میں گزشتہ دو ہفتوں سے فیس بک پر ایک شخص کی تصویریں دیکھ رہا ہوں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس ادھیڑ عمر شخص کا نام محمود احمد مسافر ہے ۔ یہ آزادکشمیر کے ضلع کوٹلی سے تعلق رکھتا ہے۔ تصویریں کیا ہیں بس ایک عدد اونٹ ہے اور اس کے ساتھ تین گدھے ہیں ۔گدھے ایک قطار میں دو لمبے بانسوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں جن کے آخری کنارے پر ایک دو پہیوں والا ریڑھا لگا ہوا ہے ۔ اس ریڑھے پر ایک اُلٹی آہنی چارپائی اور اس کے چارپائی کے ایک پائے پر
پلاسٹک کی ایک بالٹی اُوندھی ٹنگی ہوئی ہے۔ اُونٹ کی نکیل اس دو پہیوں والے ریڑھے کے ساتھ بندی ہوئی ہے۔ یہ چار عدد حیوانوں کا ایک چھوٹا سا قافلہ ہے جس کی قیادت ایک بڑی ہوئی شیو والے انسان کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس شخص کے ذہن میں یہ آئیڈیا کس طرح آیا مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ انسانوں کے حقوق کے لیے انہی کی طرح کے انسانوں کی ریلیوں اور مارچوں سے مایوس ہو چکا ہے اور وہ اب انسانوں کو چڑانے کے لیے حیوانوں کو ساتھ لے کر مارچ کر رہا ہے۔
محمود مسافر نے ایک بہت بڑی سفید رنگ کی پلاسٹک شیٹ(پینا فلیکس) اونٹ کی پشت پر دائیں بائیں پھیلا رکھی ہے ۔ اس شیٹ پر سیاہ رنگ سے آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر سے کچھ مانگیں درج ہیں ۔ محمود مسافر اس جان لیوا سردی اور مسلسل برف باری کے باوجود پہاڑوں کے بیچ بل کھاتی خطرناک سڑکوں پر دیوانہ وار چلا جا رہا ہے ۔
سرد ہوا کے برفیلے خنجروں کے پے در پے واروں سے لاپروا محمود مسافر کی آخری منزل آزادحکومت ریاست جموں کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد ہے۔ راستے میں وہ موسمی کی شدت کے باعث جگہ جگہ پڑاؤ ڈالتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے ۔ میں نے ایک ویڈیو میں اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ راستے میں کچھ لوگ اسے پاگل دیوانہ بھی کہتے رہے ہیں اور کچھ نے اس پر آوازے بھی کسے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ اس سفر کے دوران بہت سے لوگوں نے اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار بھی کیا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ نوجوان لڑکے بالے محمود مسافر کے ساتھ تصاویر بنا کر فیس بک پر لائیک اور کمنٹس کا دھندہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
محمود مسافر کیا مانگتا ہے؟ اس کا جواب اس کے قافلے میں شامل اونٹ کی پُشت پر دھری بڑی شیٹ پر تفصیل کے ساتھ موجود ہے جس میں کم وبیش سب وہی مطالبے درج ہیں جس کا تعلق منقسم کشمیر کی اِس پار(آزادکشمیرمیں) بسنے والے شہریوں کے حقوق سے ہے ۔ ان مطالبات میں آزادکشمیر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ، منگلا ڈیم کی مکمل رائلٹی کی باقاعدہ بنیادوں پر ادائیگی،بجلی کے نئے پیدواری منصوبوں میں آزادحکومت کو با اختیار بنانے اور ٹیکس سے جڑے معاملا ت کا اختیار آزادحکومت کو دینا شامل ہے۔ محمود مسافر اس سے قبل ستمبر 1996ء میں بھی اس قسم کا احتجاج کر چکے ہیں۔ احتجاجوں کے دوران انہیں منفی رویوں کا سامنا بھی رہا ہے مگر یہ شخص عزم کا پیکر بن کر آگے بڑھ رہا ہے۔
محمود مسافر کی گفتگو سننے کے لیے اس لنک پر کلک کیا جا سکتا ہے
محمود مسافر سے کسی نے یہ سوال پوچھا کہ آپ کی شادی ہوئی یا بچے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا کہ مجھے حکومتی اداروں نے بہت پہلے پاگل ڈکلیئر کر رکھا ہے اور پاگلوں کی شادی کہاں ہوتی ہے۔ اسی دوران مجھے اسلام آباد میں مقیم نوجوان صحافی دوست دانش ارشاد نے ایک بیس روپے والے اشٹام پیپر پر لکھا ہوا وصیت نامہ بھی بھیجا جس کے مندرجات پڑھ کر مجھے اس شخص کے جذبے اور کمٹمنٹ نے بہت متاثر کیا ۔
وصیت نامے میں محمود مسافر نے لکھا کہ اس نے ریاست کے جائز حقوق کے لیے اپنی جوانی تک قربان کر دی ہے لیکن ابھی تک وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔مسافر نے اپنے وصیت نامے میں ایک اندیشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ ممکن ہے اسے جان سے مار ڈالا جائے۔ اس کے بقول :’’اگر ایسا ہوا تو اس قتل کے ذمہ دارچیف سیکریٹری آزادکشمیر، سیکریٹری مالیات آزادکشمیر، سیکریٹری برقیات آزادکشمیر، اس وقت کا متعلقہ مجسٹریٹ اور پاکستانی ایجنسیاں ہوں گی۔‘‘مسافر نے وصیت نامے میں اپنے لواحقین کو لکھا ہے کہ’’ بعد از مرگ ان کی لاش کو منگلا ڈیم کے سپرد کر دیا جائے ، ایسی زمین پر دفن نہ کیا جائے جس
پر بسنے والے لوگ بے کس و بے بس اور بے حس ہوں اور اس پر حکمرانی کرنے والی قوتوں ، بیوروکریٹ ملازمین کا مذہب جبر،زیادتی کرنا ، استحصال کرنا،اور ناانصافی بن چکا ہوں اور وہ انسانیت اور رعایا کے مسائل سننے اور سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘‘انہوں نے لکھا کہ :’’وہ ڈیم میں ڈوب کر ان ہزاروں اہل وطن کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں گے جن کی قبریں وہاں دفن ہو چکی ہیں۔‘‘ وصیت نامے کی ایک ایک سطر آدمی کو ہلا دینے والی ہے ۔ اس وصیت نامے پر 20مئی 2013کی تاریخ دوگواہوں کے نام اور دستخط کے ساتھ درج ہے۔
محمود مسافر کے مطالبات نئے نہیں ہیں۔ ان کی کم وبیش وہی شکائتیں ہیں جو آزادکشمیر کی حکومت کو اکثر وفاق یا پھر وفاقی اداروں سے رہتی ہیں۔ وفاق نے آج تک اس جانب سنجیدہ طریقے سے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ مقامی کشمیری سیاست دان بھی مسلسل چھوٹے مفادات کی دوڑ میں ریاست اور اس کے عوام کے حقیقی مسائل سے غافل رہے ہیں۔ آزادکشمیر کی سیاست کا اگر مختصر لفظوں میں تجزیہ کیا جائے تو وہ محض ترقیاتی فنڈز کی مد میں اپنے پیاروں کو ٹھیکے دینے اور محکمہ تعلیم وغیرہ میں اپنے چہیتوں کو ملازمتوں سے نوازنے کے علاوہ کوئی تیسرا کام نہیں کر سکے۔
جہاں تک رہا مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو احوال واقعی یہ ہیں کہ آزادکشمیر کی حکومت ہر سال بعض نمائشی تقریبات کے علاوہ اس ایشو میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی اور نہ ہی وہاں کی واحد بڑی یونیورسٹی میں اس مسئلہ کے حوالے سے اب تک کوئی قابل ذکر تحقیقی کام ہو سکا ہے۔ یہ سیاست دان آج تک ایک دوسرے کو غداری کے تمغے بانٹتے آپس میں الجھتے دکھائی دیے ہیں۔ اس لیے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ اسلام آباد یا نیو دہلی کو کوسنے کی بجائے ان مقامی سیاست دانوں کا احتساب کیا جائے۔ حساب لگایا جائے کہ انہوں نے آج تک ریاستی وسائل سے بے پناہ فائدے اٹھانے کی علاوہ آزادریاست اور مسئلہ کشمیر کے لیے کیا قابل ذکر خدمات سر انجام دی ہیں۔ ایک گرینڈ آڈٹ کیا جائے کہ آج تک جو فنڈز دستیاب ہوسکے کیا وہ اپنے مصرف پر درست طور پر خرچ ہوئے یا نہیں؟
اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق محمود مسافر اپنے تین گدھوں اور ایک اونٹ کے احتجاجی قافلے کے ساتھ آزادحکومت ریاست جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے دروازے پر دستک دے چکا ہے۔ وہ کوہالہ چیک پوسٹ پر پہنچ چکا ہے جہاں اسے پولیس نے روک رکھا ہے ۔ محمود مسافر کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ فی الحال پولیس کا رویہ ٹھیک ہے لیکن ابھی اسے شہر کی طرف بڑھنے نہیں دیا گیا ۔مظفرآباد کے متحرک اور باخبر صحافی دوست کاشف میر کے مطابق ڈپٹی کمشنر مظفرآباد تہذیب النساء کا کہنا ہے کہ کوشش کی جارہی ہے کہ مسافر سے ان کے مطالبات سے متعلق ضلعی انتظامیہ بات چیت کرے اور اگر وہ حکومتی وزراء سے ملنا چاہتے ہیں تو اس پر بھی غور کیا جائے گا۔
محمود مسافر کا عزم دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ منزل تک پہنچے بغیر رکنے والے نہیں ۔ دوسری جانب دن رات حقوق کی مالا جھپنے والے قوم پرستوں اور دیگر مقامی زعماء کا انتہائی سرد مُہر رویہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے ۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر محمود مسافر کے ساتھ تصاویر بنا کر پوسٹ کر کے یکجہتی کا مظاہرہ توکر رہے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی بھی اس کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ یہ ممکن تھا کہ محمود مسافر ریاست کے عوام کی حقوق کی جد وجہد کی علامت بن جاتے بشرطیکہ لوگ ان کے اس مارچ کا حصہ بنتے۔
محمود مسافر کی باتیں
مسافر مطالبات تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں مظفرآباد میں تادم مرگ ہڑتال کا ارادہ رکھتے ہیں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کے موجودہ وزیراعظم فاروق حیدر عوام کے مسائل سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ ان مسائل کے حل کا عندیہ ایک سے زائد بار بڑے جذباتی انداز میں دے چکے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ کوئی باقاعدہ قابل عمل پالیسی سامنے لائیں تاکہ انسانوں کے اس معاشرے میں کسی محمود مسافر کو مایوس ہو کر گدھوں اور اونٹوں کے ساتھ احتجاجی مارچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
دوسری گزارش اپنے ذرائع ابلاغ کے احباب سے ہے کہ وہ اس شخص کی آواز کو توانا بنانے کی کوشش کریں اور جہاں تک ممکن ہو اس کی آواز پہنچائیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ محمود مسافر ایسا انوکھا احتجاج ایک ایسے سماج میں کر رہا ہے جہاں کے کرتا دھرتا صرف اس صورت میں متوجہ ہوتے جب کوئی سڑک بلاک کر دی جائے یا کوئی بڑا سانحہ پیش آ جائے۔ حساس معاشروں میں اگر ایسا احتجاج ہو جائے تو وہ انسانیت کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ محمود مسافر نے حقوق کی جنگ کے لیے ایک پرامن اور بے ضرر راستہ اختیار کیا ہے اس لیے اس کی عملی طور پر حمایت دراصل انسانیت کی خدمت ہے۔