بزرگوں کی زبانی سنا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جب دنیا میں اتارا گیا تو انہوں نے اپنا پہلا قدم "سراندیپ” یعنی سری لنکا میں رکھا، ہمیں بھی وہ مقدس جگہ دیکھنے اور اس ملک کی سیر کرنے کا اشتیاق ہوا، سو چل دئیے دوست سے ملنے سری لنکا۔
وہاں کا تہذیب و تمدن کافی منفرد سا لگا، دارالحکومت کولمبو تو چکمک (مقناطیس) ہے، ہر سیاح کی طرح ہم بھی اس کی طرف کھنچتے چلے گئے،مشرق سے مغرب تک سبزے کا قالین بچھا تھا، پام اور ناریل کے گھنے درختوں کے درمیان ترچھی سرخ چھتیں جیسے خوبصورتی سے پروئی گئی ہوں، ساتھ ہی بحر ہند کا نہ ختم ہونے والا پانی اور آسمان پر سرخ شام ۔۔تخلیق کار کی شاہکار پینٹنگ معلوم ہورہی تھیں،
سن 48 میں برطانیہ سے آزادی پانے والا ملک دراصل جزیرہ ہے، 65 ہزار610 مربع کلومیٹر پر پھیلے اس ملک میں شرح خواندگی 91.2فیصد ہے، مسلمانوں کی تعداد 2 کروڑ ہے جو کل آبادی کا 10 فیصد بنتی ہے، لوگ بھی حسین نظاروں کی طرح اچھے اور دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں، قطار میں کھڑے ہوتے ہیں، فٹ پاتھ پربیٹھے فقیر بھی اخبار یا کتاب پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ صاف ستھرے ماحول میں رہتے ہیں ، سیاحوں کااحترام کرتے ہیں، شاید اسی لیے ملک کے زیادہ ترجی ڈی پی کا انحصار سیاحت پر ہی ہے،
سری لنکا کا موسم گرم مرطوب ہے، جیسا عموما ساحلی علاقوں کا ہوتا ہے، دھوپ چبھتی ہے، گھر سے باہر نکلیں تو چند منٹوں میں پسینے سے شرابور ہو جاتے ہیں، لوگ قدرے سست الوجود ہیں، کام نہیں کرتے،اور رہی سہی کسر شراب نوشی نے پوری کر دی، ملک کے اسی (80) فیصد جوان اور ادھیڑ عمر لوگ شراب پیتے ہیں۔ کھانے مصالحے دار اور گرم ہیں، غربت بھی ہے، معاشرہ لبرل ہے، لڑکے اور لڑکیاں باہوں میں باہیں ڈال کر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں،لیکن اس کے باوجود چوری چکاری اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں، پاکستانیوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے،
لوگوں اور چیزوں سے آشنائی حاصل کرتے نظاروں کو کیمرے میں اور اپنی آنکھوں میں محفوظ کرتے دوروز گزر گئے، گاڑی میں دلکش نطاروں اور تاریخ کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب بھوک نے سکون سے بیٹھنے نا دیا، سڑک کے کنارے ایک ریستورانت میں گاڑی روکی گئی اور سب نے مل کر سری لنکن کھانا تناول فرمایا، کچھ شوق سے اور کچھ بحالت مجبوری- دیکھنے میں تو پاپڑ، دال، کراری آلو کی ترکاری اور خشکا چاول نہایت لذیز لگ رہےتھے مگر یہ تمام ذائقے نئے تھے اسی لیے جوس اور کولڈ ڈرنک کی مدد سے کھانا حلق سے اتارا۔
اک بار پھر سفر کا آغاز ہوا گاڑی “دی ملینیم ایلیفنٹ فاؤنڈیشن“ کے احاطے میں جا کر رکی- یہ ہاتھیوں کی ایک چھوٹی سی رہائش گاہ تھی جہاں سیاح اور ہاتھیوں کی خوب بنتی ہے۔ ہاتھیوں کی پسند کیلا سے یاد آیا کہ سری لنکا میں سرخ کیلا "جافنا” اور "کنگ کوکونٹ” کو بہت پسند کیا جاتا ہے،
یہاں ناریل دو قسم کے ہیں، بالوں والے ناریل سے گری نکلتی ہے جب کہ پیلے رنگ کے بے بال ناریل کا پانی پیا جاتا ہے، یہ ناریل ’’کنگ کوکونٹ‘‘ کہلاتا ہے، پپیتا اور انناس بہتات میں پایا جاتا ہے، سرخ رنگ کی لیچی بھی ملتی ہے لیکن یہ لیچی کرکٹ کی گیند کے برابر ہوتی ہے، اس پر سرخ موٹے بال ہوتے ہیں اور یہ ’’راموئن،،کہلاتی ہے۔ سری لنکا میں چائے اور کافی کو بھی بہت پسند کیا جاتا ہے،
سری لنکا کے لوگ پہلے چائے نہیں اُگاتے تھے۔ برطانوی راج کے دوران سن 1843 میں اسکاٹ لینڈ کے جیمز ٹیلر نے پہلی بار یہاں چائے کے پودے لگائے تھے۔ اس وقت برطانوی سری لنکا کو سیلون کہتے تھے۔ اب چائے سری لنکا کی اہم برآمدات میں سے ایک ہے۔ گزشتہ برس سری لنکا نے 1.5 بلین ڈالر مالیت کی چائے برآمد کی تھی۔ سن 1972ء میں ملک کا نام تبدیل کرتے ہوئے سیلون سے سری لنکا رکھ دیا گیا لیکن یہاں کی چائے اب بھی سیلون ٹی کے برانڈ سے مشہور ہے۔
چائے کی خرید و فروخت کے حوالے سے سری لنکا دنیا کا سب سے بڑا مرکز ہے، یہاں ہفتے کی بنیاد پر پچاس سے ساٹھ لاکھ کلو چائے کا کاروبار ہوتا ہے۔
سری لنکا کی ایک معروف چائے کمپنی کے مالک ہرمن گنراتنے اپنی چائے کو "ورجن ٹی” کہتے ہیں کیونکہ اس چائے کی پتیوں کو روایتی طور پر دوسری چائے کی پتیوں کی طرح ہاتھوں سے نہیں توڑا جاتا۔ اس چائے کی 20 گرام کی ڈبیہ کی قیمت 88 ڈالر ہے۔ اس طرح ایک کلو ورجن ٹی کی قیمت پانچ لاکھ روپے سے بھی زائد بنتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ دن میں دو مرتبہ چائے اور کافی پینے سے سگریٹ پینے والے مردوں میں دل کے امراض میں مبتلا ہونے کے چانسز میں کمی دیکھی گئی ہے۔
ایک برطانوی محقق ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ چائے، کافی کی نسبت صحت کے لئے زیادہ بہتر اور موثر ہے لہذا صرف کافی پینے والے افراد کافی نہ چھوڑیں مگر چائے بھی ضرور پئیں۔
تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسطی اور جنوبی امریکہ میں پائے جانے والے کافی کے تمام پودے اُس ایک ہی پودے سے اُگائے گئے ہیں جو سن 1804میں جاوا سے امسٹرڈم لایا گیا تھا۔ ایک عالم اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”عرابیکا قسم کی کافی کی پوری کاشت کا آغاز ایک ہی پودے سے ہوا۔“
آجکل تقریباً 80 ممالک میں ڈھائی کروڑ باغات میں کافی کی کاشت کی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دُنیابھر میں کافی کے 15 ارب پودے موجود ہیں۔ ہر روز کافی کی 2 ارب25 کروڑ پیالیاں پی جاتی ہیں۔
سری لنکن تاریخ ، ثقافت روایات پر بات کرتے ہوئے ہمارا سفر جاری تھا، ہمارے عزیز دوست نے ہمیں بتایا کہ 2014 کے اعدادو شمار کے مطابق سری لنکا کافی کی پیداوار کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے لیکن بہترین کافی ملنا اور اسے پی انجوائے کرنا خوش قسمت لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے، سو وہ ہمیں کولمبو کے بہترین کافی شاپ میں لے گیا، جہاں پر کافی کی پھلیوں کو تازہ تازہ پیس کر مزیدار کافی تیار کی جاتی ہے، جناب کہتے ہیں کہ ہمارے دَور میں مسئلہ یہ ہے کہ کافی کی پیداوار مانگ سے بڑھ گئی ہے۔ اس لئے بڑی بڑی سیاسی اور کاروباری تنظیمیں منافع کی غرض سے کافی کی کاشت کرنے والے چھوٹے کسانوں کو غربت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ اور تشہیر کے ذریعے مختلف طریقوں سے کشید شدہ کافی مارکیٹ میں پھیلا رہے ہیں۔ باتوں کے دوران ہمارے دوست نے کئی تحقیقات بھی سامنے رکھیں، کہتے ہیں کہ اگر آپ ہائپر ٹینشن کے مریض ہیں، تو ڈی کیف (کیفین سے مبرا) کافی لیجیے۔ مزید براں کیفین نیند بھگاتی ہے۔ لہٰذا آپ سونے میں دُشواری محسوس کریں، تو کافی کا استعمال کم کر دیں۔
اس سے پہلے کہ ہم اپنے دوست، سری لنکا یا کافی کے بارے میں قصیدہ گوئی شروع کرتے۔موصوف کہنے لگے یہ تحقیق کی ہے ،ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر روب وان ڈیم نے۔
اس وقت آپ سری لنکا کی بہترین کافی لیں،حضرت آدم علیہ السلام نے جہاں قدم مبارک رکھا تھا وہاں کل چلیں گے ۔ کولمبو کے اس مشہور ریستورنٹ کی کافی شاپ میں تقریبا 56 قسم کی کافی کی فہرست آویزاں تھی، ہمیں انتخاب کا موقع دیاگیا، لیکن طویل فہرست نے آنکھیں چکا چوند کردیں، ہماری خوشی اور حیرانی کی حالت سے باخبر دوست نے اپنی پسند کی کافی منگوالی، تھوڑی ہی دیر میں کافی اور بسکٹ ہمارے سامنے تھے، کپ اور اس میں کافی کی مقدار دیکھ ہم نے کافی ناک منہ چڑھایا، ننھے سے کپ میں بمشکل اک گھونٹ کافی۔ ہونہہہ ۔اس قدر گرم ، تیز اور کڑوی۔۔۔ اففففف پہلی چُسکی نے احساس دلایا، "کافی” اتنی ہی کافی ہے ، ہم تو بچوں کا سا مشروب استعمال کرتے ہیں۔