میں صنفی لینس سے عام معاملات جیسے کہ روزی کی تلاش ، تعلیم حاصل کرنے کی جدوجہد ، گھر بنانے کی آرزو ، پسند کے کھانے، پہناوے اور دوست ہونے کی تمنا ، اچھے انسان سے شادی ،بچوں کی پلاننگ ، بیماری ، بیوفائی ، بےمروتی ، وعدہ خلافی وغیرہ وغیرہ کو کیوں دیکھتی ہوں یا مصر رہتی ہوں کہ ان کو عورت کی نگاہ سے ، طاقت پر مساوات کے عدم توازن سے پرکھا جائے ؟ یہ ان چند سوالات یا شکایات میں سے ایک نمایاں ہے، جن کا سامنا مجھے میرے معقول حد تک لکھے پڑھے دوستوں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے .
میں کیا کروں ؟ میں زندگی کو خانوں میں نہیں بانٹ سکی اور ایک مکمل تصویر کی طرح دیکھنا اور سمجھنا چاہتی ہوں . نا صرف صنفی بلکہ انٹر سیکشنلٹی لینس سے زندگی کا جائزہ لیتی ہوں، ہر ہر ظلم ،تشدد اور نا انصافی کا جوزا عورت کے ہی وجود میں ہی ثبت کرنے والے معاشرے میں سانس لینے کی کوشش کرتی ہوں . اس سعی میں میرا کیا احوال ہوا یہ کہانی پھر سہی .
آج تھوڑی سی مثالیں پیش کروں گی،جس سے شائد ان کو جو ابھی تک نا آشنا ہیں کہ عورت بھی انسان ہے، ان کو یہ آگاہی ہو کہ عورت اور مرد برابر ہیں مگر ایک جیسے نہیں ہیں . اور جو خواتین اور لڑکیاں خود کو برابر کا انسان جان کر گھر بھی چلاتی ہے، نوکری یا کاروبار بھی کرتی ہیں اور اپنے بل پہ ہی کرتی ہوں اور عورت ہونے کو یا نسوانیت کو کیش نہیں کراتیں یا چالاکی اور چاپلوسی جیسی خصوصیات سے محروم ہوتی ہیں، ان کی زندگی کتنی مختلف اور مشکل ہوتی ہے . ایک عورت کو گھر کا سربراہ کم ہی جانا یا مانا جاتا ہے، چاہے اس کے پیسے سے پورا خاندان پل رہا ہو ، یہ اعزاز کبھی نا نظر آنے والے بھائی یا خاوند کے پاس ہی رہتا ہے . بہت کم عورتیں اپنی مرضی سے نقل و حرکت کر سکتی ہیں .عورت اگر شادی نا کرے تو سوالیہ نشان، مطلقہ ہو توکلنک کا ٹیکا، بیوہ ہو تو منحوس .
ایسی عورتیں اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود بہت سے دھوکوں کا جن میں مالیاتی اور جذباتی فراڈ شامل ہوں، ان کا شکار ہو جاتی ہیں. صنفی امتیاز کی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اکثر ہی وہ ان مصائب کی شکایات نہیں کرسکتیں، جس کی بنیادی وجہ یا تو ایسے قابل اعتماد مددگار فارمز کا نا ہونا یا یہ اندیشہ لاحق رہنا جو برحق بھی ہے کہ وہ ہی معتوب ٹھریں گی یا ان پر کوئی مزید جبر ہو گا . ایک بہت حساس اور نازک معاملہ بظاہر مضبوط ،آزاد اور خود مختار عورتوں کی نجی زندگی ہے . اس موضوع پر بھی زیادہ کھل کراصل بات نہیں ہوتی اور سچائی سے بیشتر لوگ لا علم ہوتے ہیں لیکن ایک عورت کی زندگی کو کانٹے دار ضرور بنا دیتے ہیں .
میں نے اکثر نا صرف اپنے پاکستانی ، دیسی ، رنگا رنگ معاشرے بلکہ بدیسی سوسائٹی کی سوچ کے پٹرنس ، کلچر اور روایت کو سفاک ، بے رحم، شقی اور خوں ریز تک قرار دیا ہے . ایک متضاد روئیے کی مثال تو زبان ،محاورے اور مذاق ہیں . اس پر میں نے ٹی وی پروگرام سے لے کر ورکشاپ اور کلاس روم لیکچر بھی کیئے اور اس وقت جب ان پہلوؤں پر بات نہیں عام تھی . اب تو بہت بہتر صورت حال ہے. ڈونرز فنڈز ہیں، یوتھ کی طرف ،فیمنسم کی طرف جھکاؤ ہے اور بہت سے گھمبیر مکالموں کا آغاز ہو چکا ہے. اب ہر کوئی صحافی، فیمنسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کریٹر اورسلیبرٹی ہے . تاہم وقت تعین کرے گا کہ خواتین کے حوالوں سے متعصب اور نامناسب رویوں ، لفظوں اور قوانین میں کتنی اور کیا کیا اچھی تبدیلیاں آئی ہیں. میرا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ کوگر جیسے انگریزی لفظ کو عورت پیر کی جوتی ہے، سالی آدھی گھر والی یا جورو کا غلام جیسے اردو محاوروں بین کردیا جائے. یا مردوں سے پوچھا جائے کہ جب آپ اپنی بیٹی سے بھی کم عمر لڑکی سے طاقتور ہونے کے ناطے تعلق بناتے ہیں یا شادی ہی کر ڈالتے ہیں تو آپ کو کیا نام دیا جائے؟ یا جب آپ چھپ کر شادی کرتے ہیں اور اس شادی کو نہیں مانتے تو وہ بیوی کیوں رلتی ہے؟معاشرہ اس کو کیوں تباہ و برباد کرتا ہے؟مرد سے سوال کیوں نہیں ہوتے؟
پدر سری ایک سوچ ہے اور صرف مردوں کی میراث نہیں ہے . پدر سری کو توڑنا اہم ہے، اگر ہم ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دینا چاہتے ہیں ،جہاں چھوٹے بچوں سے لے کر بزرگ افراد تک نسلی میک اپ اور جنسی شناخت کی آزمائشوں سے بالا تر ہو کر تحفظ کے احساس کے ساتھ جی سکیں اور انصاف ، صحت، تعلیم ، ملازمت ،کاروبار اور ٹرانسپورٹ تک سب کی رسائی ہو ،ان سب کی ضروریات کے مطابق ، شائد یوٹوپیا میں ایسا ہو . اس دنیا میں کیا ہو رہا ہے ؟ ہم سب واقف ہیں. یو این کی ایک رپورٹ کے مطابق پدرسری کو ختم کرنے کے لیے جس رفتار سے دنیا بھر میں کام ہورہا تو "صرف تین سو سال” میں اس کا خاتمہ ممکن ہے . اس کی ایک تشریح میرے نزدیک یہ ہے کہ میری اور آپ جیسی تمام عورتیں ( خودار، ناشکر گزاراور شائد گنہگار) اس وقت تک اس دنیا میں …. اس پدر سری دنیا میں… آنکھیں کھلی رکھنے کے باوجود دکھ اور دھوکے سے نہیں بچ پائیں گی . اللہ ہمارا محافظ ہے .
– ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔