مانسہرہ : وہ مسجد جہاں شیعہ اور سنی جمعہ اور دیگر نمازیں اکٹھی ادا کرتے ہیں .

ضلع مانسہرہ کا نواحی گاؤں پیراں اور یہاں کی "جامع مسجد امام حُسین ع” بین المسالک ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال ہے۔ پیراں کے ایک ہی جامع مسجد میں اہل تشیع اور اہل سنت والجماعت کے ماننے والے نماز، جمعہ، عیدین و اعتکاف کرتے ہیں۔

فقہ جعفریہ کے مولانا مظہر علی شاہ جامع مسجد امام حُسین ع میں گزشتہ تیرہ سال سے امام و خطیب ہیں۔ مولانا مظہر شاہ کہتے ہیں کہ یہ مسجد کئی دھائیوں سے اہل تشیع اور اہل سنت کی مشترکہ مسجد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے گاؤں و مسجد میں دونوں مسالک کے لوگ پیار، امن اور بھائی چارے کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی عبادت کرتے ہیں، جو کہ پورے ملک کے لوگوں کیلئے عملی مثال ہے۔

مولانا مظہر کہتے ہیں کہ ہمارے فقہ الگ الگ ہیں مگر ہم امت محمد ص ہونے کے ناطے تمام مسلمان ایک ہی ہیں۔ مولانا مظہر شاہ کے مطابق اس مسجد میں دونوں مسالک کے لوگ اپنے اپنے وقت اور طریقہ پہ نماز پڑھتے ہیں، جمعہ و عیدین ادا کرتے ہیں اور ایک ہی مسجد میں دونوں مسالک کے معتکفین اعتکاف کرتے ہیں۔ اگر کسی کا انتقال ہو جائے تو تفریق سے بالاتر ہو کر سبھی ایک امام کے پیچھے اپنی فقہ کے مطابق نماز جنازہ پڑھتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس مسجد سے گاؤں کے غرباء کیلئے فلاح و بہبود کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔

مولانا مظہر علی شاہ۔ امام و خطیب اہل تشیع

مسجد امام حُسین میں اہل سنت والجماعت کے امام و خطیب مولانا محمد آصف نے کہا کہ مسجد ہذا، ان کی پیدائش سے پہلی کی بنی ہوئی ہے اور ان پچیس سالوں میں آج تک کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ مولانا آصف نے کہا کہ دونوں مسالک کے ممبروں سے کبھی بھی فرقہ واریت پہ بیان بازی نہیں ہوتی، بلکہ ہمیشہ امن، محبت، برداشت اور بھائی چارہ کی تبلیغ ہوتی ہے۔انہوں نے قرآن مجید کی آیت "اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ بازی سے بچو” کا مفہوم بتاتے ہوئے کہا کہ دونوں مسالک میں دھائیوں کا اشتراک مستقبل میں بھی رہے گا۔

مولانا محمد آصف۔ امام و خطیب اہل سنت والجماعت

پیراں کے مرکزی امام بارگاہ کے متولی سید اعجاز رضا نے پیراں میں شیعیت کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ پیراں میں 1932 سے شیعیت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اعجاز رضا سے پہلے ان کے والد مرکزی امام بارگاہ کے متولی تھے۔ ان کے مطابق شروع ہی سے پیراں کے شیعہ سنی اسی مسجد میں اپنی عبادات ادا کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ محرم کے تقریبات میں اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہل سنت والجماعت کے لوگ بھی مجلس و جلوس میں شریک ہوتے ہیں اور انتظامات کرتے ہیں۔

پیراں کے مرکزی امام بارگاہ کے متولی سید اعجاز رضا

پشاور کے صباحت اللہ کا تعلق اہل سنت والجماعت سے ہے، 2006 میں صباحت اللہ کی شادی مانسہرہ پیراں کے شیعہ گھرانے سے ہوئی۔ جبکہ وہ گزشتہ پانچ سالوں سے پیراں میں درزی (ٹیلر) ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ مسلک سے بالاتر ہوکر معاشرتی بھائی چارے پہ یقین رکھتے ہیں اور پُرامن زندگی گراز رہے ہیں۔ صباحت اللہ کے مطابق وہ اپنی شیعہ اہلیہ کے ساتھ محرم کے جلوس میں شریک ہوتے ہیں اور مجلس میں بھی بیٹھتے ہیں۔

صباحت اللہ مقامی اہل سنت والجماعت

مقامی سوشل ورکر محمد وسیم نے شیعہ سنی بھائی بھائی کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا کہ ان کا گاؤں اور جامع مسجد امام حُسین اس نعرے کی اپنی مثال آپ ہے اور یہ مسجد اللہ کا گھر ہے، جو کسی ایک فرقے یا قوم کی نہیں بلکہ تمام مسالک کی مشترکہ مسجد ہے اور سب مسلمانوں پہ اس مسجد کے دروازے کھلے ہیں۔ محمد وسیم اور ان کے دوست علاقے میں بلاتفریق غرباء کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں۔

محمد وسیم۔ مقامی سوشل ورکر

مقامی رہائشی قمر عباس نقوی اہل تشیع ہیں، ان کی اہلیہ اور سسرال اہل سنت والجماعت سے ہیں۔ جبکہ قمر عباس کی والدہ بھی اہل سنت سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں مسلکی ہم آہنگی کے پیش نظر کبھی کسی فرد نے دوسرے فرد سے فقہی و نظریاتی اختلاف نہیں رکھا۔ ہم سب مخصوص مسلکی ایام میں دوسروں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں اور اتفاق سے رہتے ہیں۔

قمر عباس نقوی۔ مقامی اہل تشیع

اس حوالے سے مذہبی ہم آہنگی پہ کام کرنے والے صحافی سبوخ سید نے کہا کہ پاکستان میں آئے روز اکثر بری خبریں آتی رہتی ہیں مگر مانسہرہ میں اہل سنت والجماعت اور اہل تشیع کی مشترکہ مسجد ملک میں مسلکی و مذہبی ہم آہنگی کی مثال ہے اور یہ خبر پاکستان کے مسخ شدہ چہرے کو درست کرنے کی بہترین کوشش ہے۔ ملک میں جہاں مذہب کے نام پر فساد اور تقسیم کی صورتحال نظر آتی ہے. وہیں پیراں کی جامع مسجد امام حُسین رواداری اور امن کیلئے ماڈل مسجد ہے۔

صحافی سبوخ سید

سبوخ سید نے مزید کہا کہ ایک ہی گاؤں یا شہر میں رہنے والے کچھ شیعہ سنی اکھٹے نہیں ہوتے اور محرم و عید میلادالنبی کے ایام میں ایک دوسرے کو للکارتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات تصادم بھی ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محفل و مجلس کیلئے دوسرے علاقوں کے علماء و ذاکرین جو مقامی ماحول سے آشنا نہیں ہوتے، ان کے بجائے اہل علاقہ اپنے مزاج کے مطابق رواداری اور امن کے ساتھ تقریب کا انعقاد کریں تو ماحول زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔

پیراں میں دونوں مسالک کے لوگوں میں رشتہ داریاں موجود ہیں، نوجوان ایک ساتھ سکول و مدرسہ جاتے ہیں اور اکھٹے کھیلتے ہیں۔ پیرا کے اہل تشیع اور اہل سنت والجماعت کے لوگ اپنا مذہب و مسلک چھوڑو مت اور دوسروں کے مذہب و مسلک کو چھیڑو مت کے نظریہ پہ عمل پیراں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے