اطلاعات ہیں کہ وفاقی کابینہ نے اپنے آخری اجلاس (منعقدہ 31 مئی 2018) میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر(آزادکشمیر) کی حکومت کو باختیار بنانے کی غرض سے لائے گئے بل کی آزادکشمیر اسمبلی میں بحث کے لیے منظوری دے دی ہے ۔ ابھی شام تک آزادکشمیر کے حکومتی حلقوں خاص طورپر وزیراعظم آفس میں کافی مایوسی پائی جاتی تھی لیکن جب اس منظوری کی خبر آئی تو ان کی سانسیں بحال ہوئیں ۔ یہ مسودہ کابینہ کے اجلاس میں بحث کے لیے طے شدہ 29 نکاتی ایجنڈے میں شامل نہیں تھا ، اسے اضافی ایجنڈے کے طور پر رکھا گیا تھا۔
مجھے ذاتی طور پر اس ترمیمی مسودے پر مکمل اطمینان نہیں ہے۔ یہ میری دیانت دارانہ رائے ہے ۔ میں اس کی تفصیل آنے والے دنوں میں لکھوں گا ۔ لیکن آزادکشمیر کے وزیراعطم فاروق حیدر کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے مضبوط اعصاب کے ساتھ صورت حال کا سامنا کیا اوروہ تقریباً 50 برس سے طاری اس جمود کو توڑنے میں ابتدائی طور پر کامیاب ہو گئے ہیں۔
آزادکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے متوازی اسلام آباد میں بنائی گئی جموں وکشمیر کونسل کے اہم اختیارات کا خاتمہ ضروری تھا ، وہ کسی قدر ہو گیا ، کونسل کے ممبران اور کچھ افسران نے آخری سمے تک کوشش کی کہ یہ ترمیمی مسودہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جائے ۔ اس سلسلے میں انہیں ہمارے بعض صحافی احباب کی مدد کی برابر حاصل رہی ۔ اب جب کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے ترمیمی مسودے کو آزادکشمیر اسمبلی میں پیش کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے تو ہمارے وہ صحافی احباب اپنی پرانی فیس بک پوسٹیں ہٹا رہے ہیں ۔
کسی نے کہا تھا کہ ناکامی کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا جبکہ کامیابی کے کئی وارث سامنے آ جاتے ہیں ۔ اس وقت یہی ہو رہا ہے ۔ جو لوگ آج شام ڈھلے تک فاروق حیدر پر پھبتیاں کس رہے تھے ، اب یہ باور کرا رہے ہیں کہ یہ سب انہی کی کوششوں کا ثمر ہے ۔ یہ دلچسپ صورت حال ہے۔ ہاں میں سمجھتا ہوں کہ یہ مکمل کامیابی نہیں بلکہ کامیابی کی جانب پہلا قدم ہے۔
اس ترمیمی بل کی جزئیات کا تجزیہ فی الحال میں اس لیے نہیں کر سکتا کہ میری اطلاعات ہیں کہ اس میں کچھ معمولی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں ۔ جب مسودہ سامنے آئے گا تو کچھ کہا جا سکے گا ، عین ممکن ہے کہ کل آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اس ترمیمی بل کو منظور کر دے لیکن میں بہتر ہو گا کہ جلدی کی بجائے کوشش کی جانی چاہئے کہ اسمبلی میں اس مسودے کی جزئیات پر کھل کر بحث ہو، اس کے سبھی پہلووں کو ڈسکس کیا جائے ۔ آزادکشمیر کی آئینی پیچیدگیوں کا درک رکھنے والے دانشوروں اور قانون دانوں کو اس بارے میں اپنی آراء کا ضرور اظہار کرنا چاہیے کیونکہ تاریخ ایسے مواقع بہت دیر سے دیتی ہے ۔
مسلم لیگ نواز کی حکومت نے پاکستان کے زیرانتظام علاقوں(گلگت بلتستان اور آزادکشمیر) میں آئینی اصلاحات کی جانب پہلا قدم اٹھا کر کئی قرض اتارنے کی کوشش کی ہے ۔ ابھی اس عمل میں بے شمار پیچیدگیاں ضرور ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ معاشرے کے رائے ساز حلقے اور عوامی نمائندے آگے کے مراحل کو ان علاقوں کے عوام کی منشا کے مطابق طے کریں گے ۔ ان علاقوں کی داخلی امپاورمنٹ اہم ہے کیونکہ اس کے ساتھ اس پورے خطے کا امن اور معاشی نمو کا عنصر جڑا ہوا ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ فیصلے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں نئی بحثوں ، نئے سوالوں اور مکالموں کو انگیخت کریں گے ۔ اب سماج کا شعور پہلے کی نسبت کافی بہتر ہو چکا ہے ، خیال یہی ہے کہ معاشرے کے تمام اہم طبقات اس بحث میں شامل ہو کر خطے کے بہتر سیاسی ، معاشی و سماجی مستقبل کی نقشہ گری کریں گے۔