پاکستان کے تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں ماضی قریب تک کم وبیش سبھی شعبوں میں سالانہ امتحانات کا نظام(Annual System) رائج تھا اور اب بھی بعض درس گاہوں میں جزوی طور پر اسی نظام کے تحت امتحانات کا انعقاد ہوتا ہے لیکن وہ ادارے بھی اب مکمل طور پر سمسٹر سسٹم (Semester System)کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔
سمسٹر سسٹم کی وکالت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ سالانہ امتحانات کا نظام ناقص ہے اور اس کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی استعداد بہتر نہیں ہو پاتی ۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سالانہ امتحانات کے نظام کے تحت عموماً دیکھا گیا ہے کہ طلبہ کلاسوں میں حاضری کو اتنی اہمیت نہیں دیتے اور اساتذہ بھی صرف امتحانات کے قریب ایک دو ہفتے اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کو تیزکرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سارا سال وقت گزاری کی نذر ہوجاتا ہے ۔
سالانہ نظام امتحانات کے ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سسٹم کے تحت پڑھنے والے طلبہ عموماً امتحانات کے دنوں میں چند راتیں جاگ کر گیس پیپرز (Guess Papers)کی روشنی میں رٹا لگا کر اچھے نمبروں سے پاس ہو جاتے ہیں ۔
سمسٹر سسٹم کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سالانہ نظام امتحانات کے تحت چلنے والے نظام میں استاد اور شاگرد کے درمیان علم کے ابلاغ کے لیے جو تعلق درکار ہوتا ہے ، وہ استوار نہیں ہو پاتا۔ غرض کئی جہات سے سالانہ نظام پر تنقید کی جاسکتی ہے۔
اب آتے ہیں سمسٹر سسٹم کی جانب جو ہمارے تعلیمی اداروں میں اب آہستہ آہستہ رواج پارہا ہے۔بی ایس آنرز کی ڈگری کو عام طور پر آٹھ جبکہ ماسٹرز اور ایم فِل کی ڈگریوں کو چار سمسٹرز میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر سمسٹر چھ ماہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک سمسٹر میں عموماً دو امتحان ہوتے ہیں ۔ سمسٹر کے نصف میں ہونے والے امتحانات کو مڈٹرم اور آخری امتحانات کو فائنل کہا جاتا ہے اور جب سب سمسٹر مکمل ہوجاتے ہیں تو مجموعی نمبروں سے CGPA بنایا جاتا ہے۔
ہر سمسٹر کے لیے سلیبس مقرر ہوتا ہے جس میں عام طور پر آزاد مطالعے کو ترجیح دی جاتی ہے۔اساتذہ مختلف ذرائع سے متعلقہ موضوع کی تیاری کر کے آتے ہیں اور بعض یونیورسٹیوں نے اپنے پراسپیکٹس میں ہر سمسٹر کے سلیبس کے بعد مجوزہ مطالعے کے مآخذ درج کررکھے ہیں۔
سمسٹر سسٹم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس نظام کے تحت طلبہ کو زیادہ سے زیادہ سیکھنے کو ملتا ہے۔ کلاسوں میں طلبہ کی سال بھر کی اوسط حاضری سالانہ نظام یا اینول سسٹم کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔جب طلبہ باقاعدگی سے کلاسوں کا حصہ بنتے ہیں تو انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے ۔
اگر کسی سمسٹر میں کوئی طالبعلم کچھ مضامین میں فیل بھی ہو جائے تو وہ اپنا تعلمی سفر روکے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے اور اگلی بار سابقہ کلاس کے طلبہ کے ساتھ اس خاص مضمون کے امتحان میں شریک ہو سکتا ہے، اس طرح اس کا بہت سا وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ ان ساری دلیلوں کا خلاصہ یہ ہے کہ سمسٹر سسٹم سال بھر تعلیمی اداروں کی رونق کو برقرار رکھتا ہے۔
سمسٹر سسٹم کے اوپر بیان کردہ مثبت پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن پاکستان کی یونیورسٹیوں میں اس سسٹم کے آنے کے بعد ابھی تک کوئی غیر معمولی نتائج سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے تحت بہت کم طلبہ فیل ہوتے ہیں ۔
یہ بظاہر مثبت بات ہے لیکن طلباء کی عمومی علمی صلاحتیوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس نظام کے تحت ہونے والی امتحانی پرچوں کی پڑتال اینول سسٹم کی نسبت کافی ناقص ہے۔
اس کے علاوہ سمسٹر سسٹم میں طلبہ سے گروپ کی شکل میں پراجیکٹس اور اسائنمنٹس کروائی جاتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ چار یا پانچ طلبہ کے گروپ میں ایک یا دو افراد ہی ایسے ہوتے ہں جو دیے گئے کام کو مکمل کرتے ہیں لیکن جب وہ اسائنمنٹ یا پروجیکٹ متعلقہ استاد کو پیش کیا جاتا ہے تو اس پر پورے گروپ کے نام درج ہوتے ہیں ۔
جب سمسٹر کے آخر میں نمبر سامنے آتے ہیں تو کئی مرتبہ کام کرنے والے طالبعلم کے نمبر دوسروں کی نسبت کم ہوتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرچے جانچنے والے استاد کے پاس کیا پیمانہ ہے جس کی روشنی میں وہ ایک ہی گروپ کے ممبران کوایک ایسے پروجیکٹ میں غیر مساوی نمبر دیتا ہے جو ان سب کی مشترکہ کاوش ظاہر کی گئی ہے؟
سالانہ نظام میں امتحان کا سوالیہ پرچہ ایسا شخص بناتا ہے جس کا طلبہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اور پرچے کی جانچ بھی اسی طرح خفیہ بنیادوں پر کی جاتی ہے جس میں تعلقات کی بنا کر کسی کو نوازنے کا شائبہ بہت کم ہوتا ہے لیکن سمسٹر سسٹم کا معاملہ بالکل الگ ہے۔
یہاں مڈ ٹرم اور فائنل ٹرم دونوں کے سوالیہ پرچے وہی استاد بناتا ہے جو متعلقہ مضمون پڑھاتا ہے۔اس طرز عمل کی وجہ سے کئی طرح کی ناانصافیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ اس طرح ایک طرف تو امتحان کی حقیقی روح پر عمل نہیں ہوپاتا جبکہ دوسری طرف استاد کے ساتھ طلبہ کے تعلق کی نوعیت نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے اور فیورٹ ازم کی شکایات عام ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں رائج سمسٹر سسٹم کا ایک اورپہلو یہ بھی ہے کہ یہاں اساتذہ طلبہ کی حاضری پر بہت زور دیتے ہیں اور عموماً جن طلبہ کی ایک سمسٹر میں 75فی صد کے کم حاضری ہوتی ہے انہیں امتحان میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس صورت حال کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ استاد انتظامی طور پر مضبوط ہو گیا ہے اور اب طلبہ اور استاد کے درمیان تعلق مضبوط ہو چکا ہے لیکن حقیقت میں صورت حال مختلف ہے۔ اب طلبہ اساتذہ سے ان کی اُفتاد طبع اور مزاج کے مطابق تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ اُس استاد سے سوال نہیں کرتے جس کے انتقامی رویے کا انہیں خطرہ ہو۔اکثر طلبہ یہ بھی کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ بھئی! سمسٹر سسٹم میں استاد کے ساتھ (خوشامد کا تعلق)بنا کر رکھو گے تو ہی اچھے نتائج مل سکیں گے۔
اس سمسٹر سسٹم کے بے ثمر ہونے کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ انتہائی بھاری سی جی پی اے سے نوازے جانے والے طلبہ جب جاب مارکیٹ میں جاتے ہیں یا پروفیشنلز کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو ان کی اپنے مضمون سے متعلق معلومات انتہائی ناقص ہوتی ہیں۔
یہاں جس طریقے سے سمسٹر سسٹم چلایا جا رہا ہے اگر اس میں مناسب ترامیم نہ کی گئیں تو مستقبل قریب میں پاکستان میں ایسے ڈگری بردار نوجوانوں کی کثرت ہوگی جو علم کے اعتبار سے بالکل کھوکھلے ہوں گے اور یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ امتحانوں کے نظام ، پرچوں کی جانچ اورتدریسی طریقہ کار کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور اس میں ایسی ترامیم کی جائیں جس کے نتیجے میں ڈگریوں کی پیداوار کی بجائے حقیقی معنوں میں علم کی ترویج ہوسکے ۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس