آج جنگلات کا عالمی دن ہے اور میرے ذہن کے پردے پرناصرؔ کاظمی کا یہ شعر اُبھررہاہے:
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں کی زبانی
ناصرؔ نے دہائیوں پہلے یہ کہا تھا، اب تو نقشہ کچھ کا کچھ ہو چکا ہے ۔ پاکستان میں جنگلات پر مشتمل رقبہ متواز ن ماحول اور موسم کے لیے شروع ہی سے بہت کم تھا۔جنگلات پر محیط سب سے زیادہ رقبہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہے۔لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں جنگلات کا اس بے رحمی سے کٹاؤ ہوا ہے کہ اب نقشہ بالکل مسخ ہو چکا ہے ۔گزشتہ کچھ سالوں میں ہم نے یہ تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ میں یہاں اپنے کچھ مشاہدات پیش کرتا ہوں۔ممکن ہے بہت سے لوگ میری تائید کریں ۔
*اسلام آباد کے نواح میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر جنگلات مسلسل کم ہو رہے ہیں ۔ نئی تعمیرات کے لیے جنگلات کاٹ کر زمین ہموار کی جارہی ہے ۔
*بہارہ کہو سے ذرا آگے ایکسپریس وے کے سامنے پہاڑوں کومشہور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین نے ہیوی مشینری کے ذریعے ہموار کیا ہے اور بڑے پیمانے پر جنگلات اور سر سبز علاقے تباہ کردیے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس جگہ جو کنکریٹ کے ڈبے نما نئے گھر بنائے گئے ہیں، ان کے آس پاس درخت نہیں لگائے گئے ۔ اگر ہیں تو بہت کم ۔یہ حال ہائی وے کے آس پاس اور راولپنڈی سے واہ کینٹ وغیرہ کے درمیان کے علاقوں کا ہے۔
* میں نے گزشتہ برسوں میں جنگلات کا بڑا کٹاؤ بہارہ کہو اور مری کے درمیان بنائی گئی ’’ایکسپریس وے‘‘نامی سڑک کی تعمیر کے دوران دیکھا ۔ اس دو رویہ سڑک سے سفری مشکلات تو کسی حد تک کم ہوئی ہیں۔آس پاس کی دیہی آبادی کا ’معیار زندگی‘ بھی بہتر ہوا ہے لیکن اس علاقے میں درجہ حرارت اور لینڈ سلائنڈنگ میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ متبادل شجر کاری لگتا ہے اشتہارات ہی میں ہوئی ہے ۔ جو نظر آتی ہے وہ بہت کم ہے ۔
*مری شہر بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ سیاحت کے ساتھ جڑے کاروبار اور پراپرٹی کے بزنس نے وہاں کے ماحول کوکافی متاثر کیا ہے۔ اگر آپ ایکسپریس وے کے آخری موڑ کے ساتھ واقع پہاڑی ٹیلے پر کھڑے ہو کر مری شہر کا جائزہ لیں تو صورت حال کا آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
*اس کے علاوہ ملک کے سبھی بڑے شہروں میں جب سے پراپرٹی اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کے کاروبار نے زور پکڑا ہے تو شہرپھیلنے لگے ہیں ۔ کراچی نیشنل ہائی وے پر مسلسل تعمیرات جاری ہیں ۔ پنڈی ہائی وے ، اسلام آباد کے نواح اور لاہور کے سبھی اطراف یہی صورتحال ہے ۔ ترقی کے نام پر ماحول کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر میں ماحولیاتی ضروریات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
*پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحتی علاقہ وادی نیلم جنگلات کا بڑا ہب (Hub) مانا جاتا ہے ۔ وہاں جس بے رحمی سے جنگلات کا صفایا کیا گیا ہے ، شاید ہی ایسا کہیں اور ہوا ہو ۔وہاں مقامی آبادی کو ایندھن کے متبادل ذرائع میسر نہیں،سو ان کا کُلی انحصار اِن قیمتی جنگلات پر ہے ۔ وہاں چیڑ ، کائل اور دیوادار کے بڑے بڑے جنگلات ہیں جن کا رقبہ بہت تیزی سے کم ہو رہا ہے ۔چند برس قبل مجھے بالائی نیلم جانے کا موقع ملا ، وہاں جنگلات کی کٹائی کے مناظر دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا ۔ میں نے وہاں ہزاروں کنال علاقے پر کاٹے گئے درختوں کی بوسیدہ باقیات (تین یا چار فٹ کے خشک تنے) دیکھے۔
* وادی نیلم میں جنگلات کی کٹائی میں مقامی آبادی ، محکمہ جنگلات کی جانب سے درختوں کی حفاظت پر مامور گارڈزملوث رہے ہیں ۔ پاکستانی کشمیر کے حکومتی عہدے دار ، اعلیٰ سرکاری افسران ، اسلام آباد سے پاکستانی کشمیر میں تعینات کیے جانے والے لینٹ افسران ، سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں ۔ آپ ان مذکورہ بالا لوگوں کے گھروں میں ہوا قیمتی لکڑی کا کام دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے ۔ سرکاری افسران جن کی معقول سی تنخواہ ہوتی ہے وہ دیودار کی قیمتی لکڑی کو گھر کی زیبائش میں کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے ۔
* پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اکلاس (Azad Kashmir Logs and Saw Mills Association)کے نام سے ایک کارپوریشن ابھی پچھلے سال تک قائم رہی ۔ اس کارپوریشن میں ہر حکومت نے دھڑا دھڑ لوگ بھرتی کیے۔یہ تجارتی مقاصد کے لیے بنائی گئی تھی جس سے مقامی حکومت کو آمدن کی توقع تھی ۔ اس کارپوریشن نے پاکستانی کشمیر کے علاقوں سے جنگلات کا صفایا کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن حکومت کو مسلسل خسارے میں رکھا اور جب یہ کارپوریشن محض بوجھ بن گئی تو پچھلے سال حکومت نے اس کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ اس کارپوریشن کے بہت سے افسران اور ملازمین نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور اب بھی وہ گولڈن ہینڈ شیک کے پیسے لینے کے لیے سڑکوں پرسراپا احتجاج ہیں۔
* ایک اور بات یہ بھی دیکھی گئی کہ وادی نیلم ، وادی لیپہ، وادی چکار وغیرہ اور دیگر علاقوں میں محکمہ جنگلات کے مامور محافظ رشوت لے کر درخت کٹوانے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں، جہاں دن کو کٹائی کا کام نہ ہو سکے، وہاں رات کوہیوی لائٹس اور جدید مشینوں کے ذریعے کٹائی کر کے صبح سے پہلے لکڑی غائب کر دی جاتی ہے۔ کئی دفعہ چوری کے ثبوت مٹانے کے لیے جنگل کو آگ بھی لگادی جاتی ہے جو کئی دن تک بھڑکتی رہتی ہے ۔ اس طرح لاکھوں قیمتی درخت ، جڑی بوٹیاں اور جنگلی حیات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
*پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ پندرہ سے بیس برس کے دوران بارشوں میں عدم توازن ، شدید موسمیاتی تبدیلیاں ،زمینی کٹاؤ یعنی لینڈ سلائنڈنگ کی شرح میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ شاہراہوں میں برسات کے موسم میں لینڈ سلائیڈنگ تو عام سی بات ہے ۔ان علاقوں کا درجہ حرارت بھی غیر معمولی طور پر بڑھا ہے۔ اس کی بڑی وجہ جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ اور شجر کاری مہم کا نمائشی ہوناہے۔
*لائن آف کنٹرول پروفقوں وفقوں سے ہونے والی گولہ باری کے نتیجے میں ماحولیات پر شدید منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ بارود کے مسموم ذرات جنگلی و انسانی حیات کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں ۔ گولہ باری سے جنگلات کو آگ لگتی ہے جسے کوئی بھی بجھا نہیں پاتا۔ جنگلی جانور دھوئیں اور آگ سے بھاگتے ہوئے نشیبی علاقوں میں پہنچتے ہیں ۔ کئی بار دیکھا گیا کہ نایاب قیمتی جانور دریا کے کنارے مردہ پائے گئے ۔ کئی دن کے پیاسے جانور جب بھاگ کر دریا تک پہنچتے ہیں تو فوراًپانی میں منہ ڈال لیتے ہیں ۔ اچانک ٹھنڈے دریا کا پانی بھاری مقدار میں ان کے معدے میں جاتا ہے تو وہ زمین پر ایسے گرتے ہیں کہ پھر اٹھ نہیں پاتے۔جلتے جنگلات میں نایاب پرندوں کے گھونسلے ، انڈے اور بچے جھلس جاتے ہیں ۔ بلوں اور غاروں میں رہنے والے جانور ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کی جانب حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
میں نے اپنے کچھ مشاہدات یہاں درج کیے ہیں ۔ یہ تحریر پڑھنے والے اپنے دیکھے بھالے علاقوں کے بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں۔ پاکستان اور اس کے زیرانتظام کشمیر میں سالانہ شجر کاری کے نام سے بڑے پیمانے پر ادارہ جاتی گھپلے معمول بن چکا ہے۔ محکمہ زراعت اور جنگلات لاکھوں ، کروڑوں روپے کے پودوں کی خریداری کی رسیدیں سرکاری فائلوں میں لگاتے ہیں ۔کمیشن مافیا اپنا دھندہ چلاتا ہے۔ نام نہاد سی شجر کاری ہوتی ہے لیکن اس کے نتائج کہیں نظر نہیں آتے ۔ جتنی شجر کاری اخبارات اور سرکاری فائلوں میں ہوچکی ہے اگر زمین پر ہوتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی ۔
ایک بہت ہی اہم مسئلہ یہ ہے کہ شجر کاری سے پہلے مختلف علاقوں کا مستند ماہرین نباتیات سے سروے نہیں کروایا جاتا ۔ ہر علاقے کی آب وہوا کے مطابق درختوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے لیکن المیہ یہ ہے نرسریوں کے ساتھ ’پکے ٹھیکے ‘کرنے والے سرکاری اہلکار اس پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ زمینیں اَجنبی پودوں کو نمو کا موقع نہیں دیتیں اور یہ ننھے پودے چند ہی دن میں گَل سڑ جاتے ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں اور پاکستانی کشمیر کی سرکاری یونیورسٹی میں شعبہ نباتیات قائم ہے ۔اس شعبے میں ریسرچ کا کام بھی ہوتا ہے ۔ نباتات پر پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے بھی لکھے جاتے ہیں لیکن آج تک میں نے نہیں سنا کہ محمکہ زراعت یا جنگلات نے ان شعبوں کے ساتھ مل کر کوئی ایسا کام کیا ہو جس سے جنگلات کے رقبے کو بڑھانے میں مدد ملی ہو ۔ یہ غفلت افسوس ناک ہے۔
میں ’ترقی‘ کا مخالف نہیں ، مجھے ’ترقی معکوس‘ پر اعتراض ہے ۔ہاوسنگ سوسائٹیاں ضرور بنائیں۔ بڑی بڑی اور کشادہ شاہرائیں بھی ضروری ہیں لیکن زمین کو محض کنکریٹ اور تارکول سے لیپ دینے کا نام ترقی نہیں۔ انفرااسٹرکچر کو ماحول دوست ہونا چاہیے ۔ رہائشی کالونیوں اورسوسائیٹیوں میں درختوں اور پودوں کی وافر تعداد ہونی چاہیے۔ہاؤسنگ کالونیوں کی تعمیر کے اجازت نامے کو ماحول دوست اقدامات کے ساتھ مشروط کیا جانا چاہیے۔ شاہراؤں کے ارد گرد مؤثر اور نتیجہ خیز شجر کاری اہم ہے۔جنگلات کی کٹائی پر پابندی کے لیے مزید سخت قوانین بنائے جانے چاہییں اور ان کی نگرانی کا جدید نظام متعارف کروانا چاہیے۔ درختوں کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنا اہم ہے ، حکومتوں نے اگر اس اہم مسئلے کونظر انداز کیا تو اس خطے میں آئندہ چند سالوں میں درجہ حرارت غیر معمولی طور پر بڑھے گا ۔ گلیشیئرز تیزی سے پگھلنے کے نتیجے میں سیلاب تباہی مچادیں گے ۔بارشیں بے اعتدال ہو جائیں گی ، لینڈ سلائڈنگ میں اضافہ ہو گا اور ہماری نسلوں کے لیے یہاں زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے گا۔