انصاف کی تلاش

پاکستان کے عوام کی زندگی میں روزانہ پیش آنے والے مسائل کسی کہانی کا حصہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہیں۔ یہ مسائل غربت اور معاشی مشکلات تک محدود نہیں بلکہ بدعنوانی، بدانتظامی، اور ناانصافی نے ہر طبقے کی زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ ایک عام شہری جو روزمرہ کی جدوجہد میں مصروف ہوتا ہے، اس کے مسائل سیاست دانوں اور سرکاری اداروں کی توجہ سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بدعنوانی کی جڑیں نچلی سطح تک پھیلی ہوئی ہیں۔ پھل فروش سرکاری نرخ پر بیچنے کے بجائے اپنی من مانی قیمت وصول کرتا ہے، گوشت فروش خراب گوشت ملاتے ہیں، اور دکاندار استعمال شدہ سامان کو نئے کی قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ تعمیراتی مٹیریل کے شعبے میں بےایمانی عام ہے، اور پراپرٹی کے شعبے میں غیر قانونی سوسائٹیوں کے ذریعے عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ سرکاری دفاتر اور ادارے، جو عوام کی خدمت کے لیے بنائے گئے تھے، خود عوام کے لیے ایک عذاب بن چکے ہیں۔

سرکاری اداروں میں شکایات کا نظام مکمل طور پر ناکام ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کو سائبر کرائم میں کوئی شکایت درج کروانی ہو، تو ان کا آن لائن سسٹم اکثر غیر فعال ہوتا ہے۔ دفتر فون کریں تو کوئی فون نہیں اٹھاتا۔ اگر آپ کسی پولیس ناکے کی زیادتی کے خلاف شکایت کرنا چاہیں، تو متعلقہ افسران فون تک سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ اگر آپ ایس ایس پی آپریشنز کو فون کریں، تو ان کا پی اے بات کرنے نہیں دیتا۔ ایسے میں ایک عام شہری کہاں جائے؟ کس سے شکایت کرے؟ انصاف کا کوئی دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے بھی دستیاب نہیں۔

واپڈا جیسے ادارے ہر ماہ بل وصول کرتے ہیں لیکن عوام کو معیاری بجلی فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ وولٹیج کی کمی بیشی سے لوگوں کا قیمتی سامان خراب ہو رہا ہے، مگر کسی کو پرواہ نہیں۔ ٹریفک پولیس نابینا شخص کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کرتی ہے، اور تھانوں میں شکایت کرنے والے شہریوں کو گھنٹوں ذلیل کیا جاتا ہے۔ ان تمام حالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قانون اور انصاف ہمارے معاشرے میں ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔

پاکستان بنے 77 سال ہو چکے ہیں، اور ہم اب بھی ایک ایسے ملک کا خواب دیکھ رہے ہیں جہاں انصاف کی بالادستی ہو اور بدعنوانی کا خاتمہ ہو۔ مگر یہ خواب کب حقیقت بنے گا؟ کیا ہمارے بچے ایک ایسے پاکستان میں جی سکیں گے جہاں ایمانداری اور انصاف کا بول بالا ہو؟

یہ وقت ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داری کا ادراک کریں۔ صرف سیاست دانوں کو الزام دینا کافی نہیں، بلکہ ہر شہری کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اپنے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا، اپنی اصلاح کرنی ہوگی، اور ایک بہتر پاکستان کی تعمیر کے لیے قدم بڑھانا ہوگا۔ یہ سفر مشکل اور طویل ہے، مگر اگر آج شروعات نہ کی گئی تو شاید کل بھی یہی سوال رہے گا: "کیا انصاف ممکن ہے؟”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے