لاہور کے نتیجے سے ن لیگ نے سکھ کا سانس تو لیا مگر ساتھ ہی اپنے دن گننا بھی شروع کر دیئے ہیں ۔ علیم خان 2443 ووٹوں سے ہارے ۔مرکزی اور صوبائی حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ نشست بچائی ۔ضمنی انتخابات کا نتیجہ عام انتخابات جیسا نہیں ہو سکتا ۔
مغربی ممالک جہاں جمہوریت سود مند ہے وہاں کا مزاج اور ہے جہاں پارٹیوں کے محفوظ حلقے ہیں ۔امیدوار بھی جب تک خودریٹائر منٹ کا اعلان نہ کریں ہر بار پارٹی اسی کو ٹکٹ دیتی ہے ۔اس لئے عموماً وہی لوگ جیتتے ہیں جو اس نشست پر برسوں سے چلے آرہے ہوتے ہیں ۔
کچھ حلقے ایسے ہوتے ہیں جہاں آخری لمحے تک کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ نتیجہ کیا نکلے گا ۔یہ حلقے ہر بار پلٹا کھا جاتے ہیں ۔در اصل انہی حلقوں کے نتائج سے فاتح جماعت کا پتا چلتا ہے ۔جس طرح امریکہ کی پچاس ریاستوں میں جنگ صرف آٹھ دس ریاستوں میں ہوتی ہے ان ریاستوں کو’’ سوئنگ سٹیٹس ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس میں سے بھی فیصلہ کن کردار دو چار کا ہوتا ہے جن میں فلوریڈا ،آئیوا،اوہائیو،ونکانسن،نیواڈا اور پنسلوینیا شامل ہیں ۔ جو صدارتی امیدوار ان ریاستوں میں جیتتا ہے وہی امریکہ کا صدر بنتا ہے ۔ ہر انتخابات میں ان ریاستوں کا نتیجہ مختلف ہو سکتا ہے ۔باقی ریاستوں میں وہی پارٹی جیتتی ہے جو برسوں سے یہاں جیتتی آرہی ہو ۔
پاکستان میں اگر گزشتہ پانچ انتخابات پر نظر دوڑائیں تو صرف خیبر پی کے کو ہی سوئنگ صوبے کا درجہ حاصل رہا ہے ۔
یہاں 1994کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی ،1997میں مسلم لیگ ن ، 2002میں ایم ایم اے ، 2008میں اے این پی اور 2013میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی ۔ اس کے مقابلے پر پنجاب اسیّ کی دہائی کے بعد مسلم لیگ کا رہا ، کبھی یہ آئی جے آئی بن جاتی ہے کبھی یہ ق بن جاتی ہے کبھی وہی لوگ ن میں آجاتے ہیں ۔ سندھ بھی اکثر و بیشتر پیپلزپارٹی کا رہا ہے البتہ اب وہاں دیہی اور شہری سندھ کی تقسیم واضح ہو چکی ہے ۔ شہری حلقوں میں ایم کیو ایم فاتح بن کر ابھری ہے ۔ بلوچستان کی سیاست پر قبائلی چھاپ ابھی تک بر قرار ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تخت اسلام آباد کا فیصلہ لاہور کرتا ہے ۔ یعنی لاہور سے جو ہوا چلتی ہے وہ پورے پنجاب تک جاتی ہے ۔
1970ء کے انتخابات میں لاہور پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا ۔یہاں کے آٹھ حلقوں سے ذولفقار علی بھٹو ، مبشر حسن ، شیخ محمد رشید، معراج خالدجیسے سیاستدان جیتے ۔1977ء کے انتخابات میں بھی لاہورپیپلز پارٹی کے ساتھ تھا ۔1988کے انتخابات میں لاہور اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد کیوں بنا اور اس کے پیچھے کون تھا ۔یہ ساری باتیں اب ایک کھلا راز ہیں ۔بعد میں بھی جتنے انتخابات ہوئے لاہور کے فیصلے نے ہی اسلام آباد کے تخت نشین کا فیصلہ کیا ۔ اگر لاہور اسلام آباد کی تخت نشینی کے فیصلے میں شامل نہیں تھا تو وفاقی حکومتیں مشکل سے ہی چلیں ۔ بینظیر کے ادوار اس کی بڑی مثال ہیں ۔ ایک بار منظور وٹو اٹھارہ نشستوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ بنے کیونکہ یہ پیپلزپارٹی کی مجبوری تھی ۔ نواز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اسلام آباد میں بینظیر کے لئے مسائل کھڑے کئے رکھے ۔ نوازشریف جدہ چلے گئے تو لاہور چوہدریوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔
2007ء کے انتخابات میں بینظیر شہید کر دی گئیں اور حالات تبدیل ہو گئے ۔ مرکز میں پیپلز پارٹی سادہ اکثریت سے حکومت بنا سکی مگر لاہور کی تمام نشستیں مسلم لیگ ن نے جیتیں 2013ء کے انتخابات میں تحریک انصاف لاہور سے صرف ایک نشست جیت سکی جو شفقت محمود کی تھی ۔ حالانکہ الیکشن سے پہلے لاہور میں تحریک انصاف کے چرچے تھے ۔
2013کے الیکشن سے پہلے عمران کان نے لاہور میں ایک بہت بڑا جلسہ کر کے تبدیلی کا اشارہ دیا ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ سرکردہ افراد نے عمران خان کی پشت پناہی بھی مگر جب نتائج سامنے آئے تو نتیجہ یکسر مختلف تھا ۔عمران خان لاہور سے خود اپنی نشست بھی نہ جیت سکے ۔پشاور عمران خان کے ساتھ تھا مگر یہ تبدیلی دریائے سندھ عبور نہیں کر سکی ۔
پچھلے کم از کم ایک ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ تبدیلی کی ہوا پشاور سے چلتی ہے لیکن اگر وہ جہلم اور راوی پار کر کے لاہور میں براجمان نہ ہو تو نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ۔محمود غزنوی ، شہاب الدین غوری اور پھر مغلوں تک سبھی اسی راستے سے گئے ۔ جس نے لاہور کو زیر نگیں کیا اس کے بعددہلی بھی دہل گیا ۔رنجیت سنگھ نے بھی پہلے لاہور کو فتح کیا اور پھر ایک طرف دہلی اور دوسری طرف کابل تک گیا ۔گویا یہاں بھی لاہور ہی فیصلہ کن تھا ۔
لاہور 2013ء کے انتخابات میں نواز شریف کے ساتھ تھا اگرچہ نتائج متنازعہ تھے۔ الیکشن کمیشن نے اس کا اعتراف بھی کیا۔جیسے تیسے نوز شریف نے حکومت بنا لی یہ حکومت چل تو رہی ہے مگر یہ اپنی ساری توانائیاں عمران خان کا راستہ روکنے پر صرف کر رہی ہے ۔
نواز شریف عوام کو اچھی حکومت فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔وہ اپنا نصف دور گزار چکے ہیں ۔ڈیڑھ سال بعد نئے انتخابات کی باز گشت شروع ہو جائے گی ۔نگران حکومت کی تشکیل پر مشاورت شروع ہو جائے گی ۔اس لئے نواز شریف کے پاس بہت کم وقت ہے کہ وہ کوئی کرشمہ دکھا سکیں ۔
خیبر پی کے میں اگرچہ عمران خان بھی کوئی حیران کن کارنامہ سر انجام تو نہیں دے سکے لیکن ان کا ووٹر ابھی مایوس نہیں ہوا ۔ غالب امکان ہے کہ وہ اگلی بار بھی اس صوبے سے جیت جائیں گے ۔
پشاور کے بعد اگر ان کا بَلاّ لاہور میں بھی چل گیا تو تختِ اسلام آباد ان کا مقدر ہو گا ۔عمران خان کے تخت کا فیصلہ بھی لاہور ہی نے کرنا ہے ۔ شریف برادران لاہور کی انتخابی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں ۔
انھوں نے میٹرو کے بعد لاہور کے لئے اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بھی شروع کر دیا ہے جو ہر حال میں الیکشن سے پہلے مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ لاہور میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جا رہا ہے ۔لاہور جائیں تو پاکستان کی ترقی کا احساس ہوتا ہے مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ تمام صوبے کا پیسہ صرف ایک شہر پر لگایا جا رہا ہے ۔اب راولپنڈی کے بعد ملتان میں بھی میٹرو شروع ہو چکی ہے ۔
مگر صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے عوام حکومتی کارکردگی کو سراہتے تو ہیں مگر وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں ۔نواز شریف حکومت کا ویژن دکھاوے کی حد تک کے منصوبے لئے ہوئے ہے وہ پائیدار ترقی سے عبارت نہیں ہیں ۔یہی بات عمران خان کے لئے سپیس پیدا کرتی ہے ۔
عمران خان سٹیٹس کو کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔وہ مساوات اور انصاف پر مبنی معاشرہ چاہتے ہیں ۔اگرچہ ان کے پاس ابھی تک کوئی واضح پلان نہیں ہے لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی نیت ٹھیک ہے اس لئے ان سے امیدیں لگائی جا سکتی ہیں ۔زرداری کے بعد نواز شریف بھی عوام کے دلوں میں اپنے لئے امیدوں کو گُل کرتے جا رہے ہیں ۔لاہور کا نتیجہ اس کا گواہ ہے جہاں عمران خان کا امیدوار بہت معمولی ووٹوں سے ہارا ۔یہ نتیجہ لاہور میں تبدیلی کا اشارہ ہے ۔اگر لاہور نے پشاور سے چلنے والی تبدیلی کو راستہ دے دیا تو پھر اگلا انتخاب عمران خان کا ہے ۔جی ٹی روڈ پر جس کو بریکیں لگ گئیں وہ بریک ہوجائےگا۔