میری کہانی! (ساری اقساط)

1947ءمیں ہم لوگ امرتسر سے ہجرت کرکے وزیر آباد آ گئے۔ یہاں میری نانی اپنے سائیں بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں۔ امرتسر میں ہم لوگ سامان سے لدا ہوا ایک نیا مکان چھوڑ کر آئے تھے اُس کے بدلے وزیر آباد کے گلہ بکریاں والا محلہ لیر چونیاں کے ایک مکان میں ہمارے خاندان کو پناہ ملی۔اُس مکان میں ہمارے ساتھ میری پھوپھیاں اور اُن کے اہلخانہ بھی تھے۔ یوں کوئی تیس پینتیس کے قریب لوگ اُس گھر میں ٹھسے ہوئے تھے بعد میں ہم سب الگ الگ گھروں میں چلے گئے۔

ہم بھی ان بے سروسامان مہاجروں میں سے تھے جن کیلئے بستروں، چارپائیوں اور خوراک کا انتظام مقامی آبادی نے کیا اور اپنے عمل سے انصارِ مدینہ کی یاد تازہ کر دی۔ میرے دل کے نہاں خانے میں 75برس پہلے کا وزیر آباد اور اپنا گھر آج بھی آباد ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس کی آبادی چند ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ والد ماجد کو ایم پی ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔ اُس زمانے میں اُن کی تنخواہ پچاس روپے سے زیادہ کیا ہوگی ہم آٹھ بہن بھائی اور والد والدہ سمیت دس افرادِ خانہ تھے۔ گلی سے باہر نکلتے ہی بائیں ہاتھ ملک عطاء اللہ کی دودھ دہی کی دکان تھی۔ ملک صاحب کا قد ٹھگنا اور جسم فربہ تھا چنانچہ محلے کے شریر بچوں میں وہ ’’ملک پاوا‘‘ کے نام سے مشہور تھے میں صبح ناشتے کے لئے وہاں سے دہی خریدتا اور گھر پہنچتے پہنچتے ساری بالائی چٹ کر جاتا۔ دوپہر کو مائی جھوری کے تنور پر روٹیاں لگوانے کی ڈیوٹی بھی عموماً میرے ذمے ہوتی۔ وہ آٹے میں سے دو تین پیڑے اپنی اجرت کے طور پر رکھ لیتی تھی۔ دوپہر کو نمکین روٹی میٹھے خربوزے کے ساتھ کھانے کا اپنا ہی لطف تھا۔ رات کو ڈیڑھ پائو گوشت کی دس بوٹیاں کی جاتیں اور یوں سب کے حصے میں ایک ایک بوٹی آجاتی۔ امی جان اپنے حصے کا سالن الگ کر لیتیں اور اگر کوئی مہمان آ جاتا یا کوئی فقیر صدا لگاتا تو یہ سالن اس کے آگے رکھ دیتیں۔ میں نے اپنے بچپن میں کئی بار اپنی ماں کو ہانڈی سے روٹی پونچھ کر ہی کھاتے دیکھا۔

میں جس زمانے کے وزیر آباد کا ذکر کر رہا ہوں وہ ایک صاف ستھرا خوبصورت قصبہ تھا۔ فجر کی اذان سے پہلے خاکروب سارے شہر کو آئینے کی طرح چمکا دیتے اور محلے کی نالیوں میں بھی صاف پانی بہتا نظر آتا۔ شام ڈھلتے ہی کارپوریشن کا عملہ گلی محلوں کی لالٹینوں میں تیل ڈالتا اور بتیاں ٹھیک کرتا اور پھر گلیاں روشن ہو جاتیں۔ اُس چھوٹے سے قصبے میں ریلوے اسٹیشن، اسپتال، ڈاکخانہ سب قریب قریب تھے۔ چنانچہ ان تک رسائی کیلئے ٹانگیں اور تانگے کافی تھے۔ روٹیاں بیچنے والے گلی میں ’’گرم روٹی‘‘ کی آوازیں لگاتے۔ سردیوں کی خنک راتوں میں ’’گرم انڈے‘‘ کی آوازیں بھی گونجتیں۔ فقیر خیرات میں آٹا یا بچی کھچی روٹی کے ٹکڑے وصول کرتے اور دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوتے۔ میں ایم پی پرائمری اسکول نمبر 2میں پڑھتا تھا جسے عرف عام میں کھوتی اسکول کہا جاتا تھا۔ ٹاٹوں پر بیٹھ کر علم حاصل کرنے والے ہم بچے ’’آدھی چھٹی‘‘ کو محمد حسین بلے سے ایک پیسے کے چنے لیکر کھاتے یا تختیوں سے شمشیر زنی کا مظاہرہ کرتے۔ شام کو ہم محلے کے بچے ’’کھولے‘‘ میں جمع ہوتے جہاں وہ تمام کھیل منجملہ کوڈیاں، اخروٹ اور بنٹے وغیرہ کھیلے جاتے جو ہمارے والدین کی طرف سے ہم پر بین تھے۔ پابندی تو پتنگ بازی پر بھی تھی مگر میں نے لوٹی ہوئی پتنگیں اور ڈوریں چھت پر چھپا کر رکھی ہوئی تھیں جب دوپہر کو سب سو جاتے، میں ننگے پائوں تپتی چھت پر شعلے اگلتے سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا یہ شوقِ فضول پورا کرتا!

گرمیوں میں ہم لوگ چھت پر تاروں بھرے آسمان تلے سویا کرتے تھے، میرے کانوں میں ابھی تک ان پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ تازہ ہے جو فجر کے وقت سروں پر سے گزرتے تھے۔ آدھے سوئے اور آدھے جاگتے ہوئے بچے کے کانوں میں سنائی دینے والی یہ پُراسرار پھڑپھڑاہٹ وہ کبھی نہیں بھول سکا۔ میں نے کئی دفعہ ان پرندوں کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن میرے پوری طرح جاگنے سے پہلے ہی مل گجی روشنی میں وہ میری نظروں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔

ہمارے گھر میں ’’پائی‘‘ کمپنی کا ریڈیو تھا جو بیٹھک میں ایک ڈیکوریشن اور اسٹیٹس سمبل کے طور پر نمایاں جگہ پر دھرا ہوتا تھاکڑھائی والے سفید رومال سے ڈھانپ کر رکھا جاتا تھا تاکہ یہ گردوغبار سے محفوظ رہے۔ اُس زمانے میں بجلی نہیں تھی چنانچہ یہ بیٹری سے چلتا تھا۔ والد ماجد نے خبروں اور تلاوت کلام پاک کیلئے اس ریڈیو کو گھر میں داخلے کی اجازت دی تھی چنانچہ ہمیں گانے وغیرہ سننے کی اجازت نہیں تھی مگر جب رات کو چھت پر سونے کیلئے جاتے تو ساتھ والی چھت پر سے ریڈیو مظفر آباد سے نشر ہونے والے فرمائشی گانوں کا پروگرام ہم بغیر کسی روک ٹوک کے سن سکتے تھے اور اسی طرح صبح صبح ریڈیو سیلون سے تازہ بہ تازہ گانے بھی سننے کو مل جاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ اپنے ہمسایوں کا کتنا خیال رکھتے تھے۔

میں جس وزیر آباد کی بات کر رہا ہوں وہ ایک بالکل مختلف دور تھا ابھی ڈاکوئوں کا رواج نہیں تھا اس دور میں دہشت گردی کی وارداتیں بھی نہیں ہوتی تھیں لوگ گھروں اور گھروں سے باہر ہر جگہ محفوظ تھے البتہ اکا دکا چوری کی کوئی واردات سننے میں آ جاتی تھی مگر یہ چور اس قدر بھلے مانس ہوتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں کوئی کھڑکی یا دروازہ کھلا رہنے کی صورت میں گھر میں داخل ہوتے تھے اور کوئی چھوٹی موٹی چیز اٹھا کر لے جاتے تھے۔اگر اہلخانہ کی آنکھ کھل جاتی تو چور کو لینے کے دینے پڑ جاتے اور اسے بھاگتے ہی بنتی ۔بدمعاشی اور غنڈہ گردی چھوٹے موٹے جھگڑوں پر مبنی تھی اس دور میں کلاشنکوف نام کی کوئی چیز نہیں تھی اس دور میں سب سے بڑے غنڈے کے پاس گراری والا 6انچ کا چاقو ہوتا تھا.

جس کے کھولنے پر ’’گرگر گر‘‘ کی آواز پیدا ہوتی اور حریف یہ آواز سن کر ہی بھاگ جاتا یا لڑائی جھگڑے میں پان سگریٹ کی دکان پر پڑی سوڈے کی بوتلیں بطور ہتھیار استعمال ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ لوہے کا ’’مکا‘‘ہوتا تھا جو شدید لڑائی کی صورت میں استعمال کیا جاتا وزیر آباد میں ’’جانا چور‘‘ بہت مشہور تھا مگر وزیر آباد میں نہیں وزیر آباد سے باہر وارداتیں کرتا تھا اس نے گھر سے باہر پیاسوں کیلئے ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا ہوا تھا چنانچہ گرمیوں کے موسم میں سینکڑوں راہگیر اس سبیل سے پانی پیتے او رجانے چور کو دعائیں دیتے ،کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ نام کی کوئی چیز نہیں تھی دودھ کی دکان والے ملک عطا اللہ کی دکان پر صبح صبح گوالے دودھ لیکر آتے ملک عطااللہ صاحب اس میں ملاوٹ جانچنے والا آلہ ڈالتے اور اگر کسی دودھ میں پانی کی آمیزش ثابت ہوتی تو وہ سارا دودھ وہیں نالی میں بہا دیتے ۔شہر میں بھنگ اور افیم کا سرکاری ٹھیکہ تھا یہاں دو چار بھنگی افیمی کھڑے نظر آتے ہیروئن اور دوسرے مہلک نشے اس دور میں نہیں ہوتے تھے، ایک صاحب کے بارے میں سننے میں آتا تھا کہ وہ شراب پیتے ہیں۔

وزیر آباد میں گھروں میں ہینڈ پمپ لگے ہوئے تھے۔ یہاں کا پانی گرمیوں میں ٹھنڈا یخ اور سردیوں میں’’کوسا کوسا‘‘ ہوتا تھا چنانچہ گرمیوں میں نہاتے ہوئے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی تھی اور سردیوں میں’’ٹکور‘‘ کا احساس ہوتا تھا۔ اس زمانے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی چنانچہ کسی گھر میں بھی ریفریجریٹر، ائیرکنڈیشنر یا اس طرح کی دوسری چیزیں موجود نہیں تھیں۔ ابھی ٹیلی وژن، مائیکروویواوون، کمپیوٹر اور عہد حاضر کی بہت سی چیزیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں چنانچہ گھر ان سے بھی خالی تھے۔ شام ہوتے ہی گھروں میں لالٹینیں جل اٹھتیں ، کسی کو دوسرے کمرے میں جانا ہوتا تو وہ لالٹین ہاتھ میں پکڑے اسی کی مدھم روشنی میں اپنا’’سفر‘‘ طے کرتا۔ اس کی واپسی تک باقی اہل خانہ اندھیرے میں بیٹھے رہتے، گھر کا کوئی شرارتی فرد خوفناک آواز نکال کر سب کو ڈرانے کی کوشش کرتا اور اصلیت ظاہر ہونے پر گھر میں قہقہے گونجنے لگتے۔ کمرے کی چھتوں پر جہازی سائز کے کپڑے کے پنکھے لٹکے ہوتے تھے ، گرمیوں کی دوپہر کو کوئی ایک فرد ایک کونے میں بیٹھ کر اس پنکھے کی رسی کو کھینچتا رہتا ، جس سے ہوا سارے کمرے میں پھیل جاتی اور یوں پنکھا کھینچتے کھینچتے وہ بھی دوسرے افراد خانہ کے ساتھ وہیں بیٹھے بیٹھے سوجاتا!۔

اس دور کے امیر آدمی کی ایک نشانی یہ ہوتی تھی کہ وہ سواریوں والے تانگے کی بجائے سالم تانگے میں بیٹھتا تھا ، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پورے شہر میں صرف دو کاریں تھیں،ایک ثمن والے راجہ عبداللہ کی اور دوسری خواجہ سجاد نبی کی! مگر یہ دونوں کاریں شہر میں کم کم داخل ہوتی تھیں کیونکہ یہ دونوں گھر شہر سے ذرا ہٹ کر تھے چنانچہ کسی کو اس حوالے سے بھی کوئی احساس کمتری نہیں تھا، ان دو متمول گھرانوں کے علاوہ کچھ اور گھرانے بھی خوشحال سمجھے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک قائد اعظم کے سیکرٹری خواجہ محمد شریف طوسی اور دوسرا گجرات پنجاب بس سروس والے سلطان میر کا گھرانہ تھا لیکن اگر سچ پوچھیں تو یہ وہ شہر تھا کہ جس میں نہ کوئی امیر تھا اور نہ کوئی غریب، کیونکہ سب اس نوزائیدہ اسلامی مملکت پاکستان کے شہری تھے جن کے دلوں اور عمل میں اپنے نئے وطن کی تعمیر کا جذبہ’’ہلارے‘‘ لیتا نظر آتا تھا۔

جس وزیر آباد کی میں بات کررہا ہوں اس وزیرآباد میں مامتا ابھی دودھ کے ڈبوں میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ مائیں اپنے لاڈلوں کو اپنا دودھ پلاتی تھیں، اکثر گھروں میں گندم پیسنے والی چھوٹی سی چکی ہوتی تھی جو ہاتھ سے چلانا ہوتی تھی اس پر خاصا زور صرف ہوتا تھا، یہ ڈیوٹی بھی خواتین انجام دیتیں، گھروں میں گرائنڈر نہیں ہوتے تھے (چٹو وٹا) ہوتا تھا جس میں مصالحے ہاون دستے سے پیسے جاتے تھے، یہ گیس والے چولہے بھی ان دنوں کہاں تھے ’’انگیٹھی‘‘ میں لکڑی کا برادہ ٹھونس کر بھرا جاتا اور پھر اس پر کھانا پکایا جاتا، تیل کے چولہے جنہیں ’’اسٹوو‘‘ کہا جاتا تھا، بھی استعمال میں آتے تھے نیز لکڑیاں بھی جلائی جاتی تھیں، واشنگ مشین کا بھی کوئی تصور نہیں تھا ڈنڈے مار مار کر کپڑے دھوئے جاتے تھے۔ یہ ڈنڈا خاصی کثیر الاستعمال چیز تھی جس سے مائیں بچوں کی پٹائی بھی کرتی تھیں۔ بچوں کی پٹائی کیلئےچمٹا بھی خاصا مفید آلہ سمجھا جاتا تھا اس کے علاوہ چمٹے سے دہکتے چولہے میں کوئلہ پکڑنے کا کام بھی لیا جاتا، عالم لوہار نے اسے آلہ موسیقی میں بدل دیا۔

چولہے کے ساتھ ایک اور ضروری آئٹم ’’پھونکنی‘‘ بھی تھی جب آگ بھجنے لگتی تو پھونکنی کے ایک سرے پر منہ رکھ کر زور سے پھونک ماری جاتی۔ پھونک مارنے والے کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔ کیونکہ گیلی لکڑیوں کا دھواں سیدھا اس کی آنکھوں کو پڑتا۔ فریج کی جگہ گھروں میں ’’چھیکو‘‘ ہوتا تھا۔ لوہے کا بنا ہوا یہ بڑا سا ہوادار پیالہ کسی اونچی جگہ پر لٹکا دیا جاتا تاکہ اس میں دھری ہوئی چیزیں تازہ رہیں۔ اس کے علاوہ صحن میں ’’ڈولی‘‘ بھی ہوتی تھی اسے آپ چھوٹی سی الماری کہہ لیں جس میں ہوا کے لئے جالیاں لگائی جاتی تھیں۔ اس میں سبزی وغیرہ رکھی جاتی تھی ۔اس وقت تک ٹیپ ریکارڈر اور ڈیک وغیرہ بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ بس گراموفون ہوتا تھا اس سے استفادہ کیلئے ’’زور بازو‘‘ کی ضرورت پڑتی تھی۔ جب گانے والے کی آواز کم ہو کر ’’چوں چوں چاں چاں‘‘ میں بدلنے لگتی، آپریٹ کرنے والے کو پوری قوت سے اس کا ہینڈل گھمانا پڑتا۔ یوں گانے والے سے زیادہ آپریٹ کرنے والے کا زور لگتا تھا۔

مجھے یاد پڑتا ہے ہم بچے اسکول سے دوپہر کو آتے اور کھانا کھا کر سو جاتے اس کے بعد کچھ دیر اسکول کا کام کرتے پھر کھیلنے کیلئے نکل جاتے۔ والدہ اور بہنیں اس دوران گھر کا کام کاج نمٹاتیں اور یہ سب کچھ ہنستے کھیلتے ہوتا۔ سردیوں کی راتیں بہت مزے کی ہوتی تھیں۔ رات کو ہم سب اہل خانہ ’’ہال کمرے‘‘ میں جمع ہو جاتے ان دنوں سردی بہت زیادہ پڑتی تھی ہم امرتسر سے تازہ تازہ کشمیری کلچر ساتھ لائے تھے چنانچہ سماوار میں کشمیری چائے پک رہی ہوتی اور ہم اپنی اپنی ’’کانگڑی‘‘ پائوں کے درمیان میں رکھے لحاف گھٹنوں تک کھینچ کر بیٹھ جاتے کبھی کبھی کسی کی بے احتیاطی سے ’’کانگڑی‘‘ میں سے دہکتے ہوئے شعلے کے باہر گرنے یا کانگڑی اور لحاف کے درمیان فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے آگ بھی لگ جاتی لیکن اسے ’’پارٹ آف دی گیم‘‘ سمجھا جاتا۔ کشمیری نمکین چائے کے ساتھ ’’کھنڈ کلچے‘‘ کھاتے ہوئے کسی کی نقلیں اتاری جاتیں۔ کسی لطیفے پر قہقہے لگتے۔ ہماری یہ محفل ’’کھلی کچہری‘‘ کی حیثیت بھی رکھتی تھیں کہ اس میں اہل خانہ میں سے کسی کے طرز عمل کی شکایت بھی کی جاتی جس پر فوری کارروائی عمل میں آتی۔ گرمیوں میں ہم بچوں کا پسندیدہ کھیل ’’لکن میٹی‘‘ تھا جو عموماً ہم رات کو کھیلتے تھے اس میں محلے بھر کے لڑکے اور لڑکیاں جن کی عمریں دس بارہ سال تک ہوتی تھیں شریک ہوتے، کسی کو ایک دوسرے کی جنس کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔

ماہ رمضان میں وزیر آباد میں بہت رونق ہوتی ، سحری کے وقت پورا شہر جاگ رہا ہوتا تھا۔ بازاروں میں آدھی رات پر بھی دن کا گمان گزرتا تھا، پورے شہر میں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں کوئی روزہ دار نہ ہو۔ دن کے اوقات میں معمول کا کاروبار جاری رہتا۔ چائے اور کھانے پینے کی دکانیں بھی کھلی ہوتیں۔ بس آگے پردہ ڈال دیا جاتا روزہ دار ان ریستورانوں کے قریب سے پوری سہولت سے گزرتے تھے اور کسی کا روزہ خراب نہیں ہوتا تھا۔ افطاری کا اعلان شہر کی مسجدوں میں رکھی ’’نوبت‘‘ بجانے سے کیا جاتا، مسجدیں روزہ افطار کرنے والوں اور نمازیوں سے بھری ہوتیں۔ لوگ ڈھیروں کے حساب سے اشیائے خورونوش مسجدوں میں بھیجتے تھے جس سے محلے کے تمام غیر روزہ دار بچے پورے خشوع و خضوع سے مستفید ہوتے۔

وزیر آباد کے جس محلے میں ہمارا مکان تھا، اس کے بالکل برابر والے مکان میں کرنال سے آئے ہوئے لٹے پٹے مہاجروں کا ایک کنبہ آباد تھا۔ کنبے کے سربراہ کا نام صابو تھا۔ اس کے چہرے پر چیچک کے داغ تھے اور کسی لڑائی میں اس کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی تھی۔ اس کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ دوسری آنکھ بھی ضائع ہو اس کیلئے وہ اپنے کنبے کے ہر فرد سے الجھنے کی کوشش کرتا۔ ہمارے مکان کی چھت پر سے ان کے صحن میں نظر پڑتی تھی، وہ اکثر کونڈی ڈنڈے سے پسی ہوئی سرخ مرچوں کے ساتھ روٹی کھاتے ہوئے ہنستے ہنستے لڑنا شروع ہوجاتے اور پھر اسی کونڈی پر سے پتھر کا بنا ہوا ڈنڈا اٹھا کر’’حریف‘‘ پر حملہ آور ہوجاتے۔ اس خوفناک جنگ کے دوران یہ لہولہان ہوجاتے، کئی دفعہ محلے والوں نے انہیں اسپتال پہنچایا، اگلے روز وہ ایک دفعہ پھر کونڈی ڈنڈے کے گرد بیٹھے مرچوں کے ساتھ روٹی کھاتے اور ہنستے کھیلتے دکھائی دیتے۔ میں نے ایک دفعہ ان کا ڈنڈا غائب کردیا تھا جو میرے نزدیک فساد کی جڑ تھا مگر جب چھت پر سے میں نے انہیں سوکھی روٹی کھاتے اور ڈنڈا چرانے والے کی شان میں باآواز بلند کچھ نازیبا کلمات کہتے سنا تو چپکے سے ڈنڈا وہیں چھوڑ آیا جہاں سے اٹھایا تھا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس دور میں اسکولوں میں ماسٹروں اور گھروں میں والد کے ہاتھوں پٹائی کا بہت ’’فیشن‘‘ تھا۔ ماسٹروں سے کہا جاتا تھا کہ بچہ آپ کے سپرد کررہے ہیں، اسے عالم فاضل بنادیں اگر یہ اس دوران نافرمانی کرے تو اس کی کھال پر آپ کا حق ہے، باقی بچا کچھا ہمارا ہے، چنانچہ ماسٹر صاحبان والدین کی اس خواہش کا پورا احترام کرتے تھے جو کسر رہ جاتی تھی وہ گھر میں بڑا بھائی اور والد وغیرہ پوری کردیتے تھے، چونکہ اس زمانے میں بچوں کی نفسیات کے ماہر نہیں تھے، لہٰذا ان مار کھانے والے بچوں کے دلوں میں اپنے والدین اور اپنے استادوں کے خلاف کوئی نفرت پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے دلوں میں ان کیلئے بے پناہ محبت اور احترام کا رشتہ ہمیشہ باقی رہتا۔ ان کی شخصیت میں کوئی ’’ابنارملیٹی‘‘ بھی پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کے رویے آج کی نسل سے کہیں زیادہ نارمل تھے۔ اس دور کے بچے آج کے ماہرین نفسیات سے زیادہ معاملہ فہم تھے ، وہ بید مارتے ہوئے ماسٹر کے ہاتھوں کی بجائے اس کے دل میں جھانک سکنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اپنے نرم رخساروں پر باپ کا طمانچہ کھانے کے بعد ان کے رخساروں پر پیار کرتے ہوئے باپ کے گرم گرم آنسوئوں کا مساج بھی انہیں یاد رہتا تھا۔

ہمارا گھرانہ کوئی خوشحال گھرانہ نہیں تھا ، نہ ہم امیر تھے ، نہ ہم غریب تھے،ہم ویسی ہی زندگی گزار رہے تھے جیسی زندگی پورا شہر گزاررہا تھا، چنانچہ احساس محرومی نام کی کوئی چیز نہ ہم میں تھی اور نہ کسی اور میں تھی، غالباً ہر عید پر کپڑوں کا ایک نیا جوڑا مل جاتا تھا۔ شاید نئے جوتے بھی ملتے ہوں مگر اچھی طرح یاد نہیں، البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ ہمارے گھر میں گائے کے گوشت کا داخلہ بالکل بند تھا، گھر میں صرف چھوٹا گوشت آتا تھا خواہ وہ ڈیڑھ پائو ہی کیوں نہ ہو۔ اس زمانے میں قصائی کی دکان پر جو گاہک نظر آتے وہ سب کے سب آدھ پائو ، ایک پائو اور ڈیڑھ پائو گوشت والے ہی ہوتے تھے۔ سالم رانوں یا سالم بکروں کا آرڈر دینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا، نہ کسی کے پاس اتنے پیسے تھے اور نہ فریج یا فریزرکہ اس میں گوشت ذخیرہ کرلیا جاتا ،گھر میں جو پکتا ہمسایوں میں سے دو ایک قریبی ہمسایوں کی طرف اس کی پلیٹ ضروری بھیجی جاتی، چنانچہ پورے محلہ کو پتہ ہوتا تھا کہ آج کس کے گھر میں کیا پکا ہے؟ ایک دوسرے سے نمک ، چینی، آٹا، گھی، چاول وغیرہ ادھار لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ چار پانچ روپے ادھار بھی مانگ لئے جاتے تھے کہ تمہارے بھائی کو ابھی تنخواہ نہیں ملی ،تنخواہ ملنے پر کبھی یہ پیسے واپس مل جاتے اورکبھی نہیں ملتے تھے۔ اللہ جانے مجھے ان دنوں کدو اور ٹینڈے کیوں برے لگتے تھے جس روز یہ گھر میں پکتے، میں یہ کھانے سے انکاری ہوتا جس پر میری شامت آجاتی۔ مائیں اپنے روٹھے ہوئے بچوں کو منانے کیلئےانہیں چُوری کھلایا کرتیں۔ یہ عیاشی امتحان کے نزدیکی دنوں میں خصوصاً ہوتی تھی۔ توے کی پکی ہوئی روٹی کے ٹکڑے کرکے ایک پیالے میں ڈال دئیے جاتے تھے، پھر دیسی گھی کے تین چار چمچ اور چینی ڈال کر روٹی کے ان ٹکڑوں کو ہاتھوں سے خوب مسلا جاتا جس سے گھی اور چینی ان میں جذب ہوجاتی،خیر سے یہ عیاشی تھی جسے چُوری کہتے تھے’’چُوری‘‘ کی قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہیر ،رانجھے کو چوری چھپے چُوری کھلاتی تھی، گھر کے پالتو طوطے کو اس کا دل جلانے کیلئے پوچھا جاتا تھا ’’میاں مٹھو‘‘ چُوری کھائو گے؟ چُوری اور اس دور کے کچھ غریبانہ محاوروں مثلاً’’تیرے منہ میں گھی شکر‘‘ وغیرہ سےاس زمانے کی معاشی حالت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

وزیر آباد میں خواتین گھروں سے کم باہر نکلتی تھیں۔ ارد گرد کے گائوں کی عورتیں دھوتی میں ملبوس خرید و فروخت کیلئے مین بازار میں چلتی پھرتی نظر آجاتی تھیں۔ شہری عورتیں شٹل کاک برقعے میں گھر سے باہر آتیں، جب سیاہ فیشنی برقعہ’’ایجاد‘‘ ہوا تو جمعہ کے خطبوں میں اس پر بہت لے دے ہوئی مگر پھر اس’’فیشن‘‘کو ہضم کرلیا گیا۔اس زمانے میں لڑکیاں لمبے بال رکھتی تھیں اور رنگ برنگے پراندے ان کی گُت کے ساتھ پیوند ہوتے تھے۔ ان کے گھنے اور لمبے سیاہ بال ان کی ٹانگوں تک آتے تھے، اسی زمانے میں دو’’گتُیں‘‘ کرنے کا فیشن شروع ہوا جس پر بہت شور اٹھا اور اسے نئی نسل کی بے راہروی قرار دیا گیا۔ اس زمانے میں یہ فلمی گانا بھی بہت مشہور ہوا؎

مائے میرئیے، نی مینوں بڑا چاء

تے دو گُتاں کر میری آں

(اماں میری دو چوٹیاں بنا دو، مجھے دوچوٹیاں بنانے کا بہت شوق ہے) مسجدوں میں مولوی صاحبان یہ گانا پوری لےَ کے ساتھ گاتے اور پھر اس کے حوالے سے نئی نسل پر طنز کرتے، پھر یہ فیشن بھی قبول کر لیا گیا، تاہم اس عمل کا شاید یہ ردعمل تھا کہ دو چھوڑ سر پر سے ایک نہیں دونوں چوٹیاں غائب ہو گئیں۔

وزیر آباد میں ایک سینما تھا جس میں عموماً انڈین فلمیں لگتی تھیں کیونکہ ابھی پاکستانی فلم انڈسٹری اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہوئی تھی۔ یہ سینما شہر سے قدرے باہر تھا چنانچہ میرا یا میرے دوستوں کا ادھر سے گزر نہیں ہوتا تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ بعض فیملیز بھی باکس میں بیٹھ کر یہ فلمیں دیکھتی تھیں۔ میں نے اپنی زندگی کی پہلی فلم لاہور آکر دیکھی، یہ بھی ایک انڈین فلم تھی اور میرے برادر بزرگ ضیاء الحق قاسمی مرحوم والد ماجد سے چوری چھپے یہ فلم دکھانے لے گئے تھے۔ اس زمانے کی فلمیں بہت سادہ ہوتی تھیں۔ ’’فحاشی‘‘ کا نام و نشان نہیں تھا۔ ہیرو ہیروئن بھائی بہن لگتے تھے۔ سینما ہال کی دیواروں پر ترچھے پنکھے لگے ہوتے تھے۔ جب فلم بینوں کی پسند کا کوئی گانا آتا تو تماشائی خراج تحسین ادا کرنے کیلئے ان پنکھوں پر سکوں کا ’’چھٹا‘‘ مارتے جس سے ایک جھنکار پیدا ہوتی، فلم کے اختتام پر یہ سکے خاکروب کے حصے میں آتے۔ اس زمانے میں اخبارات کا سائز چھوٹا ہوتا تھا اور وہ بلیک اینڈ وائٹ میں چھپتے تھے۔ صفحات بھی بہت کم ہوتے تھے۔ تصویریں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔ تصویر صرف کسی بڑے لیڈر کی شائع ہو سکتی تھی۔ ان اخبارات کے ایڈیٹر علمی اور ادبی شخصیت کے حامل ہوتے تھے چنانچہ زبان کا خاص خیال رکھاجاتا تھا۔ رنگین ایڈیشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی طباعت کچھ زیادہ معیاری نہیں ہوتی تھی مگر ان میںشائع ہونے والا ایک ایک حرف پوری دیانتداری سے لکھا گیا ہوتا تھا۔ ان اخبارات کی خبروں پر آنکھیں بند کرکے یقین کیا جا سکتا تھا،اخبارات اس وقت مشن تھے۔ ابھی انڈسٹری نہیں بنے تھے، حکومتی ایوانوں میں ایڈیٹر کی دھاک بیٹھی ہوتی تھی۔ صاحبانِ اقتدار ان کی بلیک میلنگ سے نہیں بلکہ ان کے کردار کی عظمت سے خائف رہتے تھے۔ ان دنوں جرائم کی شرح بے حد کم تھی اخبارات بھی جرائم کو فرنٹ پیج کوریج نہیں دیتے تھے۔ خبروں اور مضامین میں خواتین کی عزت وحرمت کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔ ہر اخبار میں ایک فکاہی کالم ضرور ہوتا تھا جو کوئی بڑا ادیب اور صحافی لکھتا تھا۔’’جواب مضمون‘‘ ٹائپ کالم آج کے دور کی پیداوار ہیں۔ وزیر آباد میں ’’حاجی اخباراں والا‘‘کے پاس تمام اخبارات کی ایجنسی تھی حاجی صاحب خود اور ان کے بچے سائیکل پر اخبارات تقسیم کرتے۔انہوں نے سائیکل کے ساتھ گھنٹی کی بجائے بھونپو لگوائے ہوتے تھے، صبح صبح جب ’’بھائوں بھائوں‘‘کی آواز سنائی دیتی تو پتہ چلتا کہ اخبار آ گیا ہے۔

سادہ سی زندگی گزارنے والے و زیر آباد کے شہریوں کیلئے ’’اطلاع عام‘‘ کا ذریعہ بھی بہت سادہ تھا، اگر شہر میں کوئی نئی دکان کھلتی، کوئی فوت ہوجاتا، کسی جلسے یا جلوس کا اعلان کرنا ہوتا یا مہاجرین کے قافلے میں سے کسی کی گمشدگی یا بازیابی کی ا طلاع دینا ہوتی یا کسی کا کوئی بچہ گم ہوجاتا، تو اعلان کیلئے دو افراد کی خدمات حاصل کی جاتیں۔ یہ دونوں افراد شہر کے نمایاں مقامات پر کچھ دیر کیلئے پڑائوڈالتے، ان میں سے ایک گھنٹی یا ڈھول بجا کر مجمع اکٹھا کرتا اور دوسرا اپنی پاٹ دار آواز میں اعلان کرتا اور پھر یہ ’’میڈیا پرنٹ ‘‘ اگلے چوک کا رخ کرتے۔ اکثر اوقات ایک ہی شخص یہ دونوں کام کرتا اس قسم کے اعلانات عموماً میاںلَلی کیا کرتے تھے جو شہر کی ایک مشہور شخصیت تھے چند سال پیشترانہوں نے مجھ سے گلہ کیا کہ میں نے اپنی کالم میں ان کا نام میاں منظور الحق لکھنے کی بجائے میاںلَلی کیوں لکھا۔ ان کا یہ گلہ بے جا تھا کیونکہ اگر میں منظور الحق لکھتا تو پورے شہر میں کسی کو پتہ ہی نہیں چلنا تھاکہ میں کس کا ذکر کر رہا ہوں ،عوام کا دیا نام رجسٹر پیدائش میں لکھے ہوئے نام سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔

اس زمانے میں نئی اور پرانی فلموں کی مختصر کہانیاں اور گانے چار پانچ صفحے کے گھٹیا کاغذ پر شائع شدہ صورت میں بھی فروخت ہوتے۔ شہر کے واحد سینما میں لگنے والی فلم کی پبلسٹی تانگے کےتین اطراف میں اس فلم کے بورڈ لگا کر کی جاتی۔ یہ تانگےبچوںکو اسکول سے لاتے تھے اور یوںشہر بھر میںفلم کی پبلسٹی ہو جاتی تھی۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص گھنٹی یا ڈھول بجاتا ہوا آگے چلتا اور اس کےپیچھے تین چار مزدور فلم کے پبلسٹی بورڈ اٹھا کر چل رہے ہوتے۔ ان بورڈوں پر ’’آج شب کو‘‘ کےا لفاظ اکٹھے یعنی ’’آجشبکو‘‘ کی صورت میں لکھے ہوتے میں پریشان ہو جاتا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟

وزیر آباد میں ایک پاگل گلیوں اور بازاروں میں برہنہ گھوما کرتا تھا۔ لوگ اسے طوطی طوطی کہتے تھے۔ ’’جانے چور‘‘ کے گھر کے پاس ایک ہندو عورت ’’رام سروپ‘‘ رہتی تھی۔ طوطی سارا دن سڑکوںپرکھجل ہونے کے بعد اس کے ٹھکانے پرپہنچ جاتا وہ اس کابہت دھیان رکھتی۔ ایم بی ہائی اسکول کے پچھواڑے میں مجید پہلوان کا اکھاڑا تھا۔ یہاں مجیدا پہلوان (جو فوت ہو چکے ہیں) اپنے شاگردوں کے ساتھ لنگوٹ باندھے اور بدن پر تیل ملے ورزش میں مصروف نظر آتا تھا۔ والد ماجد مولانا بہاء الحق قاسمی کو میری مکروہات یعنی پتنگ بازی وغیرہ میں دلچسپی پسند نہ تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں اس کی بجائے صحت مند کھیلوں میں دلچسپی رکھوں چنانچہ میں نے اپنے دوستوں منور وغیرہ کے ساتھ مجید پہلوان کے اکھاڑے میں جانا شروع کردیا، تیسرے دن اس صحت مند کھیل کے نتیجے میں جب میں لنگڑاتا ہوا گھر پہنچا تو والد صاحب نے آئندہ اکھاڑے میں جانے سے منع کردیا اور فٹ بال خرید کر دیا مگر منور (مرحوم) کے گھر کے ساتھ چھوٹے سے خالی پلاٹ جسے ہم ’’کھولا‘‘ کہتے تھے میں فٹ بال کیسے کھیلا جاسکتا تھا۔ چنانچہ مجبوراً ایک بار پھر ’’مکروہات‘‘ کی طرف رجوع کرنا پڑا۔

اس زمانے میںسردی بہت ہوتی تھی جب شہر میں ٹوٹل دو کاریں ہوںویگنیں، بسیں اوررکشے نہ ہوں، آبادی کم ہو، درخت زیادہ ہوں اور اوپر سے پائوں میں جرابیں بھی نہ ہوں، کوٹ نام کی کوئی چیز نہ ہو، بس پاجامے اور قمیض پر پتلا سوئیٹر پہنا ہو تو سردی نہیں لگے گی تو کیا لگے گا؟ سردیوں میں صبح اسکول جاتے ہوئے جسم پر کپکپی طاری رہتی تھی اور دانت مسلسل بجتے رہتے تھے ، لیکن مزا آتا تھا۔ میں اس سردی کیلئے ترس گیا ہوں۔ اب سردی کی جگہ ’’سرد مہری‘‘نے لے لی ہے۔ ایم بی ہائی اسکول کے ساتھ سکھوں کا گوردوارہ تھا جسے ’’گورو کوٹھا‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب مشرقی پنجاب کے مختلف شہروں سے مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی ٹرینیں پاکستان پہنچیں تو اشتعال کی لہر نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چنانچہ وزیر آباد کے اس گورو دوارے کوبھی آگ لگا دی گئی۔ میری عمر اس وقت چھ سال سے زیادہ کی ہوگی۔ مگر میں حیران ہوں کہ ایک دھندلا سا منظر ابھی تک میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میری والدہ مرحومہ اور میری بہنیں اپنے مکان کی چھت پر کھڑی گورو دوارے سے اٹھتے شعلے اور دھواں دیکھ رہی تھیں اور زار و قطار رورہی تھیں اور میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ سب کیوں رو رہے ہیں؟ شنید ہے کہ گورو دوارے میں پناہ لینے والے کچھ لوگ ان شعلوں کی زد میں آکر زندہ جل مرے تھے۔

فسادات ہی کے دنوں میں ایک روز دوپہر کے وقت کسی شخص کےبھاگنے کی آواز سنائی دی اور تھوڑی دیر بعد یہ آواز ہمارے گھر کی ڈیوڑھی پر آ کر رک گئی اور پھر ایک چھناکے کے ساتھ ایک تھیلی ڈیوڑھی میں آن گری اور ساتھ میں یہ آواز بھی سنائی دی ’’قاسمی صاحب! یہ زیورات آپ رکھ لیں‘‘ زیورات کی یہ تھیلی لوٹ مار کے دوران روشن نام کے ایک تیل فروش کے ہاتھ لگی تھی۔ پولیس اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اس نے ہمارے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے سوچا کہ یہ زیورات پولیس کے ہاتھ لگنےکی بجائےکسی مہاجر خاندان کے کام آنے چاہئیں جو اس سے کہیں زیادہ زیورات اپنے پرانے گھروں میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ چنانچہ میرے پھوپھی زاد بھائی سید مسعود شاہ قادری مرحوم نے فوراً لپک کر یہ تھیلی اٹھائی لیکن والد ماجد نے جو حلال حرام کے معاملے میں تقویٰ کی سرحدوں کو چھوتے تھے یہ تھیلی ان سے چھین کر اگلے روز سرکاری خزانے میں جمع کرا دی یا شاید اس کو اسی وقت واپس گلی میں پھینک دیا مجھے تفصیل اچھی طرح یاد نہیں ہے۔1951ءمیں شہید ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے جلسۂ عام میں سید اکبر نامی بدبخت نے گولی مار کر شہید کر دیا تو پورا وزیر آباد غم کی شدید لہر کی لپیٹ میں آگیا۔ اس زمانے میں سہگل کی آواز میں ایک گانا بہت مشہور تھا۔ ؎

غم دیئے مستقل، کتنا نازک ہے دل

یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ

چنانچہ ہماری قریبی مسجد میں اس گانے کی طرز پر کئی دن تک شہید ملت کا یہ نوحہ پڑھا جاتا رہا۔

سید اکبر نے جلسے میں آ کر

اپنے ہاتھوں سے گولی چلا کر

قوم کو دکھ دیا بے ٹھکانہ

ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ

میرے حافظے میں تانگے کے گھوڑے کی وہ ٹاپ بھی محفوظ ہے جو کبھی کبھی رات کےسناٹوں میں سنائی دیتی تھی۔ وزیر آباد کا کوئی باسی یا کوئی مہمان آخری ٹرین سے واپس پہنچتاتو سوئے قصبے کی طلسماتی فضا میں گھوڑا ایک اور پراسرار سا رنگ بھر دیتا ۔ جس روز لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا اس روز بھی یہ ٹاپ سنائی دی تھی۔ اس روز تانگہ کچہری سے خالی آیا تھا۔اچھے برے لوگ ہر دور اور ہر شہر میں ہوتے ہیں۔ سن پچاس کی دہائی پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے لیکن برائی افراد تک محدود تھی اور اس دور میں اسے معاشرتی رویے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ چنانچہ لوگ برائی سے نفرت کرتے تھے۔ جو اس میں ملوث ہوتے وہ اس پر فخر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے تھے۔ فلموں میں ولن کے پردۂ اسکرین پر آتے ہی لوگ اُس پر گالیوں کی بوچھاڑ کردیتے تھے۔ اب فلموں میں اور معاشرے میں ولن نے ہیرو کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ پردۂ اسکرین پر دیکھ کر اُسے تالی بجائی جاتی ہے۔ معاشرتی زندگی میں یہ بدکردار شخص صاحبِ عزت نظر آتا ہے۔ وزیر آباد میں ذرا سا برا آدمی بھی نظروں میں آ جاتا تھا۔

ہر شخص اس پر انگلی اٹھاتا اور یوں اس کیلئے کھل کھیلنا مشکل ہو جاتا۔دوسرے چھوٹے شہروں اور قصبوں کی طرح وزیر آباد میں بھی تفریحات کا فقدان تھا، ویسے بھی نیا نیا ملک بنا تھا، اسے بےشمار مسائل کا سامنا تھا، اولین ترجیح لٹے پٹے لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور تباہ شدہ سیٹ اَپ بحال کرنا تھا اور سچی بات یہ ہے کہ اس دور کے سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لوگوں نے تعمیر وطن میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جمہوری نظام کی شروعات تھی چنانچہ حکومتیں ٹوٹتی اور بنتی رہتی تھیں، کہا جاتا تھا کہ نہرو اتنی جلدی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی ہماری حکومت بدل جاتی ہے۔ اس طرح کی باتیں سیاسی ناپختگی کے زمرے میں آتی تھیں۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں روز حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔

ہمارے طالع آزمائوں نے عوام کی اس سوچ سے فائدہ اٹھایا اور 1953ءمیں ایوب خان نے حکومت پر قبضہ کرنے کی سازشیں شروع کردیں اور بالآخر 1958ءمیں ملک پر قابض ہو گیا اور دس سال حکومت کرنے کے بعد جب عوامی تحریک کے نتیجے میں اسے تخت و تاج سے دستبردار ہونا پڑا تو یحییٰ خان کو تخت پر بٹھا دیا۔ دس سال میں ملک کی چولیں ہلا دی گئی تھیں، ایک ذرا سے دھچکے سے پوری عمارت نیچے آن گری۔ مشرقی پاکستان میں ہمیں ہتھیار ڈالنا پڑ گئے اور مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔

میں بتا رہا تھا کہ دوسرے قصبات کی طرح وزیر آباد میں بھی تفریحات کا فقدان تھا بجلی اور دیگر سائنسی ایجادات کے نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگ اندھیرا ہونے سے پہلے رات کا کھانا کھا لیتے تھے۔ بچے کھیلنے کیلئے نکل جاتے۔ عورتیں ایک جگہ اکٹھی ہو کر گپ شپ کرتیں اور عام لوگ بازاروں میں پان سگریٹ کی دکانوں پر یا تھڑوں پر بیٹھ کر حالات حاضرہ پر تبادلہ خیال کرتے۔ اس دور میں نجی زندگی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ بین الاقوامی معاملات سے لیکر لوگوں کے گھریلو حالات تک موضوع گفتگو بنتے۔ اس حوالے سے کسی برے آدمی کا شہر میں جینا محال ہو جاتا تھا۔ مین بازار کا رہائشی ایک کبوتر باز شہر میں بہت بدنام تھا۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اسے اپنے سے کم عمر لوگوں کی صحبت بہت پسند تھی اور اتفاق یہ کہ وہ اپنے سے کم عمر ایک نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوا۔ یہ وزیر آباد شہر کا دوسرا یا تیسرا قتل ہوگا جو میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ ان دنوں عید میلاد النبیؐ کا جلوس شہر میں بہت دھوم دھام سے نکلتا تھا۔

یہ جلوس بیل گاڑیوں پر نکالا جاتا اور بہت سے نوجوان اونٹوں اور گھوڑوں پر عربی لباس میں ملبوس جلوس کے ساتھ ہوتے۔ جلوس میں کرنال کے مہاجرین کا ایک دستہ تلواروں کے ساتھ گتکے بازی کا مظاہرہ کرتا، تحریک کے دوران خاکسار بھی اپنی خاکی وردی میں ملبوس کاندھوں پر بیلچے رکھے ’’چپ راست‘‘ کرتے، جلوس میں مارچ کرتے نظر آتے۔ عید میلاد النبیؐ کا یہ جلوس شیعہ سنی مل کر نکالتے تھے۔ پان سگریٹ فروش صابر شاہ بیل گاڑی پر سوار اپنی خوبصورت آواز میں نعت خوانی کرتا۔

شہر کی سیاست راجہ عبداللہ اور سجاد نبی کے گرد گھومتی تھی اس دور میں پاکستان کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین تھے جو بنگالی تھے ان کی شرافت اور بسیار خوری دونوں کی بہت شہرت تھی۔ 1953ء میں پاکستان میں اینٹی قادیانی تحریک کا آغاز ہوا اور جنرل اعظم خان کا مارشل لا لگا جس نے تحریک کے شرکا پر اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ وزیر آباد میں بھی اس تحریک کی بازگشت سنائی دی۔ مولانا عبدالغفور ہزاروی اور مولانا محمد رمضان اس میں پیش پیش تھے۔ مولانا محمد رمضان سندھی تھے اور وزیر آباد میں آباد تھے والد مولانا بہائوالحق قاسمی اپنے استاد مفتی محمد حسن کے حکم پر اکیلے لاہور آ گئے اور لاہور کی مسجد وزیر خان سے دوسرے علماء کے ساتھ گرفتار ہوئے انہیں شاہی قلعے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہمیں تین ماہ تک ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں، زندہ ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں۔ تین ماہ بعد جب ان کا مقدمہ عدالت میں پیش ہواتو ہمیں ان کے زندہ ہونے کی اطلاع ملی۔ والد محترم کے بیانات روزنامہ ’’تسلیم‘‘ میں شائع ہوتے تھے جن میں گھیرائو جلائو، تشدد کی مخالفت کی گئی ہوتی تھی چنانچہ ان بیانات کی بنیاد پر انہیں صرف تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ ۔اُس زمانے میں وزیر آباد کے اکثر گھروں کے کسی کمرے یا کسی کونے میں کسی ’’بزرگ‘‘ کا ڈیرہ بھی ہوتا تھا۔ جب گھر کا کوئی فرد اس ’’بزرگ‘‘ کے ’’دیدار‘‘ کی واردات بیان کرتا تو سب حیرت اور تجسس سے اس کی باتیں سنتے۔ اُس ’’بزرگ‘‘ کے قیام کی جگہ کا تعین دو تین چیزوں سے کیا جاتا تھا مثلاً گھر کے کسی کونے یا کسی کمرے میں اگر کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش آیا تو اس جگہ کو ان بزرگ کی رہائش گاہ تصور کر لیا جاتا یا اگر کسی فرد کو وہ بزرگ نظر آئے اور ایک مقام پر پہنچ کر وہ نظروں سے غائب ہو گئے تو سمجھ لیا جاتا کہ وہ یہیں قیام پذیر ہیں۔ چنانچہ اہلِ خانہ اس مقام کو مقدس جان کر روزانہ وہاں جھاڑو دیتے، دیے جلاتے اور اکثر پھول بھی رکھ دیتے۔ ہمارے گھر کے گرائونڈ فلور کا آخری کمرہ جہاں بہت اندھیرا ہوتا تھا ،اس بزرگ کی قیام گاہ سمجھا جاتا تھا تاہم والد محترم چونکہ ان چیزوں کو وہم کا کرشمہ قرار دیتے تھے لہٰذا ہم لوگ صرف یہ کرتے کہ اس کمرے کا رخ نہ کرتے۔ اگر کسی کو مجبوراً ادھر جانا پڑتا تو وہ کسی کو ساتھ لے کر اُدھر جاتا ہم بچوں کو اس بزرگ سے بہت خوف آتا تھا۔

وزیر آباد کی گرمیوں کی شامیں مجھے نہیں بھولتیں، چھت پر چھڑکائو کیا جاتا۔ دیوار کے ساتھ لگی چار پائیاں اٹھا کر چھت کے درمیانی حصے میں بچھائی جاتیں۔ اگر گزشتہ رات کی بارش کی وجہ سے چارپائی کو ’’کانڑوں‘‘ پڑی ہوتی تو پہلے یہ ’’کانڑ‘‘ نکالی جاتی جس کا طریقہ یہ تھا کہ چارپائی کا جو پایہ اٹھا ہوتا اس طرف اور اس کے متوازی دوسری طرف دو بندے بیٹھ جاتے اور یوں اس کا بیلنس درست ہو جاتا، پھر ان چارپائیوں پر اجلے بستر بچھتے، برابر میں مٹی کے گھڑے میں پانی دھرا ہوتا جس پر موتیے کے پھول ہوتے ،گھر کا کوئی فرد مچھروں سے بچنے کیلئے مسہری بھی لگا لیتا تھا۔ نچلی منزل پر جن اشیائے خور و نوش کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا انہیں ’’ڈولی‘‘ میں رکھ کر چھت پر لایا جاتا۔

آنکھوں کے سامنے تاروں بھرا آسمان ہوتا اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں تارے گنتے نیند آ جاتی۔ تاہم اس وقت طبیعت بہت مکدر ہوتی تھی جب رات کو اچانک بارش آجاتی، ان لمحوں میں شہر کے مکانوں کی سوئی ہوئی چھتیں دوبارہ نیند سے بیدار ہو جاتیں اور ہاں اُس زمانے میں چارپائیوں میں کھٹمل بھی ہوتے تھے ،جن کے خاتمے کیلئے چارپائیاں دھوپ میں رکھ دی جاتیں یا پھر چارپائی پر ڈنڈے مار مار کر ان کھٹملوں کو کونوں کھدروں سے نکالا جاتا۔وزیر آباد کے لوگ اس زمانے میں اور آج بھی ’’ج‘‘ کو ’’ز‘‘ کی آواز میں بدل دیتے ہیں، چنانچہ جمعرات کو ’’زمعرات‘‘ اور گجرات کو ’’گزرات‘‘ وغیرہ بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک لفظ ’’وئی‘‘ غالباً صرف وزیر آباد سے مخصوص ہے۔اس کا استعمال پنجابی کے دوسرے لہجوں میں نظرنہیں آتا۔ گلہ بکریانوالہ میں گگڑوں کے بھی گھر تھے یہ لوگ مختلف بیماریوں کا علاج جونکوں سے کرتے تھے۔ جسم کے جس حصے میں خرابی ہوتی یہ وہاں جونکیں چمٹا دیتے جو وہاں سے گندہ خون چوس لیتیں۔ اس گھر کے ایک فرد سرور کا نام میرے ذہن میں محفوظ ہےاس کا صرف ایک ہاتھ تھا۔ بھائی جان کے دوستوں میں ایک کیفی صاحب بھی تھے جو مجھے محض اس لئے یاد ہیں کہ وہ پتلون پہنتے تھے، اس زمانے میں پتلون پہننے والے لوگ بہت کم تھے چنانچہ اس شہر میں وہ صرف اپنے لباس کی وجہ سے جانے اور پہچانے جاتے تھے۔

وزیر آباد کے نالہ پلکھو کی شہرت کچھ اچھی نہیں تھی۔ ایک تو اس لئے کہ ہر سال سیلاب میں وہ دوچار جانیں ضرور لیتا تھا، دوسرا شہر کے آوارہ لڑکے نالہ پلکھو کے پل کے نیچے پائےجاتے یہاں راجو ںکا ثمن برج بھی تھا جس کے متعلق بہت سی کہانیاں مشہور تھیں مثلاً یہ کہ پرانے زمانے میں اس ثمن برج کے اندر جن بےگناہوں کو پھانسی دی جاتی رہی تھی ان کی روحیں آج بھی وہاں منڈلاتی ہیں۔ سننے میں آیا تھا کہ پھانسی گھر اور سرنگیں وغیرہ آج بھی موجود ہیں تاہم ظاہر ہے یہ اب استعمال میں نہیں تھیں۔ اس پرانے قلعے کے مین گیٹ کے دونوں طرف بنے چبوتروں پر دو تین افیمی سوئے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں گھڑی شازونادر ہی کسی کے پاس ہوتی تھی، کلائی والی گھڑی تو مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے دیکھی ہو البتہ شہر کے معززین اپنی شیروانی یا اپنے کوٹ کی سامنے والی جیب میں گھڑی رکھتے تھے جس کی زنجیر باہر کو لٹکی ہوتی۔ اس زمانے کے ’’امراء‘‘ ’’تھری کاسل‘‘ سگریٹ کا ٹِن کا ڈبہ ہاتھ میں پکڑ کر چلتے، عام گھروں میں لائف بوائے صابن استعمال ہوتا جو لوگ ’’سن لائٹ‘‘ استعمال کرتے انہیں خوشحال اور شوقین مزاج سمجھا جاتا تھا۔

سو یہ تھا میرا پرانا وزیر آباد جہاں نہ عالیشان بنگلے تھے نہ کاریں تھیں، جہاں ٹی وی، فریج، موبائل فون، ڈش، ایئر کنڈیشنر، مائیکرو ویو اوون، کمپیوٹر، ٹیلی فون وغیرہ کچھ نہیں تھا جہاں لوگ روکھی سوکھی کھاتے تھے مگر کوئی اپنے لختِ جگر کو ملک سے باہر نہیں بھیجتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب عدالت پر اعتماد تھا کہ وہ انصاف کرے گی ،جب جرنیلوں اور سیاست دانوں میں مالی کرپشن نام کی کوئی چیز نہیں تھی، دہشت گردی نہیں تھی، فرقہ پرستی نہیں تھی، ملاوٹ نہیں تھی، تازہ تازہ ملک بنا تھا، بےشمار مسائل تھے مگر مایوسی کہیں نہیں تھی، یہ اس دور کا وزیر آباد تھا اور یہ آج کا پاکستان ہے!

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے