اتوار کی صبح آنکھ کھلتے ہی فکر لاحق ہو گئی کہ یہ کالم کس موضوع پر لکھا جائے۔ سونے سے قبل ارادہ باندھا تھا کہ ایران کے بارے میں ہمارے وزیر خارجہ نے جو شکوہ بھری پریس کانفرنس کی ہے اس کی چند جزئیات پر خاص توجہ دیتے ہوئے Big Pictureدیکھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ سوچتے ہوئے چند ’’حساس‘‘ مقامات کا خیال آیا۔ ہر لفظ ضرورت سے زیادہ احتیاط سے لکھنے کا متقاضی تھا۔ ڈنگ ٹپائو اندازِ تحریر کام نہیں آسکتا تھا۔ ذہن میں آئے خیالات کو نظرانداز کرنے کے لئے منطق کا سہارا لینا پڑا۔ معقول جو از یہ دریافت ہوا کہ وزیر اعظم کے دورئہ ایران مکمل ہونے کا انتظار کرلیا جائے۔ ایران کے وزیر خارجہ نے عمران خان صاحب کے ان کے ملک آمد سے قبل ہی ہمارے وزیر اعظم کے مجوزہ دورے کو ’’تاریخی‘‘ قرار دیا ہے۔ ’’تاریخ‘‘ کی تشکیل کا انتظار کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔
معقولیت کے بہانے ذہن میں آئے خیالات کو قلم کی زد میں آنے سے بچالینے کے بعد خالی ہوئے دماغ میں نجانے کیوں یہ سوچ امڈ آئی کہ ہمارے ایک شہرئہ آفاق ناول نگار عبداللہ حسین نے اپنی معرکتہ الآرا تخلیق کا نام ’’اداس نسلیں‘‘ رکھا تھا۔ 1960کی دہائی میں پاکستان کی فقط ایک خاص ’’نسل‘‘ کی ’’اداسی‘‘ کے بجائے ماضی،حال اور مستقبل کی ’’نسلوں‘‘ کو ’’اداس‘‘ ٹھہرانا یقینا ایک حیران کن وجدانی کیفیت کی دین تھا۔ ترکی کا ناول نگار اورحان پامک ’’حزن‘‘ کو اپنے شہر استنبول کا کلیدی Moodیا کیفیت ٹھہراتا ہے۔ ہمارے ہاں حزن کو ملال کے ساتھ ملاکر لکھا اور بولاجاتا ہے۔ ’’حزن‘‘ ایک اکائی کی صورت کیا ستم برپا کرتا ہے اسے سمجھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہوں۔
کبھی کبھار منیرؔ نیازی یا ناصر کاظمی کے چند مصرعے اس کی جھلک دکھاتے ہیں۔ ’’میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے۔ دیکھ اس کالی رات کو دیکھ‘‘ اسی حوالے سے یاد آگیا۔ ریل کی سیٹی منیرنیازی کے دل کو لہو سے بھردیا کرتی تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔
میرے ذہن پہ لیکن عبداللہ حسین کی ’’اداس نسلیں‘‘ طاری رہیں۔ ان کے بارے میں غور کرتے ہوئے احساس ہوا کہ آج کا سوشل میڈیا خاص طورپر ٹویٹر کے ذریعے لکھے مختصر فقرے دورِ حاضر کے پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت کے غصے نہیں بلکہ اداسی کا اظہار ہیں۔ دلوں میں جاگزیں ہوئی اداسی کو لیکن طعنوں کی مدد سے غصے کا لبادہ پہنایا جاتا ہے۔
اسد عمر کی فراغت سے پہلے میں نے ایک کالم لکھا تھا۔اس کے آغاز ہی میں یہ لکھا کہ آج سے تقریباََ 3ماہ قبل چند لوگوں کی وساطت سے یہ خبر ملی تھی کہ شوکت ترین اور ڈاکٹر حفیظ شیخ سے رابطے ہورہے ہیں۔ انہیں پاکستانی معیشت کی کمان سنبھالنے کو آمادہ کیا جارہا ہے۔ اسد عمر کی واشنگٹن کے اہم دورے سے وطن واپسی کے ساتھ ہی بینڈ باجے کے ساتھ چند ٹی وی سکرینوں پر ان کی ممکنہ فراغت کی Breaking Newsچلی تو اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے وزیراعظم کا حوالہ دیتے ہوئے ایک تگڑی تردید جاری کردی۔ مجھے گماں ہوا کہ اسد عمر کا جانا تو ٹھہر گیا ہے مگرشاید اس کا رسمی اعلان بجٹ پاس ہونے کے بعد ہوگا۔
میرا کالم چھپتے ہی مگر اسد عمر کی فراغت ہوگئی۔ اس کے بعد کئی دنوں تک ٹویٹر پر میری ’’اوقات‘‘ کا مذاق اُڑایا گیا۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ زندگی میں شاید پہلی بار کسی ایک حقارت بھرے فقرے کو دیکھ کر ایک لمحے کو بھی طیش نہیں آیا۔ مجھے طعنے دینے والے دوست یہ سمجھنے سے قاصر نظر آئے کہ کالموں میں ’’خبر‘‘ نہیں دی جاتی۔ بنیادی طورپر میڈیا پر حاوی ’’خبروں‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے ’’اندازہ‘‘ لگایا جاتا ہے۔ بسا اوقات تجزیے کی بنیاد پر اخذ کردہ نتائج درست ثابت نہیں ہوتے۔ ان دنوں ’’اندر کی خبر‘‘‘ رکھنے والوں تک میری رسائی نہیں۔ کئی بار اس کالم میں یاد دلاتا رہتا ہوں کہ Active Reportingسے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔
اسد عمر کے بارے میں گردش کرنے والی افواہوں کا ایک متحرک رپورٹر کی طرح تعاقب کرتے ہوئے کسی ایسے ’’ذریعے‘‘ سے بات ہوجاتی جس پرر پورٹنگ کے تجربے کی بنیاد پر اعتماد ہوتا تو ’’خبر‘‘ مل ہی جاتی۔اپنے تئیں قیافہ لگایا کہ بجٹ کی منظوری سے قبل وزیر خزانہ اس انداز میں فارغ نہیں کئے جاتے جس طرح اسد عمر گھر بھیجے گئے۔ میں غلط ثابت ہوا لیکن ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بارے میں جو اطلاع تین ماہ قبل ملی تھی بالآخر درست ثابت ہوئی۔ بعداز واقعہ آئی سوچ یا انگریزی والی Hindsight اب یہ بھی سمجھارہی ہے کہ اگر اسد عمر کی فراغت لازمی ٹھہر چکی تھی تویہ بھی ضروری تھا کہ ان کا متبادل ہی نیا بجٹ تیار کرے اور اسے اسمبلی سے منظور کروائے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری IMFسے معاملات طے کئے بغیر ممکن نہیں۔ اسد عمر واشنگٹن میں ہوئی ملاقاتوں میں اپنی پسند کا پیکیج حاصل نہیں کر پائے۔ IMFاپنی شرائط پر ڈٹی رہی۔ ان میں سے چند شرائط کو ہر صورت Deliverکرنا ہو گا۔ وزیراعظم کو قائل کرنا پڑا کہ شاید ڈاکٹر حفیظ شیخ ہی ان پر عملدرآمد کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا عجلت میں ان کا انتخاب کرنا پڑا۔
سوال اٹھتا ہے کہ ڈاکٹر شیخ ان شرائط پر عملدرآمد کو یقینی بنا پائیں گے یا نہیں۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے یاد آیا کہ پیپلز پا رٹی کی زرداری- گیلانی حکومت نے IMFکے ساتھ جو معاملات طے کئے تھے شوکت ترین کے ہاتھوں ان پر عملدرآمد نہ ہوپایا تو شیخ صاحب ان کی جگہ ڈھائی سال تک وزارتِ خزانہ کے مدارالمہام رہے۔
IMFکاکلیدی تقاضہ ان دنوں یہ تھا کہ میں اور آپ کسی دوکان سے ضرورت کی جوشے خریدتے ہیں اس پر وہ (VAT) Value Added Taxلاگو کیا جائے جو مارگریٹ تھیچر نے 1980کی دہائی میں برطانیہ میں متعارف کروایا تھا۔ حفیظ شیخ صاحب نے اسے RGSTکا عنوان دے کر پاکستان میں لاگو کرنے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کی ان دنوں حلیف MQMاس کے اطلاق کے خلاف کراچی کے تاجروں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوگئی۔ مسلم لیگ (نواز) کو پنجاب کے دوکانداروں سے محبت یاد آگئی۔ RGSTکا اطلاق ہو نہ پایا۔ اس کی پاداش میں IMFنے اپنے طے شدہ پیکیج کی آخری قسط ادا نہیں کی۔ شیخ صاحب کی جگہ سیدنوید قمر کو وزارتِ خزانہ سونپی گئی اور اس کے بعد …چراغوں میں روشنی نہ رہی والا معاملہ ہوگیا۔
سمجھ نہیں آرہی کہ سیاسی کشیدگی کے موجودہ ماحول میں عمران حکومت قومی اسمبلی میں اپنے ووٹوں کی طاقت سے Vulnerableنظر آتے ہوئے حفیظ شیخ کے ذریعے وہ سب کیسے حاصل کرپائے گی جو ’’ایک زرداری… سب پہ بھاری‘‘ گجرات کے چودھریوں اور ایم کیو ایم کی مسلسل نازبرادری کے باوجود 2011میں حاصل نہیں کر پائے تھے۔