کہاں تک فالو کیا جائے گا یا اس پر فمنسم کے اور مذہب کے ٹھیکے دار کہاں تک بڑھیں اور بھڑکیں گے؟ مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ پاکستان میں ہر مظلوم کے لئے ایک جیسی ملامت اور ندامت نہیں ہوتی۔ ایک خاص طبقے کی خواتین شائد ہالا سندھ سے اس کے رنگین مٹی کے کاشی، لکڑی کی کاری اور کھدّر اور سسی کپڑے سے تو کسی فنڈڈ پروجیکٹ کی وجہہ سے واقف ہوں لیکن خدیجہ اور اس جیسی ہزاروں لڑکیوں کی تکلیف سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں۔
کئی غیر سرکاری ادارے پورے ملک میں ڈونرز کے سہارے "عورتوں کو بااختیار ” بنا رہے ہیں۔ کہیں کہیں اچھا کام بھی ہوا ہے اور دردمندی بھی ہے لیکن زیادہ تر صرف نمائش ہے۔ صنفی تشدد غربت کے خاتمےاور صحت کے حوالوں سے فنڈز بھی بہت کم ہیں اور جووسائل ہیں بھی ان پر ایک خاص طبقے اور ان کے خوشامدیوں کی اجارہ داری ہے۔ معذور خواتین اور کام کرنے کی جگہوں اور دفاتر کے حوالوں سے قوانین تو ہیں مگر اصل حقیقت بہت تلخ ہے۔ میری اپنی ریسرچ رپورٹس میں ایسی کیس اسٹڈیز ہیں جن میں ہراساں ہونے والی خاتون کو یا تو ملازمت یا دنیا چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ ہراسگی صرف مرد کولیگیس یا باس کی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ کئی مرتبہ خواتین بھی ان داتا بن جاتی ہیں۔ بڑے نامور اداروں میں اس قماش کے لوگ مافیا کی طرح براجمان اور متحرک ہیں۔ نہ کوئی بے باک صحافی ہے نہ کوئی با ضمیر وکیل نہ ہی کوئی فعال ادارہ جو ایسی خواتین کی مدد کرے۔
کاغذوں پر ہیلپ لائنز بھی ہیں اور محتسب بھی ہیں۔ اگر کوئی کہیں خلوص سے اور جرات سے کام کرنا بھی چاہ رہا ہے تو اس کے پاس اتھارٹی اور ریسورسز نہیں ہیں۔ مینٹل ہیلتھ یا جذباتی صحت کا بھی سماجی ترقی کی انڈسٹری میں شدت سے اور جدّت سے اٹی سٹارٹ اپ سے پرچار کیا جا رہا ہے مگر اصل سہولیات ناپید ہیں۔ ہر کوئی ڈیجیٹل دنیا میں نہیں رہتا۔ اس منافقت اور دھوکے پر بھی بات کرنا کسی بڑی ریٹنگ والے ٹی وی اینکر یا سماجی میڈیا کے سٹار کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ہے۔مفادات کا ٹکراؤ بھی ہے۔ جو گروپس اکھٹے کھاتے، پیتے ،ناچتے اور سیرو تفریح کرتے ہیں۔ پھر افطار و سحور تک بھی کرتے ہیں وہ کیوں حق کا علم اٹھائیں؟ یا باطل کو باطل جانیں ؟ سب مل بانٹ کر ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ بات ہے مراعات یافتہ طبقات کی اجاره داری اور غریب سے بے زاری کی .
انٹرنیٹ پر دستیاب ایک رپورٹ کے مطابق خدیجہ کو باتھ رومز کی صفائی کا بھی حکم دے کر ٹارچر کیا جاتا تھا۔
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست-سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا۔
اپنی ایک عزت افزائی یاد آ گئی جب مجھے خواتین پارلیمان کی ایڈوائزر کے فرائض ادا کرنے تھے اور کچھ میڈ میں یہ چاہتی تھیں کہ میں ان کے پرس/ ہیند بیگز سنبھالوں۔ میں نے استعفا دے دیا تھا۔ کم لکھے کو زیادہ جانیے.مجھے اپنی جان عزیز ہے اور مجھ میں کچھ خوف الہی اور کچھ ذمداریوں کی بدولت یہ صلاحیت بھی نہیں کہ اپنی سانسیں خود ختم کر لوں ورنہ "”جو گزرتے ہیں ‘داغ’ پر صدمے،آپ بندہ نواز کیا جانیں؟”
جب تک ہماری ریاست سنجیدگی سے ہم دلی پر مبنی عورت دوست پولیس اور پارلیمان کی پالیسی تشکیل نہیں دے گی پاکستان کے ہر حصّے کی خدیجہ کا ایک ہی انجام رہے گا۔
ڈاکٹر رخشندہ پروین؛ ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔