سی پیک کی تعمیر کے ہنگام مقبول اوربالادست بیانیے کے ترجمان دانش وروں کو سب سے بڑی فکر جو لاحق ہے ، وہ یہ ہے کہ ”آیا کشمیری ایک قوم ہیں یا نہیں؟” ۔ اسی فکر کے ایک پرجوش داعی ریٹائر بیوروکریٹ اور کالم نگار اوریا مقبول جان کا کہنا ہے کہ اگر ہم کشمیریوں کومظلوم ”قوم” مان لیں گے تو ہمارے ہاتھ سے سی پیک نکل جائے گا ۔(انہوں نے لفظ قوم پر خاص زور دیا)، ممکن ہے اوریا صاحب اپنے ممکنہ مفادات کے لیے جو سوچ رہے ہوں وہ اپنی جگہ درست ہو مگر کشمیریوں کی رائے بھی سُن لینی چاپیے کہ وہ خود کو کیا سمجھتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک سیمینار میں معروف پولیٹیکل سائنٹسٹ رسول بخش رئیس نےکشمیریوں کے لیے قوم کا لفظ بار بار استعمال کیا ۔ میں نے وہ تقریب کور کی اور ایک پریس ریلیز تیار کی ۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ رسول بخش رئیس صاحب کے وہ جملے ایک ”گیٹ کیپر” نے بے رحمی سے کاٹ دیے تھے۔
صحافی کا کام بہت نازک ہے ، اس کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ ہے ، اس نے حوادث و واقعات کو جیسے ہیں جہاں ہیں کی بنیاد پر رپورٹ کرنا ہوتا ہے ۔ اگر وہ کسی تقریب یا جلسے میں اُونگھتا رہے اور اختتام پر پہلے سے تیار شدہ ہینڈ آوٹ یا پریس ریلیز وصول کر کے رپورٹ کرنے کا عادی ہو تو اسے اگر بددیانتی نہیں تو کم از کم سنگین مجرمانہ غفلت ضرور کہا جا سکتا ہے۔
اخبارات میں شائع ہونے والے مواد کی بہرحال آبرو ہوتی ہے ۔ وہ لائبریریوں میں دستاویزی فائیلوں کی صورت جمع اور محفوظ کیے جاتے ہیں ۔ اگر خبر نگار نے رپورٹ کرتے ہوئے تساہل سے کام لیا تو واقعات ادھورے رپورٹ ہوں گے ۔ معاشرے میں موجود مختلف رائے دہندگان کے موقف مکمل طور پر ڈاکیومنٹ نہیں ہو سکیں گے اور اس کا نقصان نسلیں بھگتیں گی۔
کل دس سال بعد کسی یونیورسٹی کا کوئی طالب علم کسی موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے جب ان ادھوری خبروں اور یک طرفہ رپورٹوں پر مبنی اخبارات کی فائلیں دیکھ کر نتائج اخذ کرے گا تو بتائیے کہ اس کے نتائجِ تحقیق کتنے معتبر ہوں گے ؟؟؟
اس لیے ماننا چاہیے کہ صحافت بچوں کا کھیل نہیں ، یہ بیدار مغزی ، دیانت اور محنت کا کام ہے۔ یہ محض جاب نہیں بلکہ ایک اہم ذمہ داری بھی ہے ۔