اقبالؒ کا تصور ریاست

تمام مسلم ریاستیں ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں، کسی ایک کو تکلیف پہنچے تو سب اس کی مدد کو پہنچ جائیں

کسی قوم کیلئے ریاست کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی خاندان کیلئے گھر، قوموں کی اجتماعی زندگی میں نظریہ کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ قوموں کے سیاسی معاشرتی اور معاشی نظریات مل کر ایک نظام حیات ترتیب دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے مسلمانان برصغیر پاک وہند کیلئے نظریات کی چھتری مہیا کی، مسلمان قوم کو خواب غفلت سے بیدار کر کے سیاسی شعور پیدا کیا۔ دسمبر 1930ء میں علامہ اقبالؒ نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد کی صدارت کی اور اپنے خطبہ میں فرمایا :

’’میری خواہش ہے کہ پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے، شمال مغربی برصغیر میں مسلم ریاست کا قیام مسلمانوں کا مقدر بن چکا ہے‘‘

علامہ اقبالؒ روایتی امارات ، سلطانیت یا بادشاہت نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ جدید مسلم ریاست کے قیام کا درس دیتے تھے۔ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی تخلیقی کتاب ’’افکار اقبال،تشریحات جاوید‘‘ میں اس نقطہ کی یوں وضاحت کی ہے ’’اقبال ؒکے نزدیک توحید اساس ہے، استحکام انسانیت، مساوات اور حریت کی ازروئے اسلام ریاست کا مقصد ہی یہی ہے کہ مسلمان ان عظیم اور مثالی اصولوں کو زمان و مکان میں نہ صرف حاصل کریں بلکہ دنیا بھر کو انہیں نافذ کر کے ظاہر کریں۔

اقبال ؒنے اپنے تصور ریاست کے پہلے بنیادی اصول کی وضاحت کرتے ہوئے ’’استحکام انسانیت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کو اپنے آپ کو روحانی طور پر دنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ آزاد سمجھنا چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’اسلام کا مقصد جواب تک صرف جزوی طور پر حاصل ہو سکا ہے ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا قیام ہے۔ آج کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اجتماعی معاشرتی زندگی کو ایسے ہی بنیادی اصولوں کی روشنی میں تعمیر کریں تاکہ اس ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا حقیقت میں انعقاد ہو سکے جو اسلام کا اصل نصب العین ہے‘‘ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ )۔

شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے

یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے

علامہ اقبال ؒکی آرزو تھی کہ مسلمانوں کو انفرادی خودی اور اجتماعی خودی کی اہمیت کا احساس دلا کر ایک جدید طرز کا مسلم معاشرہ قائم کیا جائے جو رنگ و نسل، زبان اور علاقہ کی بنیاد وں کی بجائے اشتراک ایماں پرقائم ہو۔ اس طرح اشتراک ایمانی اور جمہوریت روحانی پر مبنی معاشرہ دور جدید کی تمام تر ضرورتوں کو پورا کرے گا۔ جس میں لوگ آزادی سے رہ سکیں گے۔ مسلمان قوم کیلئے آزاد مقتدر ، مستحکم اور طاقتور ریاست میں حقو ق العباد پورے کرنے کا اہتمام و انتظام ہو۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں، جبر کا زور ختم ہو اور لوگ اپنی مرضی سے اللہ کے اصولوں کے مطابق خیرو عافیت سے زندگی گزار سکیں۔ ظلمت کی سیاہ رات ختم ہو گی۔

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیمات پا ہو جائے گی

اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار

نکہت خوابیدہ غنیچے کی نور ہو جائیگی

فکر اقبالؒ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اقبال ؒکی نگاہ میں اسلامی ریاست ایک ایسی جدید نظریاتی اور مثالی مملکت ہے جس میں نظام ریاست چلانے کے لئے اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اس طرح دین اور ریاست کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوگا۔ اس سلسلہ میں سید عبدا لواحد کی مرتب کر دہ کتاب ’’مقالات اقبال‘‘ کے مضمون جغرافیائی حدود اور مسلمان میں درج ہے: ’’قوم دجال کی جماعت کا نام ہے اور یہ جماعت باا عتبار قبیلہ ، نسل، رنگ، زبان، وطن اور اخلاق ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے لیکن ملت ایسی سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیا اور مشترک کر دہ بنائے گی گویا ملت یا اُمت جاذب ہے اقوام کی، خود ان میں جذب نہیں ہوسکتی‘‘۔

سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا

چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیروی

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری ہوس کی وزیری

علامہ اقبال ؒکے خیال میں شوکت یعنی طاقت کا ہونا ضروری ہے۔ شوکت کی بنیاد اسلامی ہو۔ پسماندہ اقوام ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اب خلافت کا دور بھی واپس نہیں آنا اس لئے مسلم ممالک آپس میں تجارت کر کے اپنے رشتے بہتر طور پر استوار کر سکتے ہیں۔ ایک تو علامہ اقبالؒ نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا نظریہ پیش کیا کیونکہ یہاں مسلمان قوم ہی صحیح معنوں میں قوم کہلانے کی حقدارہے۔ دوسرا نظریہ علامہ اقبالؒ نے ملت اسلامیہ کا پیش کیا کہ پورے عالم اسلام کا اتحاد ہے، تمام مسلم ریاستیں ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ کسی ایک کو تکلیف پہنچے تو سب اس کی مدد کو پہنچ جائیں۔ اس سے مسلم اتحاد ، یگانگت اور عالمگیر اخوت اجاگر ہوتی ہیں جو اسلامی ثقات و تعلیمات کے اہم نقاط ہیں۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر

علامہ اقبال ؒکے خطبہ الٰہ آباد سے پہلی بار برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی مشکلات حالات وواقعات کی گہرائی اور منزل کی صحیح نشاندہی ہوئی۔ انہیں احساس ہونے لگا کہ مسلمانوں کی علیحدہ مملکت ہی متعدد مسائل کا حل ہے ۔ علامہ اقبال ؒکی تعلیمات سے انفرادی اور اجتماعی خودی کے نظریات کے پیش نظر مسلمان ایک زندہ قوم اور اسلام ایک دستور حقیقت اور نظام زندگی ہے۔اسی لئے فکر اقبال میں مغربی طرز ریاست اور اسلامی انداز ریاست میں فرق بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان دین کی بنیاد پر سودا نہیں کرتا محض جمہوریت کی خاطر دین سے ہاتھ نہیں دھوتا ان کا خیا ل تھا کہ مغربی جمہوری نظام بظاہر تابناک ہے لیکن حقیقت میں چنگیزی پائی جاتی ہے۔

تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام

چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر

دیں ہاتھ سے دے کراگر آزاد ہو ملت

ہے ایسی تجارت میں مسلمان کا خسارا

مسلم قومی ریاستوں کو پسماندہ اقوام کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں اشیائے خورونوش پینے کے لئے صاف پانی کی نایابی سر چھپانے کے لئے گھر، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے کی قلت لاعلاج بیماریاں ، علاج معالجہ کا فقدان، بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ، آبادی میں بے حد اضافہ، جہالت اور ناخواندگی میں اضافہ ، مہنگائی اور پیداوار میں کمی مسلمانوں میں مسلسل عدم تحفظ کا احساس بلند ہو رہا ہے۔ ان سب مشکلات و مسائل کا حل صرف اور صرف صحیح معنوں میں مسلم ریاست کا قیام اور اتحاد بین الاقوامی مسلمین میں ہے۔ یہی علامہ اقبال ؒکا تصور ریاست ہے۔ علامہ اقبالؒ یہ بھی بصیرت رکھتے تھے کہ مستقبل میں ترقی یافتہ اقوام پسماندہ مسلمان اقوام کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنیں گی۔ فی زمانہ سپر پاور امریکہ ہے اور اقوام مسلم کا اتحاد پارہ پارہ ہے۔ سیاسی اقتصادی اور تکنیکی استحصال سے بچائو کے لئے مسلم اقوام پر مشتمل ’’جمعیت اقوام‘‘ کی بے حد ضرورت ہے۔ روس کی سویت کے خاتمہ کے بعد امریکہ کا راستہ روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ علامہ اقبال ؒنے ’’جمعیت اقوام ‘‘ کی ترکیب متعارف کرائی تاکہ اتحاد اقوام مسلمانان عالم قائم ہو سکے۔

طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا

شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

علامہ اقبالؒ مسلمانوں کو جدید معاشرہ قائم کرنے کی تلقین کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ جہاں تازہ ان کے تصورات کو عملی جامہ پہنانے ہی سے وجود میں لایا جا سکتا ہے۔

’’روحانی جمہوریت‘‘ کے بعد علامہ اقبالؒ کے تصور اسلامی ریاست کا دوسرا بنیادی اصول ’’مساوات‘‘ ہے جس کے تحت تمام افراد کے بنیادی حقوق کو تحفظ دیا جائے گا۔ تیسرا اصول ’’حریت یا آزادی‘‘ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یا خواہش تھی کہ منتخب نمائندہ اسلامی فقہ اور جدید قوانین سے بھی آشنا ہو ں ان پر عمل پیرا ہوں۔ فکر اقبال میں تمام نقاط کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اجتہاد پر بے حد زور دیا ہے۔ اسلامی ریاست کی ترویج و ترقی کے لئے بھی حالات و واقعات اور ضروریات کے پیش نظر قوانین میں ترامیم اجتہاد سے کی جاسکتی ہیں۔ اسلام کے بنیادی اصول وہی ہیں لیکن قدامت پسندی کو پس پشت ڈال کر مسلسل تخلیقی عمل کے لئے اجتہاد کا راستہ اپنایا جائے گا۔ اجتہاد کرنے کے لئے قابل، زیرک اور معاملہ فہم مجتہد ہونے ضروری ہیں۔

نشاں یہی ہے زمانے میں زدہ قوموں کا

کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا

اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا

جس سمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل

وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا

غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں

پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہْنَر کر

کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا

محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص

کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا

دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

دنیا کو ہے پھر معرکہ رُوح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا

اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا

اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کْہن سے

’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘

پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ!

ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ

ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے

ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے

کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ و بار سے

ہے تیرے گلستاں میں بھی فصل خزاں کا دور

خالی ہے جیب گل زر کامل عیار سے

جو نغمہ زن تھے خلوت اوراق میں طیور

رخصت ہوئے ترے شجر سایہ دار سے

شاخ بریدہ سے سبق اندوز ہو کہ تو

ناآشنا ہے قاعدئہ روزگار سے

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے ، امید بہار رکھ!

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی

عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ!
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی

اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی

آئینِ جواں مرداں ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

فاطمہ بنت عبداللہ

(عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پِلاتی ہوئی شہید ہْوئی)

فاطمہ! تو آبروئے اْمّتِ مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے

یہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقّائی تری قسمت میں تھی

یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سِپَر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر

یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!

اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!

فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمہ عشرت بھی اپنے نالہ ماتم میں ہے

رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے
ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے

ہے کوئی ہنگامہ تیری تُربتِ خاموش میں
پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں

بے خبر ہوں گرچہ اُن کی وسعتِ مقصد سے میں
آفرینش دیکھتا ہوں اُن کی اس مرقد سے میں

تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور
دیدہ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور

جو ابھی اُبھرے ہیں ظُلمت خانہ ایّام سے
جن کی ضَو ناآشنا ہے قیدِ صبح و شام سے

جن کی تابانی میں اندازِ کُہن بھی، نَو بھی ہے
اور تیرے کوکبِ تقدیر کا پرتَو بھی ہے

ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم گورنمنٹ کالج لاہور سے وابستہ ہیں، ایک استاد، ادیب اور کالم نگار ہیں، آپ کی متعدد کتب بھی شائع ہو چکی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے