[pullquote]جہاز کی سیڑهیاں چڑهنے اور اترنے والا کوئی مریض پیارے پاکستان میں ہی مل سکتا ہے[/pullquote]
سابق صدر پرویز مشرف انتہائی سخت سیکورٹی اور انتہائی پراسرار انداز میں کراچی سے دبئی پہنچ پہنچے‘ سابق صدر عام مسافروں کی طرح نہیں بلکہ سیڑھی سے جہاز پر چڑھے اور سیڑھی سے ہی اترگئے ‘ انہیں کراچی میںبھی جہاز تک انتہائی خفیہ انداز میں لایا گیا اور دبئی میں بھی پارکنگ بے میں جہاز روک کر پراسرار انداز میں جہاز سے اتار کر کئی گاڑیوں کے قافلے میں خصوصی راستے سے ائرپورٹ سے نکال کر رہائشگاہ پہنچایا گیا ‘اس نمائندے نے بھی خلیجی ایئر لائن کی پرواز ای کے 611 سے پرویز مشرف کےساتھ دبئی تک کا سفرکیامگر ان کی ایک جھلک دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ ہوسکا‘پروگرام کے تحت پرویز مشرف کےگھر سے روانہ ہونے کے بعد اس نمائندے نے جہازمیں آن بورڈ ہونا تھا ‘جہاز میں بورڈنگ کا ٹائم ختم ہوا تو رہائش گاہ سے سکیورٹی قافلہ 3 بجکر38منٹ پرروانہ ہوا، خیال یہی ظاہرکیاجا رہا تھا کہ سابق صدر ان میں سےکسی ایک گاڑی میں ائرپورٹ کی طرف سفر کر رہے ہوں گے‘ اسی اطلاع پرجب یہ نمائندہ جہاز میں پہنچا تو پرویز مشرف اسی وقت ہوائی جہاز کے نیچےکھڑی کئی لینڈ کروزر گاڑیوں میں سے کسی ایک سے اتر کر جہاز میں سوار ہو چکے تھے ‘ان گاڑیوں کی تعداد 6 سے زائدتھی ‘اگر پرویز مشرف جہازمیں نمائندہ جنگ کے سامنے تھے تو پھر ان کے گھر سے نکلنے والے کئی گاڑیوں کے قافلے میں کون سفر کر رہاتھاتاہم جیو نیوز ہی نےسب سےپہلے گاڑیوں کے اس قافلے کو محض میڈیا کے لئے دکھاوا ہونے کی خصوصی خبر دی جس نے پورے میڈیاکو ٹرک بتی کے پیچھے لگایاہواتھا‘پرویز مشرف بغیر کسی سہارے کے سیڑھیاں چڑھ کر جناح ٹرمینل کے گیٹ نمبر 24 پر لگی خلیجی ائرلائن کی پرواز ای کے611کے جہازمیں سوار ہوئے‘ انہیں دیکھنے کے لئے جب یہ نمائندہ طیارے کے فرسٹ کلاس کیبن میں پہنچاتوآنکھیں چارہوئی ہی تھیں کہ سابق صدر کے ساتھ سفرکرنیوالے ان کے دست راست اور خاص دوست طارق محمود نے متوجہ کیا اور وہاں آنے کی وجہ پوچھی‘پرویز مشرف سے ملنے اور تصویر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو طارق محمود نے پرویز مشرف سے بات چیت کرنے اور تصویر بنانے سے معذرت کرتے ہوئے منع کردیا ‘ پرویز مشرف کو ایئرپورٹ اسٹاف کے لیے مخصوص غیر روایتی راستے سے ایئرپورٹ کے اندر لے جایا گیاتھا۔ فلائٹ مقررہ وقت سے چند منٹ کی تاخیر سے روانہ ہوگئی جس میں سوارسابق صدر مشرف وی آئی پی کیبن میں بیٹھ کر موسیقی سے لطف اندوز ہوتے رہے اور چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی ‘مشرف کی صحت بظاہر بہتر لگ رہی تھی اور وہ پرسکون انداز میں کراچی سےدبئی پہنچ گئے‘ایسا محسوس ہورہاتھا کہ سابق صدرطیارے میں ہی صحت یاب ہوگئے ہیں.
فلائٹ ای کے 611 نے کراچی سے ٹیک آف کیا تو اس کے بعد بھی کئی مرتبہ اس نمائندے کی جانب سے جہاز کے فرسٹ کلاس کیبن میں جانے کی کوشش کی گئی تو وہاں غیرمعمولی صورتحال دیکھنے کو ملی‘جہاز میں مسافروں کی خدمت کیلئے مامور دو تین فضائی میزبان غیرمحسوس انداز میں مسلسل سیکورٹی دے رہے تھے اورفرسٹ کلاس کیبن کے اس ایریا میں کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ کیبن کی لائٹس مدھم رکھی گئیں تھیں ‘جہاز میں سفر کرنے والے کئی مسافر جنرل پرویز سے ملنے اور تصاویر بنوانے گئے تو انہیں بھی منع کردیا گیا‘ طیارہ مقررہ وقت پرصبح 6بجے دبئی ایئرپورٹ پر اترا تو اسے ٹرمینل پر لے جانے کی بجائے پارکنگ بے میں لے جایا گیا جہاں پہلے سے مقامی سیکورٹی کے کئی اہلکار اور چار سیاہ رنگ کی مرسیڈیز گاڑیاں کھڑی ہوئیں تھیں‘ جہاز کا انجن بند ہوا تو یہ گاڑیاں جہاز کے نیچے پہنچ گئیں‘ تمام مسافروں کو ان کی نشستوں پر ہی کھڑے رہنے کی ہدایت کی جاتی رہی‘ اس دوران پائلٹ کی طرف سے گیٹ پر خصوصی سیڑھی لگائی گئی جس سے پرواز کے خاص مہمان پرویز مشرف اور ان کے دست راست طاہر محمود نیچے اترے اور گاڑیوں میں سوار ہوگئے ۔ جنرل پرویز مشرف کے سیڑھی کے ذریعے جہاز میں سوار ہونے‘ دو گھنٹے کے فضائی سفر کے دوران ہشاش بشاش رہنے اور دبئی میں خصوصی سیڑھی کے ذریعے اترنے کے عمل سے کہیں یہ تاثر نہیں مل رہا تھا کہ محض 36گھنٹے پہلے یہ شخصیت انتہائی نگہداشت کے شعبے کا مریض تھا‘یہ محسوس ہوتا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ نے جس بیمار مریض کے علاج کے لیے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکالنے اور انہیں علاج کیلئے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی وہ بیمار پرویز مشرف پاکستان میں ہی رہ گیا‘انہیں خصوصی انتظامات اور پروٹوکول کے تحت دبئی میں ان کی رہائشگاہ منتقل کیا گیا جہاں انہوں نے مقامی اسپتال یا ڈاکٹروں سے علاج کیلئے صلاح مشوروں کی بجائے پہلے ہی روز پارٹی رہنمائوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کردیا. اب ان کا کئی سال پہلے کا یہ جملہ یاد آرہا ہے کہ پاکستان کا االلہ ہی حافظ….