میں ابھی تک کم عمری کی شادی کے صدمے سے نہیں نکل پائی

کم عمری میں شادی ۔۔۔ تو اس سے لڑکی کی صحت خراب ہونےکا کیا تعلق ہے؟ اس میں کون سا ہیلتھ رسک ہے بھلا۔۔؟ اور یہ بات سننے کے بعد صبح سے لے کر سہہ پہر کی اس گھڑی تک میں اس شاک کی کیفیت سے خود کو نکال ہی نہیں پائی، جو اس ایک جملے سے مجھے لگا ۔

صحافت کے ایک شعبہ سے تعلق رکھنے والے بظاہر سمجھدار مرد کے منہ سے ادا ہونے والا جملہ اور اس سے پہنچنے والی کوفت کا زکر بعد میں، پہلے آپ کی معلومات کے لیے ہم بتاتے چلیں کہ پاکستان میں کم عمری میں شادیوں کے حوالے سے اعداد و شمار کیا ہیں اور ماہرین صحت کی اس حوالے سے کیا رائے ہے؟

ہیومن رائٹس کیششن آف پاکستان کے مطابق سال 2022 اور 2023 کے دوران کم عمری کی شادی کے "بلوچستان میں دو، خیبرپختونخوا میں چار، پنجاب میں 18 جبکہ سندھ میں کل 46 کیسز” رپورٹ ہوئےہیں۔

لیکن یہ تعداد اس سے کہیں ذیادہ ہے کیونکہ ادارے کے مطابق یہ صرف وہ کیسز ہیں جو میڈیا میں اپنی جگہ بنا پائے اور اس سے یہ ڈیٹا مرتب ہوا۔ قانون کی پکڑ سے بچنے کے لیے ایسی متعدد شادیاں اکثر خاموشی سے کی جاتی ہیں اور وہ میڈیا کی آنکھ سے اوجھل رہتی ہیں۔

ماہرین صحت بھی ایسی شادیوں میں بچیوں میں تولیدی صحت کے مسائل سے خبردار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کم عمری کی شادی میں بچیاں بہت جلدی حاملہ ہو جاتی ہیں اور پھر صحت کے ان مسائل کی ایک طویل فہرست ہے. جس کا سامنا چھوٹی عمر میں ماں بننے والی بچیوں کو کرنا پڑسکتا ہے۔

پچھلے ایک سال کے دوران پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہمیں کم عمری کی شادی کی خبریں تو پڑھنے اور دیکھنے کو ملتی ہی رہیں لیکن ایسی شادیوں کے بعد خصوصا کم عمری میں ماں بننے کی صورت میں لڑکی اور ہونے والے بچے کے لیے کس قدر ہیلتھ رسک ہیں، اس پر کہیں بات ہوتی دکھائی نہ دی تو سوچا کہ قلم اٹھا کر اپنے حصے کی آگاہی کا فریضہ نبھایا جائے ۔

اسی سلسلے میں ڈیٹا کو شائع کروانے کی باری آئی تو اس جواب کے ساتھ دو معروف اداروں کی جانب سے جواباً معذرت آئی کہ ’ ایسے ٹاپک نہیں پڑھے جاتے، ان موضوعات کے علاوہ کچھ لکھیں تو ہم چھاپ دیں گے۔‘

اس کورے جواب کو سننے کے بعد ہم نے ڈیجیٹل میڈیا کا رخ کیا اور وہاں اپنے دوست سے اس امید پر بات کر رہے تھے کہ وہ اس موضوع کی حساسیت کو ضرور سمجھیں گے مگر ان کا یہ جواب کہ کم عمر ی میں شادی پر لڑکی کی صحت کیسے متاثر ہو سکتی ہے، نے مجھ پر لازم کیا کہ درجنوں میڈیا ہاؤسز اور سینکڑوں ڈیجیٹل چینلز کے وجود میں آنے کے بعد آج بھی بچیوں کی شادی جیسے ’بور اور ریٹنگ نہ دینے والے‘ موضوعات پر نہ صرف آگاہی کی شدید ضرورت موجود ہے بلکہ میڈیا میں ایسی شادیوں کے رسک کو تواتر سے ہائی لائٹ کر نا لازم ہے تاکہ ہر طبقہ فکر ان خطرات سے غافل نہ رہے۔

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ شادی کا ایک بنیادی مقصد ایک خاندان کی بنیاد رکھنا ہوتا ہے تاہم کم عمری کی شادی کی صورت میں لڑکی نہ صرف شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقات نبھانے میں دشواری کا سامنا کر سکتی ہے بلکہ دوران حمل اور زچگی کے وقت پیچیدگیاں ماں اور بچے دونوں کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار کر دیتی ہیں۔

پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں موجود چائلڈ میرج ایکٹ کے مطابق شادی کے وقت لڑکے کی کم از کم عمر 18 اور لڑکی کی عمر 16 سال ہونا ضروری ہے۔ جبکہ سندھ نے اس ایکٹ میں ترمیم کر کے دونوں کی عمر 18 سال قرار دی ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کا ڈیٹا ہمیں بتاتا ہے کہ پاکستان میں قوانین کے برعکس 15 سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کی شادیاں بھی کر دی جاتی ہیں، جس کی شرح لڑکوں میں 2 فیصد اور لڑکیوں میں 3.6 فیصد ہے۔ جبکہ 18 سال سے پہلے 18.3 فیصد بچیاں شادی کے رشتے میں باندھ دی جاتی ہیں جببکہ لڑکوں میں یہ شرح 4.7 فیصد ہے۔

صحت کے وہ کون سے چیدہ چیدہ مسائل ہیں جو کم عمری کی شادی سے جڑے ہوئے ہیں

ڈاکٹرز کے مطابق صحت کے مسائل کی ایک طویل فہرست ہے، جس کا سامنا چھوٹی عمر میں ماں بننے والی بچیوں کو کرنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد کی گائناکولوجسٹ پروفیسر نابیہ طارق کے مطابق ؛
’کیونکہ کم عمری کی شادیاں زیادہ تر غریب اور پسماندہ طبقے میں ہوتی ہیں، اس لیے ان بچیوں کے پاس وہ وسائل دستیاب نہیں ہوتے، جن سے وہ اپنا اور ہونے والے بچے کا بخوبی خیال رکھ سکیں یا ڈاکٹر کو دکھا کر علاج کروا سکیں تو اس کے نتیجے میں بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

ڈاکٹر نابیہ کے مطابق؛
• کم عمری کی شادی میں بچیاں بہت جلدی حاملہ ہو جاتی ہیں .
• کم عمری میں بچیوں کی ہڈیاں اور جسم ابھی زچگی کے عمل سے گزرنے کے لیے تیار بھی نہیں ہو پاتا ،جب ان کو اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے تو بچیاں ساری زندگی ان پیچیدگیوں کا سامنا کرتی ہیں.
• دوران زچگی بہت زیادہ خون ضائع ہونے کے باعث بچیاں جان کی بازی تک ہار جاتی ہیں.
• دوران حمل مسائل میں بچہ ضائع ہوجانا، غیر محفوظ ابارشن، بچے کا مردہ حالت میں پیدا ہونا شامل ہیں .
• کم عمر بچیاں جب زچگی کے پیچیدہ عمل سے گزرتی ہیں تو فیسٹولا کا شکار بھی ہو سکتی ہیں، جو ان کی زندگی کو بدترین حالات میں لے جاتا ہے۔
یاد رہے کہ دورانِ زچگی پیچیدگی سے پیشاب اور پاخانے کی نالیوں پر دباؤ آنے سے سوراخ بننا فیسٹولا کہلاتا ہے، اس سوراخ سے اس میں سے پیشاب یا پاخانہ یا دونوں مسلسل رستے رہتے ہیں۔

ڈاکٹرز کے مطابق ’ان بچیوں کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہو پاتا اور نہ ہی بچوں کی پیدائش میں وقفے پر کوئی کنٹرول ہوتا۔‘
کم عمری کی شادی جسمانی صحت پر اثر انداز ہونے کے علاوہ ذہنی صحت کے مسائل بھی بڑھا دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب بچیوں کو سکول ایجوکیشن سے نہیں گزارا جاتا، جب ان کے کھیل کود اور ہنسنے کھیلنے اور سیکھنے کی عمر میں ذمہ داریوں میں ڈال دیتے ہیں تو ان کی ذہنی صحت بہت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ڈپریشن، انگزائٹی اور ان جیسے دیگر مسائل ایسی بچیوں میں بہت عام ہو جاتے ہیں۔
’اگر کوئی مسئلہ برائی بن جائے تو ریاست کو چاہیئے کہ اس کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔‘

انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے ایڈوکیٹ شرافت علی نے بچوں یا کم عمری کی شادی کی بڑی وجہ غربت کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس غلط پریکٹس کی ایک بڑی وجہ سوشیو اکنامک کنڈیشن ہے۔

’ایسا ہمیں بہت کم نظر آئے گا کہ پڑھے لکھے یا کھاتے پیتے گھرانوں میں کم عمری کی شادیاں ہوں۔ ذیادہ تر کم پڑھے لکھے یا غریب گھرانے کے لوگوں میں اس کا رواج ملتا ہے ۔ جس میں شادی کو بچیوں کی حفاظت سے جوڑا جاتا ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں ہوتا ہے کہ اکیلی بچی گھر سے باہر کیسے جائے گی ؟ اس کو پروٹیکشن کا مسئلہ ہے اور انھیں گمان ہوتا ہے کہ شادی ہو کر حفاظت میں آئے گی۔‘

’اس میں مذہب کا پہلو بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ اسلام میں ہے کہ بالغ ہوتے ہی شادی کر دو تو ایک فالس ریلیجیئس آرگومنٹ استعمال کیا جاتا ہے۔ تو اس کو روکنے کے لیے درست اور ٹھوس ریلیجئس آرگیومنٹ چاہیے جیسا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور نے کم عمری کی شادی سے متعلق ایسے ہی ایک کیس، جس میں بڑی اچھی ججمنٹ دی کہ اگر کوئی مسئلہ برائی بن جائے تو ریاست کو چاہیے کہ اس کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔‘

’اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی ججمنٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ چائلڈ میرج دراصل سیکشوئیل ابیوز ہے اور اس پر پاکستان پینل کورٹ کے سیکشوئیل ایبیوز کے چارجز لگنے چاہیئیں۔ ‘
شرافت علی کے مطابق ’ اسلامی نظریاتی کونسل بھی چائلڈ میرج کی منظوری نہیں دیتا۔ تو اس کی روک تھام کے لیے موجودہ قوانین پر سختی سے پورے طور عمل درآمد کروایا جائے ۔‘

جب تک سوشل اکنامک کنڈیشن بہتر نہیں ہو گی غربت کا مسئلہ حل نہیں ہو گا .جب تک بچیوں کی حفاظت کا مسئلہ حل نہیں ہو گا ، تب تک والدین ڈرتے ہوئے یا غربت کے مارے اپنے بچوں کی شادی کو روک نہیں سکتے۔

شرافت علی کے مطابق سندھ میں جو سب سے ذیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس کی ایک وجہ اندرون سندھ سے فورس میرج اور ہندو بچیوں کا مذہب تبدیل کروا کے شادی کی جاتی ہے اور اس کے پیچھے بھی غربت جڑی ہوئی ہے۔

’جہاں تک جنسی تشدد کا تعلق ہے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کی ججمنٹ کے مطابق یہ سیکشوئیل ایبیوز ہے اگر بچہ چائلڈ میرج میں دے رہے ہیں، چاہے نکاح ہی کیوں نہ کیا گیا ہو ،وہ سیکشوئیل ایبیوز ہے۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے