غلط خبر کی اشاعت پر صحافی اور اخباری مالکان پرجرمانہ بڑھا رہے ہیں .ڈاکٹر صلاح الدین مینگل

کسی بھی ادارے کا سربراہ اس ادارے کی ساکھ، ترقی اور مستقبل کا امین ہوتا ہے، اگر سربراہ فوری ایکشن لینے اور قانون پر عملدرآمد کروانےوالابن جائے اور کام کو اپنا نصب العین جانتے ہوئے ایمانداری، محنت لگن اور انصاف پر مبنی خدمت کرنے کا ارادہ کر لے تو اس ادارے کی ترقی کوکوئی نہیں روک سکتا، چیئرمین پریس کونسل آف پاکستان ڈاکٹر صلاح الدین مینگل سے انٹرویو کرنے پر ان کی زندگی سمیت ان کی اہلیت بار ے بہت سے پردے چاک ہوئے، بلوچستان کا غیور سپوت اسلام آباد صرف اس لئے آیا کے وہ چاہتے تھے کہ بلوچی قوم کی نمائندگی کر کے بتا سکیں کے بلوچ قوم ایک محنتی اور محب وطن قوم ہے اور ڈاکٹر صلاح الدین مینگل نے ہر موڑ پر اسے ثابت کر کے دکھایا،وہ وکالت کی نرم گرم راہیں ہوں ،تعلیم کا میدان ہو یا پھر کوئی بھی کام غرض ہر جگہ اپنی محنت کے بل پر اپنا مقام بنایا اور پھراپنی ذمہ داریوں کو با احسن نبھایا۔

ڈاکٹر صلاح الدین مینگل 26جون 1964 ء کو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں علاقے کی متول سماجی شخصیت حاجی محمد شریف کے ہاں پیدا ہوئے، ڈاکٹر مینگل کو تعلیم سے لگاوٗبچپن سے ہی تھا اور لگاتار اول پوزیشنیز لینے والے صلاح الدین مینگل نے اپنی منزل 1977ء میں لاء کالج کوئٹہ سے قانون دانی کے شعبے میں اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد سے مقننہ میں اعلیٰ مقام کے حصول تک ہدف کر رکھی تھی، جبکہ تعلیم کا سلسلہ ان کی شبانہ روز محنت جس میں اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان،لاء کالج کوئٹہ کے پرنسپل کا عہدہ، وزارت قانون و انصاف میں جوڈیشل ممبر اپیلیٹ ٹریبیونل ، ممبر سینٹ کمیٹی برائے بلوچستان یونیورسٹی،پراسیکیوٹر جنرل بلوچستان اور دیگر اہم ذمہ داریوں کی انجام دہی کے ساتھ جاری و ساری رہا، اور انہوں نے 2008ء میں قانون کے شعبہ میں ہی پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری بھی حاصل کر لی۔ تعلیمی میدان میں جھنڈے گاڑنے والے ڈاکٹر مینگل کو حکومت کی جانب سے پریس کونسل آف پاکستان کے لئے چیئرمین کی ذمہ داریا ں ا ن کی کارکردگی کی بنیاد پر تین سال کے لئے تفویض کی گئی ہیں،چیئرمین پی سی پی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نمائندہ خصوصی روزنامہ پاکستان فیصل بن نصیر کے ساتھ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کی خصوصی گفتگو ذیل میں نظر قارئین ہے۔

[pullquote]فیصل بن نصیر[/pullquote] پریس کونسل آف پاکستان کی ذمہ داریا ں کیا ہیں اور یہ ادارہ کب قائم ہوا۔؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل[/pullquote] پریس کونسل آف پاکستان صحافیوں کو ان کے حقوق دلانے اور اخبارات کو جامع رپورٹننگ کرنے پر کاربند کرنے کے لئے قائم کردہ حکومتی اد ارہ ہے،جس طرح پیمراء الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ ہے اسی طرح پرنٹ میڈیا کے لئے حکومت کی جانب سے پریس کونسل آف پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ پرنٹ میڈیا کی مشکلات دور کرنے سمیت ریگولیٹ کرنے میں معاون ہو سکے۔

[pullquote]فیصل بن نصیر[/pullquote]پریس کونسل مذہبی مواد کی اشاعت اور ضابطہ اخلاق کے حوالے سے اخبارات کے لئے کیا پالیسی رکھتا ہے؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل [/pullquote]میڈیا ہاوسسز کو چاہیے ضابطہ اخلاق پر مکمل طور پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں، غیر اخلاقی اور نا مناسب الفاظ کے استعمال، کسی خاص نظر یہ یا سوچ کو نمایاں کرنے،مذہبی، مسلکی، لسانی یا ذات سے متعلق نفرت انگیز کلمات یا کسی جانب خاص جھکاو ۔ جرائم پیشہ افراد کو ہیرو بنانے ، سنسنی خیزی،ظلم و زیادتی کے واقعات کی حد ود وقیود سے عاری رپورٹننگ اور بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کی تصاویر کوشائع کرنا بھی ممنوع ہے، ضابطہ اخلاق پر عمل نہ کرنے والے اخبارات کو پریس کونسل آف پاکستان کی جانب سے وارننگ جاری کی جاتی ہے اور اگر غلطی سنگین ہو تو اس پر کاروائی عمل میں لا کر اخبارات کو جرمانہ کرنے کی پالیسی بھی پریس کونسل کے دائرہ اختیار میں موجود ہے لیکن میں سمجھتا ہوں صرف جرمانہ کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اداروں کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنانا زیادہ اہم ہے، جس سلسلے میں اداروں کے چیف ایڈیٹرز لیول پر مشاورت کا عمل جلد شروع کیا جا رہا ہے ۔

[pullquote]فیصل بن نصیر[/pullquote]کیا آپ پریس کونسل آف پاکستان کی موجودہ صورتحال سے ہمارے قارئین کو آگاہ کریں ؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل[/pullquote] پریس کونسل آف پاکستان کی موجود کارکردگی کی اگر بات کریں تو گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے کے دوران اختیارات کے تحت دو اسی سو موٹو جاری کئے ہیں جن پر فوری فیصلے کئے گئے ہیں ، جبکہ اس وقت پریس کونسل کے پاس پہلے سے موجود کیسوں میں سے صرف ساٹھ کیسسز پینڈنگ رہ گئے ہیں اور ان پر بھی جلد کام مکمل کر کے فوری انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔

[pullquote]فیصل بن نصیر[/pullquote] پی سی پی کا کام صحافیوں کی استعداد کار بڑھانے سمیت ان کی بہتری اور مستقبل کو محفوظ بنانے کے اقدامات بھی کرنا ہے اس ضمن میں آپ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل[/pullquote] پریس کونسل آف پاکستان صحافیوں کی ٹریننگ کے لئے پروگرامز کا جلد انعقاد کر رہی ہے اور انہیں مالی مشکلات سمیت کام کے دوران پیش آنے والی دیگر پریشانیوں سے نجات دلانے اور مستقبل محفوظ کرنے کے لئے آئندہ میڈیا ہاوسسز کے ساتھ مل کر ایک جامع پروگرام پر عملدرآمد کرنے کا خواہاں ہے، اور انشاء اللہ جلد ہی ہم ان پر عمل کر لیا جائے گا اور میں اپنے قارئین سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں چیئرمین اس لئے نہیں بنا کہ مجھے عہدہ کا لالچ تھا بلکہ میں چاہتا ہوں صحافی کی مشکلات کم ہوں اور وہ اپنا مستقبل روشن دیکھ سکے اور میں اپنے اس خواب کو ضرور پورا کروں گا اس کام کے لئے مجھے صحافیوں کی مدد اور اداروں کی جانب سے سپورٹ چاہیے اور اگر پاکستان کا صحافی مضبوط ہو گا تو نہ صرف ادارے مضبوط ہوں گے بلکہ صحافت ترقی کرئے گی اور پاکستان کا نام روشن ہو گا ، جو میرا مشن ہے۔

[pullquote]فیصل بن نصیر [/pullquote]پریس کونسل کے چیئرمین کو سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات حاصل ہیں ،آپ ان اختیارات کا ستعمال کیسے کرنا چاہیں گے؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل [/pullquote]دیکھیں جہاں تک تو فیصلے کرنے کی بات ہے تو ایک بلوچ ہونے کے ناطے آ پ کو اتنا بتا دوں کہ بہادری اور جرائت بلوچوں کا خاصہ ہے اور میں اپنے تجربے سے شعبہ صحافت کے لئے بہت کام کرنا چاہتا ہوں ، اگر حکومت کی جانب سے چیئرمین پریس کونسل کے لئے سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات تفویض کئے گئے ہیں تو یقیناًیہ کام کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے کیا گیا ہے اور یہ ایک اہم منصب ہے اور اس پر ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر رکھنا ہو گا، لیکن میں اپنے اختیارات سے زیاد سے زیادہ صحافیوں کو فائدہ دلوانے کے لئے کوشش کروں گا اور جہاں تک بات ہے صحافتی اداروں کی تو ان کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے بھی معاون ہوں گا۔کسی بھی دباو کا شکار نہیں ہوں گایہ نہ صرف میرے عہدے کا تقدس ہے بلکہ میری ذمہ داری بھی ہے ۔

[pullquote]فیصل بن نصیر[/pullquote]آپ اپنی تعلیمی قابلیت اور تجربے سے صحافت کے لئے کوئی بڑے اہم فیصلے کریں گے یا پھر جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہے والی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل[/pullquote] میں اہم فیصلے کرنے سے بھی گریز نہیں کروں گا لیکن اتنا بتاتا چلوں کہ پاکستان کا میڈیا اب بہتری کی جانب گامزن ہے اور صرف توجہ کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف ترقی ہو گی بلکہ یہ انڈسٹری پھلے پھولے گی اور میں صحافی کو اس کا مقام دلانے کے لئے مشکل سے مشکل فیصلہ کرنے کو تیار ہوں لیکن صحافیوں کو بھی اپنی ملکی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ذمہ دارانہ رپورٹننگ کرنا چاہیے۔

[pullquote]فیصل بن نصیر[/pullquote] آپ اپنے قریبی حلقوں میں علم دوست اور نرم گو مشہور ہیں ، اپنے بارے میں کچھ شیئر کرنا پسند کریں گے۔

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل [/pullquote]جی فیصل صاحب علم تو ایسی چیز ہے جو پھیلانے سے بڑھتا ہے اور میں نے علم کی ترقی کے لئے جو بن سکا کیا، اردو، ادب کا دلدادہ ہوں، براہوی اور اردو زبان میں دس کتابوں کا مصنف ہوں، جبکہ انگریزی زبان میں دو کتابیں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں اور جلد ہی شائع ہو رہی ہیں۔ کتاب دوستی ہی دراصل علم دوستی ہے اور علم کو پھیلانے کا سلسلہ گود سے گور تک جاری رہنا چاہیے۔

[pullquote]فیصل بن نصیر[/pullquote] انتظامی معاملات اور مالی معاملات کی بات کریں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے اس ادارے کی ضروریات پوری کرنے کے لئے جو فنڈز موجود ہیں، کیا یہ آپ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل [/pullquote]آپ نے اس موضوع کو چھیڑ دیا ہے تو بتاتا چلوں کہ جہاں تک فنڈز کی بات ہے تو صرف چار کروڑ روپے سالانہ سے تمام پرنٹ میڈیا کی ریگولیشن، صحافیوں کی ٹریننگ کا انتظام و انصرام اور پھر سٹاف کی تنخواہیں اور تو اور بلڈنگ کا کرایہ ہی سالانہ پچاس لاکھ روپے ادا کرنا پڑتا ہے، حکومت سے درخواست ہے کہ ادارے کے لئے کوئی بلڈنگ مہیا کر دے تاکہ ہم اپنی مالی مشکلات سے نکل کر کاموں کی طرف خاص توجہ مرکوز کر سکیں، اسلام آباد میں چھوٹے سے چھوٹے ادارے کو بھی حکومت کی جانب سے دفاتر کی سہولیات دی گئی ہیں ،جبکہ اہم ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافتی ادارے کے لئے کوئی ایسا ٹھکانا بھی نہیں جہاں سر چھپا کر بیٹھا جا سکے، گزشتہ بلڈنگ جو پی آئی ڈی بلڈنگ سے متصل تھی ہمیں فورا چھوڑنے کے احکامات ملے کیونکہ وہاں زلزلے کے بعد مخدوش حالت کی بناء پر کسی بھی وقت بڑے سانحے کا خطرہ منڈلا رہا تھا، لیکن اب کرائے کی تلوار ہر وقت سر پر لٹک رہی ہے اور پی سی پی مشکلات کا شکار ہے۔حکومت الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے قائم ادارے پیمرا کو تو بے انتہا وسائل اور فنڈز مہیا کر رہی ہے لیکن اخبارات کو ریگولیٹ کرنے والی پریس کونسل آف پاکستان کے لئے کوئی فنڈز ہی نہیں ہیں۔ دوسری جانب پیمرا کروڑوں روپے کے فنڈز اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کر رہا ہے جبکہ اس کے برعکس پی سی پی کو صرف چند بڑے اخبارات معمول کے مطابق ادائیگیاں کر رہے ہیں جبکہ دیگرسینکڑوں چھوٹے اخبارات کی جانب سے ادائیگیوں کے معاملات سے کنی کترانا ایک ایسا عمل ہے جو پریس کونسل کے مالی معاملات کو مزید مشکلات کا شکار کئے ہوئے ہے۔

[pullquote]فیصل بن نصیر [/pullquote]کیا پی سی پی کی جانب سے غلط رپورٹنگ کرنے پر صحافی کے لئے کوئی سزا یا اشاعتی ادارے کو کوئی جرمانہ بھی کیا جاتاہے؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل [/pullquote]جی بالکل اس ضمن میں درخواست موصول ہونے یا پھرسو موٹو اختیارات کے تحت کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور کسی بھی غلط خبر کی اشاعت پر دس ہزار روپے جرمانے تک کی سزائیں دی جاتی ہیں اور مستقبل میں جرمانے کی سزاوں کو بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ غیر دانستی غلطی یا پرنٹنگ کی لا پرواہی پر وارننگ بھی جاری کی جاتی ہے ، صحافت کے اصولوں پرکار بند رہنا اور عمل درآمد کروانا پی سی پی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

[pullquote]فیصل بن نصیر [/pullquote]چیئرمین پی سی پی کا عہدہ پا کر کیسا محسوس کر رہے ہیں، کیونکہ اس کا درجہ سپریم کورٹ کے جج کے عہدہ کے برابر ہے اور آپ کی ایک خواہش بھی تھی کہ آپ اعلیٰ عدلیہ کے لئے کام کریں ۔؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل [/pullquote]چیئرمین پریس کونسل صرف ایک عہدہ نہیں بلکہ ایک ایسی اتھارٹی ہے جو اخبارات کو ان کا حق دلانے کے لئے قائم کی گئی ہے اور جتنی دیر میں اس سیٹ پر موجود ہوں مجھے صحافت کے خدمت گار کے طور پر جانا جائے تو فخر محسوس کروں گا،اور میں محنت پر یقین رکھنے والا شخص ہوں ، اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت نہ کرتا ہوں اور نہ کسی اور کی جانب سے برداشت کرتا ہوں۔

[pullquote]فیصل بن نصیر[/pullquote]صحافت کا مستقبل پاکستان میں کیسا دیکھتے ہیں؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل [/pullquote]پاکستان میں پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کا مستقبل روشن دیکھ رہا ہوں ، اس وقت الیکٹرانک میڈیا میں اچھی تنخواہیں دی جا رہی ہیں، اگر پرنٹ میڈیا میں تنخواہیں نسبتا کم ہیں تو صرف اخباری مالکان اس کے ذمہ دار نہیں ہیں ، اخباری صحافی کو بھی محنت کر کے اپنی شناخت بہتر کرنا ہو گی تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں۔

[pullquote]فیصل بن نصیر [/pullquote]چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پرنٹ میڈیا کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

[pullquote]ڈاکٹر صلاح الدین مینگل [/pullquote]میڈیا ہاوسسز کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان ہماری آن بان شان ہے اور اخبارات میں کسی بھی مواد کو شائع کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھیں کہ ملک سے متعلق مثبت باتوں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کریں،صحافی کو چاہیے کے رپورٹنگ کرتے وقت قومی مفاد کو مقدم رکھیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا بہترین امیج سامنے آ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے