ایک عجب طرزِ عمل سوشل میڈیا پر سامنے آرہا ہے کہ فوج پر تنقیدکرنا فیشن بن گیا ہے۔ کسی بھی سانحے کا تقابل بلا جھجک عسکری اداروں سے متعلق واقعات سے کیا جاتا ہے کہ فوجی اسکول یا اسکے کسی ذیلی ادارے پر حملہ ہوا تو فوج کا کیا ردّ عمل تھا اور اب کیا ہے۔ طنزیہ انداز اختیار کیا جاتا ہے کہ جیسے فوج عوام کو اہمیت نہیں دیتی اور اپنی زیادہ فکر کرتی ہے۔
خود کو لبرل کہلانے والے بھی فوج پر برا ہِ راست تنقید کرتے ہیں کہ یہ غیر عسکری کام جیسے ہاؤسنگ اسکیم وغیرہ میں مشغول ہے جبکہ اسکو صرف سرحد کی حفاظت کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔
فوج پر بلا واسطہ اور بالواسطہ تنقید غلط اور غیر ذمّہ دارانہ طرزِ عمل ہے جو عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرسکتا ہے۔
یاد رکھیں کہ ایک بڑی فوج کو شکست دینا اس وقت آسان ہوجاتا ہے جب عوام اس سے دور ہوں اور آپس میں بٹے ہوئے بھی ہوں۔
پاکستان کے حالات اتنے سادہ نہیں جتنے ہمارے کچھ دوست ظاہر کرتے ہیں۔
اس دور میں اگر آپ طاقتور نہیں تو ایک تاریخی دشمن کے پڑوس میں آزادی سے رہنادشوار ہے ۔
ایسا دشمن جس نے تاریخ بھُلائی نہیں بلکہ یاد رکھی ہے۔
ہمارا پڑوسی وہ ہے جس کی وزیرِ اعظم نے مشرقی پاکستان کے سقوط پر دنیا کے سامنے کہا کہ انہوں نے ہزار سالہ تاریخ کا انتقام لے لیا!
اس نے ببانگِ دہل کہا کہ اس نے دو قومی نظریئے کو خلیجِ بنگال میں ڈبودیا۔
اس لئے بھائی چارے کی تصوّراتی” لبرل” دنیا سے نکل آئیں۔
وہ نہ دوست تھا نہ ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ یہی تاریخ کا سبق ہے۔
ہمارے بزرگوں نے کئی سو سال کے تجربات کے بعد ہی وہ محاورہ بنایا ہے کہ بغل میں کچھ اور منہ پہ کچھ اور، غالباً آپ سمجھ گئے ہونگے۔
کویت کی مثال سامنے ہے کہ کثیر دولت ہوتے ہوئے بھی چند گھنٹوں میں عراق کے آگے نا بود ہوگیا تھا۔
اس وقت ہم اور ہماری فوج تاریخ کے سب سے کڑے امتحان سے گزر رہی ہے اور یہ وقت اسے سپورٹ کرنے کا ہے نہ کہ تنقید کا!
فوج ایک تربیتی، تعلیمی اور عسکری ادارہ ہوتا ہے جو ملک کی دفاع کا ذمہّ دارہوتا ہے۔
ہمارے آپ کے بچّے ہی اس میں جاتے ہیں لیکن غور کریں کہ وہاں ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ ایک مختلف ا انسان بن جاتے ہیں جن میں ڈسپلن اور جفا کشی عود کر آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اس ادارے کی تربیت اور وہاں کا ماحول ہوتا ہے جو کسی انسان کو ایک الگ سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔
پاکستان کی فوج دنیا کی ایک بڑی پروفیشنل فوج ہے۔عسکری مہارت کے علاوہ اس نے اپنے اسٹاف کو مصروف رکھنے کے لیئے عمدہ پلاننگ کی ہے جو ملک کی معاشی ترقّی میں معاون بھی ہے۔
ڈیفنس سوسائٹی یا کالونی زمین کا ایک ٹکڑاہی تو ہوتا ہے جس کی دیکھ بھال، حفاظت اور زیبائش ایسی ہوتی ہے کہ ہر سویلین وہاں رہنا چاہتا ہے۔
فوج تو یہ پلاٹ اپنے ملازمین کو کم قیمت پر دیتی ہے جسے مہنگے داموں سویلین خریدتے ہیں۔ شہری فوج کے انتظام پر اعتماد کرکے ہی ڈیفنس کے پلاٹ اور مکانات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں کیونکہ عوام کا جواعتماد اس ادارے کو حاصل ہے وہ اعتماد عوامی حکومت اور ادارے کھو چکے ہیں۔ ڈیفنس کاپلاٹ چار چار فائلوں پر نہیں بکتا اور نہ ہی خالی پلاٹ پر کوئی مافیا قبضہ کرسکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر عوامی حکومتیں کسی رہائشی اسکیم کو ایسا ہی محفوظ اورصاف ستھرا کیوں نہیں بناتیں؟ اگر یہ ایسا کرتیں تو عوام کبھی ڈیفنس کالونی کو ترجیح نہ دیتے۔ اسی طرح ہر سول ادارے کا حال ہے جس میں ڈسپلن اور ایمانداری مفقود ہے۔
ہونا تو یہ چاہیئے کہ عوامی بہبود کے کاموں میں فوجی اداروں سے صحت مند مقابلہ کیا جائے اور ان سے بہتر پرفارم کیا جائے لیکن اس کے برعکس ایسا لگتا ہے
کہ فرسٹریشن اور جلن میں اپنے ہی قابلِ احترام ادارے پر لعن طعن کی جاتی ہے جو بڑے افسوس کی بات ہے۔
فوج کے اچھے کام کی تعریف کریں تاکہ نااہلوں کو کچھ غیرت آئے۔ شہری اداروں کو مثبت کام پر اُکسائیں۔
فوج کے نغمہ بنانے پر طنز سے بہتر ہے کہ آپ ایک نہیں دس زیادہ اچھے نغمات بنائیں۔
لہٰذا اگر آزادی کی حفاظت مطلوب ہے تو اپنی فوج کی قدر کریں۔
فوج کو متنازعہ اور تماشا نہ بنایئے ورنہ یہ یاد رکھیں کہ…..
دشمن ہم کو تماشہ بنانے کی تاک میں ہے۔
اپنی فوج پر تنقید کرنے والے پاکستان کے نادان دوست ہیں۔
ان سے یہی التماس ہے کہ نادانستگی میں اپنے دشمن کے دوست بنکر ملک کو کمزور نہ کریں۔
سوشل میڈیا پر ذمّے داری دکھائیں۔