پاکستان میں 13جولائی کا دن کئی اعتبار سے اہم تھا۔ اس دن سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے پاکستا ن آئے ۔ پاکستان کے تین مرتبہ منتخب وزیراعظم رہنے والے نواز شریف اب کی بار اپنے گھر جاتی عمرہ نہیں بلکہ جیل کا قصد کیے ہوئے تھے ۔ انہیں 6جولائی 2018 ء کو قومی احتساب بیورو(NAB) کی خصوصی عدالت نے مالی بدعنوانی کے ایک مقدمے (ایون فیلڈ ریفرنس)میں 10 سال قید بامشقت ، ان کی بیٹی کو سات سال قید با مشقت جبکہ داماد کیپٹن (ر)صفدر کو ایک سال قید بامشقت سنانے کے علاوہ ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے تھے ۔
نوازشریف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز نے 13جولائی کو لاہور ائیر پورٹ پر اپنے قائد اور اس کی بیٹی کا شاندار استقبال کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن قومی احتساب بیورو نے اپنے تئیں نوازشریف کی ائیر پورٹ پر پہنچتے ہی گرفتاری اور اسلام آباد منتقلی کا مکمل انتظام کر لیا تھا ۔ 13جولائی کو نوازشریف کے چھوٹے بھائی جو اب مسلم لیگ نواز کے صدر بھی ہیں ، نے استقبالی ریلی کا آغاز لاہور کے مشہوتاریخی لوہاری دروازے سے کیا ۔ اس ریلی میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے ۔ یہ پرجوش لوگ صرف نواز شریف کا نعرہ لگارہے تھے۔
نواز شریف اور مریم نواز رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب لاہور ائیر پورٹ پر اُترے اور وہیں سے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک دوسرے خصوصی جہاز میں بٹھا کر اسلام آباد بھیج دیا ۔ اِدھر شہباز شریف کی ریلی ائیر پورٹ نہ پہنچ سکی۔ شہباز شریف ابھی لاہور کی مشہور مال روڈ پر ایک بڑے ہجوم کے ساتھ موجود تھے تو ان کے بڑے بھائی نواز شریف اسلام آباد پہنچائے جا چکے تھے ۔ مسلم لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد از خود ائیر پورٹ کے قریب جوڑے پُل باز ار پہنچ چکی تھی ۔جوڑے پل سے آگے ائیر پورٹ تک قریب تین کلو میٹر فاصلہ ہے مگر رینجرز اور پولیس اہلکار وہاں رکاوٹیں لگا کر چوکس کھڑے تھے ۔ وہاں موجود ہجوم اور پولیس اہلکاروں کے درمیان تصادم بھی ہوا، پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور لوگوں پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا ۔بعض جگہوں پر رینجرز اہلکار ریلی کے شرکاء کی موٹر سائیکلیں بھی توڑتے بھی دکھائی دیے۔
ایک طرف لاہور میں یہ سب کچھ ہورہا تھا جبکہ ادُھر نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نوازرات گئے راولپنڈی کی مشہور زمانہ اڈیالہ جیل منتقل کیے جاچکے تھے ،نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر)صفدر پہلے ہی سے وہاں قید تھے ۔
اسی دن یعنی 13 جولائی کوصوبہ بلوچستان میں ایک نئی بننے والی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی(BAP) کے رہنما نواب سراج رئیسائی کی انتخابی مہم کے لیے منعقدہ کارنر میٹنگ میں خودکش حملہ ہوا، جس میں ڈیڑھ سوسے زائد لوگ جان سے گئے اور درجنوں زخمی ہوگئے ۔ اس حملے میں نواب سراج رئیسانی بھی جاں بحق ہوگئے تھے ۔ میڈیا کے مطابق نواب سراج رئیسانی کا شمار پرو پاکستان اوربھارت کے شدید ناقدوں میں ہوتا تھا۔ان کی کچھ ایسی تصاویر بھی میڈیا میں گردش کرتی رہیں جن میں وہ بھارت کے پرچم کو پاؤں تلے روندتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی دن صوبہ خیبر پختون خواکے ضلع بنوں میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل( MMA) کے جلسے میں بھی دھماکہ ہوا جس میں پانچ افراد مارے گئے جبکہ ایم ایم اے کے رہنما اکرم خان درانی محفوظ رہے ۔ اس سے قبل 10جولائی کوصوبی خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ایک کارنر میٹنگ کے دوران خودکش بم دھماکے میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ہارون بلور اپنے 12 کارکنوں سمیت جاں بحق ہوئے ۔
پے درپے پیش آنے والے ان واقعات نے پاکستان میں گیارھویں عام انتخابات کے لیے جاری سیاسی مہم کو شدید متاثر کیا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو الیکشن مہم چلانے میں کافی مشکلات کا سامنا ہے ۔ پیپلزپارٹی سمیت کچھ جماعتوں کو سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنے بعض جلسے منسوخ بھی کرنے پڑے ہیں تاہم تما م بڑی سیاسی جماعتیں اس نکتے پر متفق دکھائی دیتی ہیں کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت یعنی 25جولائی کو ہی ہونے چاہییں ۔ بلوچستان کی صورت حال کافی دِگر گوں ہے۔ وہاں بہت ایسے علاقے بھی ہیں جہاں ماضی میں بھی ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بہت کم رہا ہے ۔ حالیہ دہشت گرد حملوں کے بعد خدشہ یہی ہے کہ ووٹرز کی محدود تعداد ہی الیکشن کے دن باہر نکل پائے گی ۔ اس وقت بڑی سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کی زیادہ توجہ صوبہ پنجاب کی جانب ہے کیونکہ حکومت سازی میں صوبہ پنجاب ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے ۔
25جولائی کو منعقد ہونے والے متوقع عام انتخابات سے قبل ہی کچھ سیاسی رہنماؤں نے پری پول رِگنگ کا الزام بھی لگانا شروع کر دیا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقوں میں انتظامی افسران کی جانب سے امیدواروں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے اورانتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزام میں ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر کیطرف سے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں ہیں ،جن کی سماعت عدالت نے جولائی کے آخری ہفتے میں مقرر کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ تینوں افراد الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکتے ۔
کچھ سیاسی تجزیہ کاروں نے بھی برملا یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب کی بار الیکشن سے قبل ہی بڑے پیمانے پر سیاسی انجینئرنگ ہو چکی ہے اور تحریک انصاف اوران آزاد امیدواروں کے لیے میدان ہموار کر دیا گیا ہے جو پاکستانی ڈیپ اسٹیٹ کے پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے رہنما صورت حال سے شاکی ہیں کہ انہیں لیول پلیئنگ فیلڈ میسر نہیں لیکن وہ الیکشن کے کسی صورت ملتوی ہونے کے حق میں نہیں ہیں۔ اے این پی جو کہ اپنا ایک قیمتی لیڈر بھی بم دھماکے میں کھو چکی ہے ، اس پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بھی الیکشن مہم جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
اس ساری صورت حال میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کی جانب سے بھی کئی طرح کی شکایات سامنے آ رہی ہیں ۔ ملک کے سب سے بڑے اور مؤثر انگریزی جریدے ڈان کی سرکولیشن کافی متاثر ہوئی ہے ۔ ڈان کی انتظامیہ نے الزام عائد کیا ہے کہ خفیہ ادارے ان کے اخبار کی ملک کے مختلف حصوں خصوصاً کینٹ کے علاقوں میں ترسیل کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور ان کے ٹی وی چینل کی نشریات بھی بہت سے علاقوں میں گزشتہ تین ماہ سے بند ہیں۔
نواز شریف کے استقبال کے لیے لاہور میں 13جولائی کو منعقد کی گئی ریلی کی کوریج کے دوران معروف ٹی چینل جیو کے ایک اینکراور صحافی طلعت حسین نے کھلے بندوں اپنی بے چارگی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اسی طرح نواز شریف کے ساتھ لندن اور ابوظہبی سے آنے والے پاکستانی صحافیوں کی جانب سے کیے گئے نواز شریف اور مریم نواز کے انٹرویوزبھی نشر نہیں کیے گئے۔ نواز شریف کے ہمراہ جہاز میں موجود صحافیوں کے موبائل فونز سے ویڈیوز بھی ضائع کیے جانے کی اطلاعات ہیں ۔
13جولائی کو کچھ ٹی وی چینلز کے نمائندوں نے سوشل میڈیا پر شکایت کی کہ انہیں ہدایات دی گئی ہیں کہ نواز شریف کی پاکستان آمد اور ان کی استقبالی ریلی کو دھیمے آہنگ میں رپورٹ کیا جائے ۔دوسری جانب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی نگرانی کرنے والے ادارے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(PAMRA) کی جانب سے بھی ٹی وی چینلز کو کچھ اسی قسم کے احکامات صادر کیے گئے تھے ۔ بہت کم چینلز ایسے تھے جنہوں نے لاہور میں مسلم لیگ نواز کی ریلی کو لائیو دکھایا۔ اس سے یہ تأثر مزید قوی ہوا کہ ملک کے طاقتور حلقے ان انتخابات میں کسی بھی صورت مسلم لیگ نواز کو کھلی چھوٹ نہیں دینا چاہتے ۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ریلی کے اگلے دن مسلم لیگ نواز کے کئی سرکردہ رہنماؤں کے خلاف نقض امن ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے، اس اقدام پر ملک کے جمہوریت پسند حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
یہ المیہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مسلسل خطرات کی زد میں رہتی ہے ۔ ماضی کے تلخ ترین تجربات کے بعد کوئی بھی نمایاں سیاسی جماعت الیکشن کے التواء کے حق میں نہیں ہے ۔ پنجاب میں موجود جتاؤ گھوڑے اور سندھ میں نادیدہ اشاروں پر بننے والے سیاسی اتحاد وں سے غیر جمہوری قوتیں بہت سی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
بظاہر منصوبہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ آزادامیدواروں(جن میں جیپ کے انتخابی نشان والے لوگوں کی اکثریت ہے) کو ملا کر ایک ایسی معلق حکومت(Hung Parliament) بنائی جائے جس کی نکیل ضرورت کے مطابق کھینچی جا سکے ۔سیاست میں مداخلے کے حوالے سے ذکرکی جانے والی غیر جمہوری قوتوں کی پوری کوشش ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس قدر اکثریت حاصل نہ کر سکے کہ وہ بغیر کسی سیاسی کمک کے حکومت بنا لے اور اپنے فیصلے کرنے میں آزاد اور مؤثر حیثیت حاصل کر لے۔
بشکریہ : نوائے جہلم ، سری نگر ، جموں کشمیر