ہزارہ ڈویژن پاکستان کا وہ خوبصورت خطہ ہے جو اپنی ایک تہذیب و ثقافت اور پہچان رکھتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن اور اس کے رہنے والے نہ صرف اپنی تاریخ سے آگاہ ہیں بلکہ وہ تاریخی شعور بھی رکھتے ہیں۔ اگر ہزارہ ڈویژن کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جائے تو پرانے وقتوں میں ہمیں یہ علاقہ گندھارا تہذیب کا حصہ نظر آتا ہے۔ مور یا سلطنت کے دور میں اسے ” ارسا” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اشوکا کے احکامات آج بھی ہزارہ کے کئی پہاڑوں میں لکھے نظر آتے ہیں۔ ہزارہ ڈویزن میں تیسری صدی سے لیکر پانچویں صدی تک مقامی ہندو راجے حکومت کرتے نظر آتے ہیں۔ عہد مغلیہ میں یہ علاقہ مقامی سرداروں کے زیر نگین رہا۔ اور نگزیب عالمگیر کے بعد جب مغل حکمران و حکومت کمزور ہو گئی تو احمد شاہ دورانی نے ہزارہ کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اور ہزارہ کے مقامی سرداوں کے ذریعے یہاں حکومت کی۔
ہزار ہ ڈویژن میں سکھ عہد حکمرانی کا آغاز انیسویں صدی میں اس وقت ہوا جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب میں اپنی حکومت قائم کی۔ ہزارہ کے میدانی علاقے مثلا ہری پور کو تو سکھوں نے آسانی سے اپنے قبضے میں کر لیا۔ مگر دشوار گزار پہاڑی باتوں پر لکھوں کو اپنی حکومت قائم کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہزارہ ڈویزن میں سکھ عہد حکومت کا جائزہ لینے سے دلچسپ تاریخی چیزیں واضح ہوتی ہیں۔ جہاں اس مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سکھوں نے ہزارہ میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے وہاں ہزارہ والوں کی دلیری اور آزادی سے محبت بھی اس میں ثابت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مطالعہ ہمیں یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ہزارہ ڈویزن کس طرح ماضی و تاریخ میں الگ و جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ کبھی بھی اپنی آزادی پر کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ اس سے ہزارہ کے لوگوں کے مزاج کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ہزارہ میں سکھوں کے عہد حکومت کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے۔
:1 سردار حکما سنگھ ( 1819-1814 ) : مہاراجہ رنجیت سنگھ کی طرف سے حکما سنگھ ہزارہ کا پہلا گورنر تھا۔ اس کے چھوٹے قد اور شاطر دماغ کی وجہ سے اسے ” چینی ” کہا جاتا تھا۔ اس کا باپ سردار رام سنگھ، رنجیت سنگھ کی فوج میں اہم عہدیدار تھا۔ حکما سنگھ کا رویہ ہزارہ کے لوگوں کے ساتھ نہایت متعصبانہ تھا۔ حکما سنگھ کے دور میں ہزارہ کے لوگوں نے سکھ حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ سکھا نہیں باغی جبکہ مقامی ہزارہ وال انھیں حریت پسند کہتے تھے۔ ان میں سید خان کا نام اہم تھا۔ حکما سنگھ نے سید خان اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی ۔ مگر اس سے حالات مزید خراب ہو گئے۔ تو حکم نگاہ کولا ہور در بارنے واپس بلا لیا۔
2: دیوان رام دیال ( 1820-1819) : سردار حکما سنگھ کے بعد لاہور دربار نے دیوان موتی رام کے بیٹے دیوان رام دیال کو نیا گورنر بنایا۔ اس کو عین جوانی یعنی 19 سال کی عمر میں گورنر مقرر کیا گیا ۔ ہزارہ کے لوگوں کا احتجاج اس کے عہد میں مسلسل جاری رہا۔ بالآخر یہاں کے مشہور مقام ” ناڑہ میں ہزارہ وال اور سکھ میں تصادم ہوا اس تصادم میں گورنر کو مار کر اہلیان ہزارہ نے سید خان اور ان کے ساتھیوں کی پھانسی کا انتظام لیا۔
3: امر سنگھ بیٹھا ( 1822-1820) : امر سنگھ ہزارہ میں تیسرا گورنر بن کر 1820 میں آیا۔ نئے گورنر کو مہا راجہ کی طرف سے یہ ہدایت بھی دی گئی کہ اہلیان ہزارہ پر طاقت کا استعمال کم کیا جائے ۔ اسی وجہ سے شروع میں امر سنگھ نے مقامی آبادی کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ مگر کچھ عرصے بعد اپنے نا اہل مشیروں کے زیر اثر اس نے پھر سے طاقت کا استعمال شروع کر دیا۔ اسی وجہ سے اہلیان ہزارہ اس کے خلاف ہو گئے۔ اور سارے ہزارہ کے بڑے قبائل کڑال ، ڈھونڈ ، گوجرہ، تنولی وغیرہ نے اسکے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ بالآخر کڑال قبیلے کے سر براہ سردار حسن خان نے "سمند ر کھٹہ ” کے مقام پر اس گورنر کو بھی قتل کر دیا۔
:4 ہری سنگھ ( 1837-1812) : رام دیال اور امر سنگھ دونوں گورنر کے یکے بعد دیگر نے قتل نے تخت لاہور کو ہلا کر رکھ دیا۔ لہذا لاہور دربار نے ہزارہ کے علاقے کولاہور سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی کے بعد ایک نہایت چالاک ولائق شخص ہری سنگھ نلوہ کو ہزارہ کا نیا گورز مقرر کیا گیا۔ ہری سنگھ نے ہزارہ ڈویژن کو مطیع بنانے کے لیے لمبے عرصے کی پلانگ کی۔ اور یہاں کئی اصلاحات نافز کیں۔ ہری پور شہر بھی اس نے بسایا۔
ہزارہ کے اندر زراعت میں اصلاحات کیں اور آبپاشی کا جدید نظام یہاں کے لیے وضع کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے سختی والی بھی پالیسی اپنائی ۔ اس نے اصلاحات اور سختی دونوں کو ساتھ ساتھ چلایا۔ اس کے عہد حکومت میں سید احمد شہید نے سکھ حکومت کے خلاف ” تحریک جہاد ” شروع کی اس تحریک کا اثر ہزارہ میں بھی رہا۔ مگر مقامی خوانین و سرداران کو ہری سنگھ نے سکھوں کا باغی نہ ہونے دیا۔ ہری سنگھ افغانوں کے خلاف لڑتے ہوئے مارا گیا۔
:5 مہان سنگھ ( 1837 ) : ہری سنگھ کے بعد مہاں سنگھ کو یہاں نیا گورنر بنا کر بھیجا گیا۔ مگر یہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اور جلد ہی استعفیٰ دے کر چلا گیا۔
:6 تیج سنگھ ( 1843-1838) : مہان سنگھ کے بعد تیج سنگھ یا تیج سنگھ ہزارہ کا نیا گورنر بن کر آیا اس کا عہد ہزارہ کے لوگوں کے لیے مشکل اور کھٹن تھا اسی عہد میں سکھ حکومت کے بانی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1839 میں وفات پائی اور لاہور در بارتی سازشوں کا شکار ہو گیا۔ ہزارہ میں اس کا عہد اس حوالے سے بھی یادگار ہے کہ جون 1841 میں ہزارہ میں شدید سیلاب آیا اس میں چھ ہزار سے زائد لوگ مارے گئے اور کئی گاوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے اس کے عہد میں پائندہ خان مشہور ہزارہ والے مارے گئے۔
:7 منشی پنوں ( 1843) : یا ایک معتدل اور رحم دل شخص تھا یہ زیادہ عرصہ ہزارہ میں نہ رہا اور در پاری سازشوں کا شکار ہو کر گورنری سے الگ ہو گیا۔ اس کےمختصر عہد میں اہلیان ہزارہ کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا۔
8: دیوان مراج ( 1846-1843 ) : دیوان طراح کے پہلے دو سال نہایت پرسکون گزرے مگر اہلیان ہزارہ کے دلوں میں جو سکھوں کے خلاف نفرت تھی اس نے سارے قبائل کو متحد کر دیا اور مارچ 1846 میں سارے قبائل نے مل کر ہری پور شہر میں سکھ فوج پر حملہ کر دیا۔ دیوان طراج کے عہد میں گورنر اور اس کی انتظامیہ اپنے مسائل میں پھنسے رہے۔
پہلی انگریز سکھ فوج جنگ (1846-1845) گیارہ دسمبر 1845 کو پہلی سکھ انگریز جنگ شروع ہوئی انگریزوں نے اس جنگ میں سکھوں کو شکست دی اور انگریز جنرل جیف گف نے فروری 1946 میں تخت لاہور پر قبضہ کر لیا مشہور زمانہ لاہور معاہدہ کے تحت کشمیر کی وادی تو گلاب سنگھ ڈوگرہ کے حوالے کر دی گئی مگر ہزارہ پر سکھوں کا اقتدار برقرار رکھا گیا مگر اب سکھ گورنر کے ساتھ ایک انگریز ریزیڈنٹ بھی مقرر کیا جانے لگا۔ جو کہ انگریزوں کا وفادار ہوتا تھا۔
:9 یوان ہری چند (1846) اس نے بطور گورنر ہری پور شہر کو پھر سے منظم کیا مگر یہ زیادہ عرصہ اپنے عہدے پر برقرار نہ رہ سکا۔
:10 بخشی ہری سنگھ (1846) یہ مختصر مدت کے لیے یہاں آیا اور اسے یہاں کی آب و ہوا موافق نہ آئی اور اس نے گورنری چھوڑ دی۔
11:سردار چتر سنگھ اتاری والا (1849-1846) جیمزا پیٹ بطور ریز نوٹ: یہ سکھ حکومت کی طرف سے ہزارہ کا آخری گورنر تھا جیم ایٹ اس کے ساتھ ریز نڈنٹ تھا ا یٹ کا اہلیان ہزارہ کے ساتھ سلوک مثالی تھا جبکہ سردار چتر سے ہزارہ کے لوگ تنگ تھے. اس کے عہد میں دوسری سکھ انگریز جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں 1849 میں ہزارہ سمیت سکھ حکومت کا مکمل خاتمہ ہو گیا اور انگریزوں کے عہد کا آغاز ہوا۔
ہزارہ ڈویژن میں 1814 سے لیکر 1849 تک سکھ حکمران رہے، اس عرصے میں کم و بیش گیارہ سکھ گورنر مقرر ہوئے ۔ اہلیان ہزارہ اور سکھ حکمرانوں کے تعلقات اس تمام عرصے میں کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ ہزارہ کے لوگ مسلسل اس کوشش میں تھے کہ وہ اپنی آزادی و خود مختاری قائم کریں اور اپنے علاقے سے سکھ راج کو ختم کریں سکھ عہد حکومت میں ہزارہ کے لوگوں کی مذہبی و سیاسی آزادی شدید متاثر ہوئی ۔
دوسری طرف اہلیان ہزارہ نے اس تمام عرصے میں بے مثال جرات ، دلیری اور بہادری دکھائی ۔ اور مسلسل سکھوں کے خلاف جدو جہد کی عظیم مجاہد سیداحمد شہید کو اہلیان ہزارہ نے مکمل حمایت دی۔ سکھ حکومت کا خاتمہ انگریزوں سے ہوا اور اس طرح ہزارہ میں انگریز حکمران کی صورت میں آگئے ۔ اس عرصے میں اہلیان ہزارہ نے اپنے لیے الگ ملک کی جدو جہد کی اور بالآخر 1947 میں پاکستان جیسا عظیم ملک حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی جہاں اہلیان ہزارہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہیں، وہیں وہ اپنی الگ شناخت یعنی صوبہ ہزارہ کیلئے بھی مسلسل مصروف عمل نظر آتے ہیں ۔ 80 لاکھ ہزارہ وال آج یک زبان ہو کر صرف اپنے لئے الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں تا کہ وہ اپنی الگ سماجی، سیاسی اور تاریخی حیثیت کو نہ صرف محفوظ کریں ۔ بلکہ اپنے ملک پاکستان کی ترقی میں بھی حصہ ڈال سکیں۔