برادرم علی محمد کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
شادی کی عمر کا تعلق شریعت سے نہیں، سماج اور عرف سے ہے۔ نظمِ اجتماعی اس باب میں قانون سازی کر سکتا ہے۔ شریعت سے اس معاملے کا تعلق بالواسطہ ہے۔
شریعت نام ہے قرآن و سنت کا۔ اس کے سوا جو کچھ ہے، وہ استنباط ہے، شرح ہے، تفہیم ہے اور بس۔ اسی کو فقہ کہتے ہے۔ فقہ یا شرح و تفہیم انسانی عمل ہے جس میں جتنا امکان صحت کا ہے، اتنا ہی امکان خطا کا بھی ہے۔
آفاقیت شریعت کا وصف ہے نہ کہ فقہ و تفہیم کا۔ قرآن مجید اور اللہ کے رسولﷺ نے شادی کی کوئی عمر مقرر نہیں کی، اس کا معیار بیان کیا ہے۔ اگر شارع نے کوئی عمر مقرر نہیں کی تو معیار کو سامنے رکھتے ہوئے، عمر کا تعین خلافِ شریعت کیسے ہو گیا؟
ہمارے ہاں فقہ اور شریعت میں فرق نہیں کیا جاتا۔ لوگ کسی قدیم کتاب سے فقہا کی آرا نقل کرتے اور اسے بطور شریعت پیش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ استنباط کے باب میں ان آرا کی بہت اہمیت ہے اور اہلِ علم ان سے صرفِ نظر نہیں کرتے؛ تاہم ان میں غلطی کا امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا ایک دوسرے سے بھی اختلاف کرتے ہیں اور اسی کے نتیجے میں ہمارے ہاں ایک سے زیادہ فقہی مسالک وجود میں آئے۔ اگر ماضی میں امام ابو حنیفہ اور قاضی ابو یوسف سے اختلاف جائز تھا تو آج کیوں نہیں؟ اختلاف سے احترام میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ان کی علمی مساعی ہماری تاریخ کا درخشندہ باب ہے۔
قرآن و سنت ہی شریعت ہیں لیکن استنباط کے ساتھ، ایک مسئلہ ان کی تفہیم بھی ہے۔ تفہیم میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے اور یہ فطری ہے۔ یہ اختلاف صحابہ میں بھی ہوا۔ کوئی تفسیر اٹھا کر دیکھ لیں، ایک آیت کے ذیل میں کئی آرا ملیں گی۔ بعد کے مفسر اُن میں ترجیح قائم کرتے ہیں۔ گویا دوسرے صحابہ کی تفسیری آرا سے اختلاف کرتے ہیں۔ یہ اختلاف معلوم ہے اور قابلِ قبول ہے۔ یہ اختلاف شریعت سے اختلاف نہیں، انسانی تفہیم سے ہے۔
شادی کی عمر کا، جب شارع نے تعین نہیں کیا تو اس ضمن میں کہی گئی ہر بات تفہیم کے دائرے میں آئے گی۔ اہلِ علم نے اپنے طور پر اس باب میں شریعت کا مدعا سمجھا اور اسے بیان کر دیا۔ ہم ان کے دلائل کو دیکھیں گے۔ ان سے اتفاق ہو سکتا ہے اور اختلاف بھی۔ کوئی صلاحیت رکھتا ہے تو اس مسئلے سمیت کسی بھی معاملے میں، کوئی نئی بات بھی کہہ سکتا ہے۔ اس کے رد و قبول کا فیصلہ بھی ظاہر ہے کہ دلیل کی بنیاد پر ہو گا۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے۔ ایک مرد اور عورت جب آزادانہ طور پر ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان کے درمیان معاہدہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں نکاح کے لیے عقد کا لفظ بھی مستعمل ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں مرد اور عورت کی جو بنیادی ذمہ داریاں وجود میں آتی ہیں، قرآن مجید نے انہیں بیان کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر گھر کی معاشی ذمہ داری مرد پر ہے۔
قرآن مجید نے جہاں جہاں اس رشتے کا ذکر کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ گڈی گڈے کا کھیل نہیں۔ وہ توجہ دلاتا ہے کہ نکاح سے ایک ایسا ادارہ وجود میں آ رہا ہے جس سے انسانیت کا مستقبل وابستہ ہے۔ کچھ ماہ کے بعد، یہ مستقبل ایک بچے کی صورت میں خاتون کے آغوش میں ہو گا۔ اب وہ محض مرد و زن نہیں، باپ اور ماں ہیں۔ کیا عقل اسے تسلیم کرتی کہ عالم کا پروردگار یہ مستقبل ایسے ہاتھوں میں دے رہا ہے جو حیاتیاتی اعتبار سے تو ماں باپ بن سکتے ہیں لیکن اس بچے کو ایک اچھا انسان بنانے کی دیگر لوازم پورے نہیں کرتے؟
دیگر لوازم کیا ہیں؟ اچھی تربیت۔ اچھی تعلیم۔ اچھا ماحول۔ کیا چودہ اور پندرہ سال کے والدین یہ ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں؟ شریعت نے اگر بلوغت کو نکاح کے لیے لازم قرار دیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس سے صرف جسمانی بلوغت مراد لی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے کم سنی کی شادی کو جائز کہا ہے، ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اسے پسندیدہ نہیں سمجھتی۔
شریعت نے جن امور میں صرف اصول بیان کیے ہیں، ان میں قانون سازی یا اطلاق کو معاشرتی حالات یا عرف پر چھوڑ دیا ہے۔ گویا یہ نظمِ اجتماعی یا حکومت کا کام ہے کہ حالات کے مطابق قانون بنائے۔ ایک حکومت ایک قانون بنا سکتی ہے اور آنے والی حکومت اس کو بدل سکتی ہے، اگر اس کے خیال میں سماجی حالات بدل گئے ہیں۔ خلافتِ راشدہ سے اس کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ کیسے ایک خلیفہ راشد کے فیصلے کو بعد میں آنے والے خلیفہ راشد نے بدل دیا۔
شادی کی عمر بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ ہماری آج کی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ اس معاملے میں قانون سازی سماجی حالات کی ضرورت ہے تو وہ قانون بنا سکتی ہے اور پہلے سے موجود قانون کو تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ شریعت کا کوئی حکم اس میں مانع نہیں۔ میرے نزدیک شریعت کا منشا یہ ہے کہ کسی کو ایک ذمہ داری اسے وقت سونپی جائے جو وہ اس کا اہل ہو۔ قرآن مجید کا کہنا ہے: ‘امانتیں ان کے اہل کے سپرد کرو‘۔ انسانیت کا مستقبل انہیں نہیں سونپا جانا چاہیے جو اس کے اہل نہ ہوں۔ آدمی اور جانور میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ جانور بچہ پیدا کر کے فطرت کے حوالے کر دیتا ہے یا فطرت خود اسے اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔ آدمی اس کی ذمہ داری اٹھاتا ہے کہ وہ پیدا ہی نہیں کرے گا، اسے انسان بھی بنائے گا۔ وہ اس کی مادی بقا ہی کا نہیں، اخلاقی سلامتی کا بھی ضامن بنتا ہے۔
اصولی بحث سے ایک اور سوال بھی جڑا ہوا ہے۔ ایک معاشرے میں کوئی قانون کب نتیجہ خیز ہوتا ہے؟ تجربہ یہ ہے کہ اگر سماج کسی قانون کو شعوری طور پر قبول نہ کرتا ہو تو وہ نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔ اس لیے پہلے مرحلے میں لازم ہوتا ہے کہ اس کی ذہنی تربیت کی جائے۔ اس میں شعوری سطح پر آگہی پیدا کی جائے۔ معاشرتی حقائق کے ساتھ اس کی مطابقت پیدا کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس باب میں مفتی محمد شفیع کی رائے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ موقف اپنایا ہے کہ قانون سازی سے پہلے، معاشرے کو کم سنی کی شادی کے مفاسد سے آگاہ کیا جائے۔ لوگوں کو متنبہ کیا جائے کہ اس سے کیا کیا سماجی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ گویا جب معاشرہ شعوری طور پر اس بات کو سمجھنے کے قابل ہو تو پھر قانون بھی بنایا جا سکتا ہے؛ تاہم یہ سوال کہ معاشرہ اس کے لیے شعوری طور پر تیار ہے یا نہیں، ایک سماجی مسئلہ ہے، شرعی نہیں۔
سماجی مسائل میں نت نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ سماج ارتقا پذیر ہے۔ ذرائع پیداوار کی تبدیلی سے، سماج کی ساخت بدل جاتی ہے۔ نئے حالات نئے قوانین کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسلام کی آفاقیت کی یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ اس نے ان امور میں انسان کو کسی خاص معاشرتی بندوبست کا پابند نہیں کیا جو بدل جانے والے ہیں۔ اس باب میں نظمِ اجتماعی کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ تاریخ میں سیدنا عمر فاروق ؓ نے اسلام کی اس تصور کو سب سے بہتر طور پر سمجھا۔
معاصر مسلمان معاشروں میں شادی کی عمر، دوسری شادی کے لیے حکومت کی اجازت سمیت نکاح و طلاق کے باب میں بہت قانون سازی ہوئی ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح دورِ حاضر کے فقہا کی آرا کو بھی جاننا چاہیے، اس احساس کے ساتھ کہ شریعت غیر متبدل ہے لیکن اس کی تفہیم انسانی کاوش ہے جو تنقید سے ماورا نہیں۔
برادرم علی محمد اور پارلیمنٹ میں تشریف فرما دینی جماعتوں کے راہنماؤں سے درخواست ہے کہ ریاست کے دینی تشخص کی حفاظت سے مراد قدیم آرا پر مورچہ لگانا نہیں، دین کو اصل ماخذ سے سمجھنا اور اسے روحِ عصر سے ہم آہنگ بنانا ہے۔ شادی کے لیے عمر کا تعین، شرعی نہیں، ایک سماجی مسئلہ ہے۔