راجن پور کا چھوٹو گینگ:اصل کہانی کیا ہے؟

چھوٹو گینگ کے خلاف ہر سال اپریل کو پولیس آپریشن کرتی ہے اور ہرسال اس آپریشن کے حوالے سے صحافیوں کو بریفیگ دی جاتی ہے جس میں پولیس اس گینگ کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے . اگر کوئی صحافی تیکھا سوال پوچھ لے تو اس دھمکایا جاتا ہے .

چھوٹو گینگ کی کہانی اتنی سادہ نہیں‌ جتنی کہ آپ کو اخبارات کے کرائم رپورٹرز اور ٹی وی کی پریکنگ نیوز بتا رہی ہے .

اس کہانی کا ایک بھیانک پس منظر ہے۔ جسے جاننے کےبعد پاکستان کا ایک عام شہری قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔

چھوٹو گینگ کا سربراہ کون ہے؟

غلام رسول المعروف چھوٹو بکھرانی پر سندھ پنجاب کے مختلف تھانوں میں سنگین نوعیت کے 48 مقدمات درج ہیں.

زندہ یا مردہ گرفتار کیلئے حکومت نے اس کے سر کی قیمت 20 لاکھ روپے مقرر کر رکھی ہے.

چھوٹو کے والد کا نام بھٹہ بکھرانی ہے .چھوٹو راجن پور کی تحصیل روجھان کے علاقہ کچہ کراچی کا رہائشی ہے . اس کے والد کا پیشہ مزدوری اور کھیتی باڑی تھا.

چھوٹو بکھرانی پر پہلی ایف آئی آر 7 اگست 1987ء کو تھانہ بھونگ میں درج کی گئی. اس پر زیردفعہ پی پی سی 411 کے تحت کارروائی بھی ہوئی.

تھانہ بھونگ میں چھوٹو پر 6 مقدمات ہیں جن میں سے ایک مقدمہ میں گرفتار ہو کر حوالات میں قید بھی رہا.

رحیم یار خان کے علاقہ تھانہ کوٹ سبزل‘ تھانہ احمد پور لمہ‘ تھانہ ظاہر پیر اور ضلع راجن پور کے مختلف تھانوں جام پور‘ بنگلہ اچھا‘ شاہوالی‘ کوٹ مٹھن‘ گوٹھ مزاری‘ تھانہ قندائی میں بھی مقدمات درج ہیں.

اس کے خلاف آخری مقدمہ 16جولائی 2013ء کو درج ہوا۔ تاہم اس کے بعد سندھ اور پنجاب کی پولیس پر اس کا اتنا

غلام رسول المعروف چھوٹو ایک ہوٹل کا بیرا تھا۔ آہستہ آہستہ چھوٹی موٹی چوری کی وارداتوں سے جرائم کی دنیا میں داخل ہوا
غلام رسول المعروف چھوٹو ایک ہوٹل کا بیرا تھا۔ آہستہ آہستہ چھوٹی موٹی چوری کی وارداتوں سے جرائم کی دنیا میں داخل ہوا

خوف بیٹھا کہ کسی بھی ایس ایچ او کو اس کےخلاف مقدمہ درج کرنے کی جرأت نہ ہوئی جبکہ گزشتہ تین سالوں میں اس نے سندھ پنجاب پولیس کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔

غلام رسول المعروف چھوٹو کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ابتداء میں وہ ایک ہوٹل کا بیرا تھا۔ آہستہ آہستہ چھوٹی موٹی چوری کی وارداتوں سے جرائم کی دنیا میں داخل ہوا۔ پھر اسے مقامی جاگیرداروں کی سرپرستی حاصل ہوئی تو اس نے اپنا مضبوط گینگ بنا لیا ۔

یہ گینگ پچھلی ایک دہائی سے اس علاقے میں خوف و ہراس کی علامت بن گیا۔ اغواء برائے تاوان، ڈکیتیاں اور مقامی غریب لوگوں کی خواتین کی بےعزتی اس گینگ کا معمول ہے ۔

اب اس گینگ کے خلاف ہونے والے آپریشن کی جانب آتے ہیں ۔ یہ علاقہ کچہ کہلاتا ہے ۔ کچہ سے مراد وہ علاقہ ہے جو دریا کے دونوں کناروں پر واقع ہے ۔ یہ ہزاروں ایکٹر علاقہ اکثر موسمی سیلابوں کی زد میں میں آتا رہتا ہے ۔

کچہ کا علاقہ کسی کی ملکیت نہیں بلکہ اسے سرکاری زمین شمار کیا جاتا ہے ۔ یہاں عارضی طور پر غریب مزارعے آباد ہیں ۔ ان محنت کشوں کا دارومدار اسی زمین پر ہے ۔ وہ یہاں فصل اگاتے ہیں ۔ اگر فصل سیلاب سے بچ جائے تو اس کے ذریعے ان کی گزر بسر ہوجاتی ہے ۔

یہ گندم کی کٹائی کا موسم ہے ۔ کچے کے علاقے میں گندم کی کٹائی کا اور پولیس کے آپریشن کا بہت گہرا تعلق ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس ہر سال اسی موسم میں اس علاقے میں چھوٹو گینگ کے تعاقب کے نام پر آپریشن کرتی ہے ۔

ہمارے ذریعے کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے نام پر وہاں کی پولیس مزراعوں کا غلہ /اناج وغیرہ ہتھیالیتی ہے اور میڈیا اور دیگر متعلقہ اداروں کے سامنے چھوٹو گینگ کانام استعمال کیا جاتا ہے ۔

ذرائع نے اعلیٰ ضلعی افسر کے حوالے سے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے گزشتہ سال ”اپنی کارروائی” مکمل کرنے کے بعد چھوٹو گینگ کے کارندوں کو بحاظت کشتیوں کے ذریعے اپنی پناہ گاہوں میں چلے جانے کا موقع دیا تھا.

رواں سال کے موسمی آپریشن میں صورت حال پولیس کی ہاتھوں سے اس وقت نکل گئی جب چھوٹو گینگ نے 22 کے قریب پولیس اہل کاروں کو یرغمال بنا لیا اور 6 اہلکار ہلاک کر دیے.

اس آپریشن میں‌13 اضلاع کے 1600 پولیس اہلکاروں کی خدمات لی گئی ہیں لیکن صورت حال ابھی تک قابو سے باہر ہے
اس آپریشن میں‌13 اضلاع کے 1600 پولیس اہلکاروں کی خدمات لی گئی ہیں لیکن صورت حال ابھی تک قابو سے باہر ہے

میڈیا اطلاعات کے مطابق اس آپریشن میں‌13 اضلاع کے 1600 پولیس اہلکاروں کی خدمات لی گئی ہیں لیکن صورت حال ابھی تک قابو سے باہر ہے .

آج جمعے کے روز پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے 48 گھنٹوں میں‌ چھوٹو گینگ کا خاتمہ کر دیا جائے گا .

دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ پنجاب پولیس کی ناکامی کے بعد آپریشن کے لیے ضرار کمانڈوز کے دوگروپوں سمیت پاک فوج کے 100جوان پہنچ گئے جبکہ ملتان سے 33 پنجاب رجمنٹ کی دوکمپنیاں بھی علاقے میں پہنچ گئیں ہیں

تازہ اطلاعات کے مطابق چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن میں چھ ہیلی کاپٹر بھی حصہ لیں گے اور آئندہ 24 گھنٹے کارروائی کے لیے اہم بتائے جاتے ہیں.

تفصیلات کے مطابق چھوٹوگینگ کے خلاف پنجاب پولیس کے آپریشن کے دوران پولیس اہلکاروں کی شہادت اور یرغمال بنائے جانے کے بعد مقامی پولیس نے آئی جی پنجاب سے فوج کی مدد لینے کی درخواست کی تھی ،جس کی منظوری ملنے کے بعد آپریشن ’ضرب آہن‘ کے اٹھارہویں روز ضرار کمانڈوز کے دوگرپوں سمیت پاک فوج کے 100اہلکار دوہیلی کاپٹرز کے ذریعے رات گئے رحیم یارخان کے فرید ایئربیس پہنچے ، جہاں سے راجن پور روانہ ہوگئے ۔

 پنجاب پولیس کی ناکامی کے بعد آپریشن کے لیے ضرار کمانڈوز کے دوگروپوں سمیت پاک فوج کے 100جوان پہنچ گئے
پنجاب پولیس کی ناکامی کے بعد آپریشن کے لیے ضرار کمانڈوز کے دوگروپوں سمیت پاک فوج کے 100جوان پہنچ گئے

ملتان سے 33 پنجاب رجمنٹ کی دوکمپنیاں بھی موقع پر پہنچ چکی ہیں جبکہ اوکاڑہ سے پاک فوج کی ایک بٹالین مزید طلب کرلی گئی جس کے بعد 500جوان راجن پور روانہ ہوگئے ۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بیک اپ سپورٹ کے لیے 7 ونگ چولستان رینجرز کے اہلکار بھی راجن پور پہنچ گئے اور پولیس کے جوان بھی بدستور آپریشن کا حصہ رہیں گے۔

پنجاب پولیس کی طرف سے وائرلیس پیغامات کے ذریعے چھوٹوگینگ سے ہونے والے مذاکرات میں چھوٹو نے مطالبہ کیا کہ پولیس کے ساتھ ملنے والے تین گینگز کے خلاف بھی کارروائی کی جائے اور علاقے سے پولیس کو ہٹایاجائے ۔ پولیس کیساتھ ملنے والے گینگز کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر بہت سے لوگ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں .انہیں خدشہ ہے کہ بعد میں پولیس ان گینگز کی سر پرستی کے کے انہیں مستقبل میں چھوٹو بنا سکتی ہے .

واضح رہے کہ گزشتہ 17 روز سے جاری پولیس کے آپریشن کے دوران 6 اہلکار شہید اور 22 کو یرغمال بنایا جاچکا ہےپنجاب رینجرز کی 9کمپنیاں علاقے میں موجود ہیں ۔

ایک مقامی شہری کا کہنا ہے کہ کچہ کے علاقے میں‌پولیس اور چھوٹوگینگ کی گٹھ جوڑ اور علاقے کے مخصوص جاگیردار خاندان کی ان جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کے حوالے سے کافی عرصے سے خبریں گردش میں ہیں لیکن کوئی بھی اخبار یا کرائم رپورٹر خوف کی وجہ سے صحیح صورت حال نہیں بتا سکتا .

ذریعے نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس جاگیردار خاندان کے پنجاب کے مرکزی حکومت سے براہ راست تعلقات ہیں جس کی وجہ سے پولیس ان خطرناک گینگ کےخلاف کھل کر کارروائی کرنے سے ہچکچاتی ہے .

ان حالات میں پولیس جس کا کام شہریوں کی جان ومال کا تحفظ ہے ، کی ساکھ شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے .
ان حالات میں پولیس جس کا کام شہریوں کی جان ومال کا تحفظ ہے ، کی ساکھ شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے .

اطلاعات میں کہ ہر سال اپریل کے مہینے میں‌کیے جانے والے اس ‘موسمی’ آپریشن میں مقامی مزارعوں کے غلے سے حاصل کی جانی والی رقم کا حصہ بالائی سطح تک تقسیم کیا جاتا ہے .

راجن پور کے شہریوں نے پولیس کے اس دہرے کردار کے خلاف مظاہرے بھی کیے ہیں اور آئی جی پنجاب کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا ہے .

اندازہ یہ ہے کہ فوج اب اس گینگ کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کرے گی کیونکہ اس علاقے سے پاک چائینا کوریڈور نے بھی گزرنا ہے . فوج کی اولین ترجیح ہے کہ کوریڈور کے راستے کو محفوظ بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے