جنریشن گیپ دراصل کمیونیکیشن گیپ ہوتا ہے اور آج مجھے اسی بلا کا سامنا ہے۔ سمجھ نہیں آرہی بات کیسے اور کہاں سے شروع کروں۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کی فلم انڈسٹری کی حالت بہت ہی بری تھی جب کچھ جنونیوں نے تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بنانا شروع کیا اور چند سالوں میں صورتحال مکمل طور پر سنبھل گئی۔ سنتوش کمار پاکستان کے پہلے سپر سٹار قرار پائے۔ گیتوں میں ان کے لئے ’’روپ کے راجہ‘‘ جیسی اصطلاحیں استعمال ہوئیں(فلم موسیقار) اور مکالموں میں انہیں ’’خوابوں کا شہزادہ‘‘ (فلم پتن) لکھا گیا۔ فریدوں ایرانی نے اک انٹرویو کے دوران برسوں پہلے کہا’’خوبصورت سے خوبصورت انسانی چہرے بھی چند مخصوص اینگلز سے شوٹ کئے جائیں تو ان کے ایک دو پہلو کچھ کمزور دکھائی دیتے ہیں لیکن ہالی ووڈ سے لے کر ہندوستان کی فلم انڈسٹری تک، پاکستان کے سنتوش کمار کا چہرہ وہ واحد چہرہ ہے جسے پرفیکٹ کہا جاسکتا ہے کیونکہ کیمرہ جہاں بھی رکھ دو، ہر اینگل سے یہ خوبصورت ترین ہے۔‘‘ سنتوش صاحب نے تقریباً دو دہائیاں فلم انڈسٹری پر راج کیا اور آج مجھے ان کا تعارف کرانا پڑرہا ہے کہ شاید یہی زندگی ہے، اگر ہے۔
سنتوش بھائی کا اصلی نام سید موسیٰ رضا تھا۔ ان سے چھوٹے درپن کا اصلی نام سیدعشرت عباس تھا جو خود اتنے ہینڈسم تھے کہ ’’خوبرو‘‘ کا لفظ ان کے نام کا لازمی جزو قرار پایا۔ وہ بھی صف اوّل کے فلم سٹار تھے۔ تیسرے سیدّ سلمان مدتوں ٹاپ کے ڈائریکٹر رہے اور ورثہ میں سید نور جیسے ہدایتکار چھوڑے۔ سب سے چھوٹا سید منصور عباس میرا بیحد عزیز دوست اور دوستی محیط ہے تقریباً 45سال پر، اسی لئے میں سنتوش صاحب کو سنتوش بھائی، درپن صاحب کو درپن بھائی اور سلمان صاحب کو سلو بھائی کہتا ہوں، جبکہ منصور صرف منصور اور لاڈآئے تو شاہ جی۔ پورا خاندان حسن و جمال، مردانہ وجاہت کی بینظیر مثال لیکن سنتوش بھائی تو بالکل ہی بےمثال لاجواب۔سنتوش بھائی کا بیٹا ہے محسن رضا اور محسن کا بیٹا ہے سید موسیٰ رضا جس کا نام اس کے دادا کے نام پر رکھا گیا۔ چند روز پہلے موسیٰ رضا جونئیر کی شادی تھی جس میں شرکت کے بعد میں ابھی تک پوری طرح سنبھل نہیں سکا۔ دو ڈھائی سال پہلے میری ا ہلیہ نے تمام پرانی فلمیں میرے بیڈ روم سے اٹھوادی تھیں کیونکہ ’’دورہ‘‘ پڑنے پر میں ساری ساری رات انہیں دیکھتا ا ور سر پٹختا رہتا۔ موسیٰ رضا کے ولیمہ سے واپسی کے بعد تو جیسے مجھ پر وحشت سی طاری ہورہی تھی۔
منت ترلا کرکے میں نے ’’ضبط شدہ‘‘ ساری موویز واپس منگوالیں۔ ہالی ووڈ، ہندوستان کی پرانی فلمیں علیحدہ کیں۔ پاکستان کی پرانی فلموں کے چھانٹی کرکے سنتوش بھائی کی وہ فلمیں علیحدہ کیں جو لڑکپن سے اس کم بخت بڑھاپے تک میری فیورٹ رہیں…….دروازہ بند……. ماضی کھلا ……. آنکھیں نم اور شب غم ۔’’چن وے‘‘…….’’تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے، میرا کڈھ کے لے گیا دل وے، وے منڈیا سیالکوٹیا‘‘’’شہری بابو‘‘ جس میں سنتوش بھائی کے ساتھ سورن لتا تھیں’’قاتل‘‘ ،’’اومینا نجانے کیا ہوگیا کہاں دل کھوگیا‘‘ اور ’’الفت کی نئی منزل کو چلا وہ بانہیں ڈال کے بانہوں میں‘‘’’مکھڑا‘‘…….’’دلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے‘‘’’وعدہ‘‘…….’’جب ترے شہر سے گزرتا ہوں‘‘’’پتن‘‘…….’’بیڑی دتی ٹھیل اوے محبتاں داکھیل اوے‘‘’’سرفروش‘‘……. جس کا یہ مکالمہ محاورہ بن گیا ’’چوری میرا پیشہ نماز میرا فرض‘‘’’سات لاکھ‘‘……. آئے موسم رنگیلے سہانے …….’’یارو مجھے معاف رکھو میں نشے میں ہوں‘‘ اور ’’قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے۔‘‘
’’بیداری‘‘……. ’’آئو بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی‘‘ اور ’’ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے‘‘’’شام ڈھلے‘‘……. ’’سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی، دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی‘‘’’موسیقار‘‘……. ’’تم جگ جگ جیو مہاراج رہے، ہم تیری نگر یا میں آئے‘‘’’انتظار‘‘…….’’جس دن سے پیا دل لے گئے، دکھ دے گئے‘‘ …….چاند ہنسے دنیا بسے روے میرا پیار رے‘‘’’گھونگٹ‘‘……. ’’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘‘’’دامن‘‘……. ’’نہ چھڑا سکو گے دامن نہ نظر بچا سکو گے‘‘ہزاروں کالم بھی اس طلسم ہوشربا اور الف لیلیٰ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ یادوں کے سمندر میں کاغذ کی نائو، تنکے پتوار، وقت کا بہائو، مرچکے ملاح، ویران ساحل، بے رحم آسماں، نہ وہ چہرے رہے، نہ ویسے کہانیاں لکھنے والے، نہ وہ ہدایتکار،نہ وہ موسیقار، نہ گلوکار، نہ وہ نغمہ نگار، نہ وہ دیکھنے اور سننے والے کہ وقت کی سنگدلی دیکھ کر انسان بری طرح سہم جاتا ہے۔ جن ناموں کے ڈنکے بجتے تھے۔ آج بتانا پڑتا ہے وہ کون تھے؟ کیسے تھے؟
دنیا ان کی کتنی دیوانی تھی……. پوری پوری فلم میں ایک چہرہ ایسا نہیں جو مٹی کے پردے میں نہ جا چھپا ہو، نہ علائوالدین، نہ نذر، نہ آصف جاہ ،نہ طالش، نہ الیاس کاشمیری، نہ اسلم پرویز، نہ رنگیلا، نہ منور ظریف، نہ ننھا، نہ علی اعجاز……. ’’مکھڑا‘‘ کے تقریباً آخری سین میں دو ایکسٹراز ہیں جو بہت بعد میں ’’رنگیلا‘‘ اور ’’سلطان راہی‘‘ کہلائے اور پھر ہمیشہ کے لئے گہنائے گئے۔صرف فلم ہی کیا……. چند طالبعلموں کو چھوڑ کر اور کون جانتا ہے کہ خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چودھری محمد علی، چندریگر، فیروز خان نون، نورالامین وغیرہ کون تھے؟ کسی راہ چلتے سے پوچھو تو اس کی حیرت بتائے گی۔’’مجھے راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘باقی صرف یہ ہے کہ باقی کچھ نہیں رہتاجو کل تھے، وہ آج نہیں جو آج ہیں وہ کل نہ ہوں گےاس دھوکہ منڈی میں ہر لین دین دھوکہ اور قدم قدم سراب۔