شریف اور زرداری خاندان لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ آئیں تو ٹھہر نہیں سکتے۔ فعال طبقات انہیں مسترد کر چکے۔ عدالتیں گوارا کریں گی اور نہ اسٹیبلشمنٹ۔ گستاخی معاف تحریک انصاف اپنی قبر کیوں کھود رہی ہے؟
آخر کار گرفتاری پیش کرنے کے سوا، حمزہ شہباز کے لیے چارۂ کار کیاہے؟ کب تک‘ کتنے کارکن وہ جمع کر سکتے ہیں؟ کتنے دن، کتنے ہفتے، کتنے ماہ ہنگامہ اٹھا سکتے ہیں؟
کیسا یہ اندازِ فکر ہے۔ حکومتی اداروں کی مزاحمت اگر جائز ہے تو کون طاقتور ہے، عدالت کے کمرے سے جو راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔ پھر تو ایک رکنِ اسمبلی بلکہ کونسلر تک گرفتار نہیں ہو سکتا۔
پھر طوائف الملوکی اور انارکی ہوگی۔ ریاست کا ڈھانچہ زمین پر آ رہے گا۔
با ایں ہمہ سرکار کے لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انصاف ایک فیصلہ، اقدام یا مہم نہیں ہو سکتا، بلکہ ایک نظامِ عدل۔ بروئے کار ہو تو معاشرے کو امن عطا کرتا ہے۔ مشکلات اور موانع کے باوجود، ایک رسان سے کاروبارِ زندگی جاری رہتا ہے۔ افسوس کہ اس کی مثالیں اب ہمیں مغرب سے تلاش کرنا پڑتی ہیں۔ آئے دن طاقتور اور با رسوخ لوگ‘ حتیٰ کہ حکمران قانون کی زد میں آتے ہیں۔ اپنے کیے کی سزا بھگتتے اور قوم کو قرار کا پیغام دیتے ہیں۔
ہوائی اڈوں پر گرین چینل کا تصّور، میاں محمد نواز شریف نے مغربی ممالک، بالخصوص برطانیہ سے لیا تھا، جو ان کا دوسرا وطن ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی اس خاندان کے لیے مستقل بھی ہو جائے۔ حکمران ٹولے کی حماقتیں اپنی جگہ، قانون سے انحراف اور من مانی ان کا شعار ہے۔
برطانوی جج گرین چینل سے گزر رہا تھا کہ کسٹم کے اہلکار کو شبہ ہوا۔ اس کا سامان کھدیڑا گیا تو سگریٹ کے چند پیکٹ ملے۔ پیرس سے وہ لندن پہنچا تھا، تمباکو پہ ٹیکس کی شرح جہاں قدرے زیادہ ہے۔ ”مائی لارڈ!‘‘ اس نے کہا: یہ تو بہت بڑا جرم ہے۔ اس لئے اور بھی سنگین کہ انصاف کی کرسی پہ آپ براجمان ہوتے ہیں۔
جج کو اپنے منصب سے مستعفی ہونا پڑا۔
خسرو بختیار کیوں وزارت سے الگ نہیں ہوتے۔ خود پر عائد ہونے والے الزامات کی تردید بھی اگر فرما نہ سکے تو اب انتظار کس چیز کا ہے؟ اعظم سواتی کی سبکدوشی پھر کیوں ہوئی؟ علیم خان کیوں گرفتار ہوئے؟ عدالت تو رہی ایک طرف، دو ترازو تو ایک دکان پر بھی نہیں رکھے جا سکتے۔
ریاست کی حقیقی عمل داری کبھی اس سر زمین پر تھی ہی نہیں۔ قائدِاعظمؒ کے بعد کوئی ایسا نہ تھا، دل کی گہرائیوں سے عدل پر، جس کا یقین ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ، ہمہ پہلو زوال کے ساتھ نظام کی گرفت کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی۔ جب ایک بھرپور، حقیقی اور مکمّل نظامِ انصاف کے لیے ہم بروئے کار نہیں۔ ڈٹ کر کھڑے ہونے پر آمادہ نہیں تو روتے اور چیختے کیوں ہیں؟ فریاد کیوں کرتے ہیں؟ اپنی قسمت کو روتے کیوں ہیں؟دنیا کا کوئی بھی دوسرا معاشرہ ہوتا تو اس فساد، اس مہنگائی اور اس پولیس پر اس کے اکابر سر جوڑ کر بیٹھے رہتے ؛تا آنکہ کوئی حل تلاش کر لیتے۔
1989ء کے ایک سروے میں انکشاف ہوا تھا کہ شریف خاندان، چوہدری خانوادے اور بھٹو گھرانے کو پاکستانی عوام ایک سا بدعنوان پاتے ہیں۔ جی ہاں، بجلی کمپنیوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی لوٹ مار کی ذمہ دار، اس وقت کی وزیراعظم بھی تھیں۔ زرداری صاحب اور ان کا خاندان تو بعد میں مسلّط ہوا، اٹھارہ برس بعد۔ سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو الگ رکھیے، سیاستدانوں کو چھوڑیئے، کتنے اخبار نویس اور کتنے دانشور ہیں، جو اس پر غور کرتے اور حوالہ دینے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
کوئی کسی کا وکیل ہے، کوئی کسی کا۔
انقلاب برپا کرنے کی آرزو مند حکومت میں نظامِ عدل کے بے معنی اور غیر مؤثر ہونے کا آغاز کب ہوا؟ اس دن جب چوہدری پرویز الٰہی نے اصرار کیا کہ گجرات، منڈی بہائوالدین، سیالکوٹ اور بہاولپور میں پولیس افسر ان کے ہوں گے۔
اس دن علّامہ طاہر القادری نے جب مطالبہ کیا کہ ان کے لیے ناپسندیدہ چند پولیس افسروں کو اہم عہدوں سے الگ کر دیا جائے۔ آئی جی محمد طاہر نے اس دلیل کے ساتھ جب معذرت کی کہ پولیس کا حوصلہ اس طرح پست ہو جائے گا۔ پنجاب حکومت جب مصر ہو گئی اور انسپکٹر جنرل نے مستعفی ہونے کی پیشکش کی۔
ان کا استعفیٰ قبول کر لیا گیا۔ عمران خان بھول گئے کہ ناصر درّانی نام کے ایک آدمی کو 12 کروڑ کے صوبے میں قیامِ امن کے لیے انہوں نے زمامِ کار سونپی ہے۔ خان صاحب یہ بھی بھول گئے کہ ان سے نہیں ناصر درّانی صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔ وہ رکوع و سجود کرنے والے آدمی ہیں اور اپنے مالک کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ عہدہ و منصب کے لیے سپر انداز نہیں ہوتے۔ انہی کے سائے میں برسوں ایک صوبے میں پولیس کا نظام با اندازِ دگر چلاتے رہے۔ اپنے کئے کرائے پر وہ پانی کیوں پھیریں گے؟
چند دن بعد روزنامہ دنیا لاہور کے مستعد رپورٹر حسن رضا سے پوچھا: اب حال کیا ہے؟ اس نے کہا: مہریں لگ رہی ہیں، دستخط ثبت ہو رہے ہیں، فہرستیں بن رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ، وزرائِ کرام اور ارکانِ اسمبلی کی آرزو پر، پولیس افسروں کے تقرّر و تنزل کا سلسلہ جاری ہے۔
عمران خان کو بہت بہادر آدمی مانا جاتا ہے۔ مدّتوں ہمارا خیال بھی یہی رہا۔ مگر وہ خوف کا شکار ہو گئے۔ ایک خاص علاقے کے ایک خاص گروہ میں گھر گئے۔ صوبائی اور وفاقی وزارتیں پہلے ہی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر تقسیم کی تھیں۔
ذاتی دوستوں کو نوازا، حتیٰ کہ نعیم الحق، عون محمد اور زلفی بخاری کو۔ دوائوں کی قیمتیں یک لخت دو گنا تک کیسے ہو گئیں؟ ایسی نازک وزارت کیا عامر کیانی ایسے آدمی کو سونپی جاتی ہے؟ جتلانے والوں نے جتلا دیا۔ احساس دلانے والوں نے احساس دلانے کی کوشش کی۔ نتیجہ دشنام اور الزام۔ ان کا میڈیا سیل یہ کہتا ہے کہ اخبار نویس سب کے سب جرائم پیشہ ہیں۔ بلیک میلر ہیں یا لفافے وصول کرنے والے۔ ایک ایک کر کے، ان کے حامی سب صحافی انہیں چھوڑ گئے۔ باقی چھوڑ دیں گے۔ گالی کون سی دلیل ہے؟
خوف ایک ہتھیار ہے جو بہت سمجھ کر استعمال کرنا چاہئے۔ ورنہ بے معنی ہو جاتا ہے، ”بوم رِنگ‘‘ کی طرح لوٹ کر آتا ہے۔ برہمی اور اشتعال ہو تو اس کے ردّعمل میں ویسا ہی جنون اور اشتعال۔
زرداری اور شریف خاندان کا حربہ خریداری تھا۔ میڈیا گروپوں، اخبار نویسوں اور حامیوں پہ ہن برسائو اور اپنے مورچے میں ڈٹے من مانی کرتے رہو۔ پی ٹی آئی کا خوف پھیلانا ہے۔ کتنے لوگوں کو آپ ڈرا سکتے ہیں، کتنی آنکھیں ایوانِ اقتدار کی جگمگاہٹ سے خیرہ ہو سکتی ہیں؟
یہ ایک تغیّر پذیر معاشرہ ہے۔ اب وہ اخلاقی اساس کا مطالبہ کرتا ہے،اصولوں کی پاسداری کا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود نے بالکل غلط کیا۔ جہانگیر ترین کے خلاف، گورنر کی موجودگی میں زبانِ طعن دراز نہ کرنی چاہئے تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مستقبل کے لیے بساط بچھا رہے ہیں۔ بنیادی سوال مگر دوسرا ہے۔ سپریم کورٹ کیا ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے چکی؟ کیا اپنے ملازمین کے نام پر وہ کاروبار نہیں کرتے رہے؟ پھر کابینہ کے اجلاسوں میں کیسے وہ شریک ہوتے ہیں؟ پنجاب میں انہیں سرکاری افسروں کی رہنمائی کا فرض کس نے اور کیوں سونپا ہے؟ جس امانت داری کے آپ امین اور علمبردار تھے، وہ کیا ہوئی؟ پٹوار وہی حرّافہ ہے جو کہ تھی۔ پولیس پہلے سے زیادہ بگڑ گئی۔ عدالت کو بہتر بنانے کی ابتدا ہی نہیں، ادھر نیب اور ادھر کراچی میں رینجرز والے کہتے ہیں کہ گاہے نچلی عدالتیں تخریب کاروں تک کو ضمانت پہ چھوڑ دیتی ہیں۔
شریف اور زرداری خاندان لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ آئیں تو ٹھہر نہیں سکتے۔ فعال طبقات انہیں مسترد کر چکے۔ عدالتیں گوارا کریں گی اور نہ اسٹیبلشمنٹ۔ گستاخی معاف تحریک انصاف اپنی قبر کیوں کھود رہی ہے؟