منظور پشتین کو جتنا گراؤ کے وہ اتنا ابھرے گا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا یہ وہ حقیقت ہے جو لاکھ چھپائے چھپ نہیں رہی۔ حالیہ پریس کانفرس میں جنرل غفور نے تفصیل سے بتایا کہ منظور پشتین اور ان کی تحریک پی ٹی ایم کے خلاف بھارتی فنڈز کے تمام ثبوت مل گئے ہیں۔ اس الزام کو کس عدالت میں لیجانا ہے جنرل صاحب یہ بتانا بھول گئے، چلیں میں گزارش کرتا ہوں کہ عدالت عظمیٰ کے سب سے بڑے جج اس سنگین الزام کا ازخود نوٹس لیں اور پی ٹی ایم کے لوگوں کی گرفتاریوں کا حکم دیں، ان کو عدالت میں لایا جائے اور اپنی صفائی دینے کا بھرپور موقع دیا جائے، ہاں لیکن جنرل غفور صاحب اکٹھے کیئے وہ تمام ثبوت عدالت میں جمع کروائیں جو ان کا دعویٰ ہے کہ منظور پشتین کو غدار وطن قرار دینے کے لیئے کافی ہیں۔ گزارش ختم ہوئی۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ جنرل صاحب ایسا کبھی نہیں کریں گے، اور نا ہی وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔وہ بااختیار ہیں، سونے کی چڑیا ان کے ہاتھ میں ہے اور باقی سب اس طاقت کی چڑیا کو گھور سکتے ہیں، چھین نہیں سکتے، کوشش کی گئی تھی، انجام سامنے ہے۔وہ چاہیں تواس چڑیا کو چوہا اور چوہے کو پھر سے چڑیا بنا دیں، معلوم نہیں کیوں، مگر میرا یہ بھی خیال ہے کہ اس طاقت کی چڑیا نے بھی اب جواب دے دیا ہے، وہ بھی نڈھال نظروں سے یہ بتانے کی کوشش میں ہے کہ اب مجھ میں جان نہیں رہی، مجھے آزاد کردو۔ گزارش رکھتے ہوئے بات کو آگے بڑھانے کی جرات کروں گا کہ جنرل صاحب، اب وہ وقت گیا کہ جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے، وہ جب بوڑھے ہوئے تو انہوں نے بھی توبہ کرلی تھی۔ میری بات کی تہہ میں جانے کے لیئے آپکو بی بی سی پر لگا عاصمہ شیرازی کا کالم، بھاگ لگے رہن، پڑھنا ہوگا، خیر فی الحال میرے ساتھ رہیئے۔ ہم جنرل صاحب سے کچھ مزید بات کرنا چاہتے ہیں۔
میرے ملک کی عظیم فوج کے باکمال سپوت،جنرل غفور صاحب، جتنی محنت منظور کو غدار قرار دینے میں خرچ ہوئی، اتنی محنت ہی درکار تھی، لاپتہ افراد کا کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ لیا ہوتا تو ان ماؤں بہنوں کے آنسو بھی پونچے جا سکتے تھے جن کے گھر والے برسوں سے گھر نہیں آئے، اب تو ان کے آنسو بھی خاموش ہوچکے ہیں، اپنوں کے غم میں نڈھال زندہ لاشین، اپنوں کے گھر لوٹنے کی اب بھی منتظر ہیں۔کیا منظور بھی یہی نہیں چاہتا؟ دو ہی تو مطالبات سے تحریک کا آغاز ہوا تھا، لاپتہ افراد کی بازیابی، اور ماورائے قانون قتل کی روک تھام۔ اب وہی تحریک ملک گیر حیثیت اختیار کرگئی ہے،اور اب تو اس نہج پر ہے کہ سول ملٹری تعلقات کی سمت کا تعین اسی ایک تحریک پر منحصر ہوتا ہے۔
ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ 2018 میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے قانون قتل کے بعد منظور پشتین اور جبران ناصر، یہ دو نام ہی تھے جنہوں نے پیچھے نا ہٹنے کا تہیہ کیا تھا اور اس کیس کو آخر تک دیکھتے رہے۔ وہ الگ بات ہے کہ نقیب کے والد کو دھمکیاں دلوا کر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا اور پی ٹی ایم کو غدار قرار دینے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔ جب یہ تحریک شروع ہوئی تب سے لے کر آج تک میڈیا بھی فوج کا اہم ہتھیار بن کر اس تحریک کے لوگوں کی رائے کو جگہ نہیں دیتا تھا اور ان کے خلاف ملک سے غدار ہونے کے بے بنیاد پروپیگنڈے چلاتا تھا۔ تب اس چھبیس سالہ نوجوان نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور عوام تک رسائی کا یہی ایک راستہ جان کر لوگون تک اپنا پیغام پہنچاتا تھا۔ یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر بھی منظور کے خلاف تحریک چلانے والی پوری ایک فوج بیٹھی ہوئی ہے جو آج تک بے بنیاد اور نام نہاد صحافتی ڈراموں سے منظور پشتین کو غدار قرار دلوانے پر مصر ہیں، میں ان کو جنرل صاحب کا چھوٹا کہتا ہوں۔جنرل صاحب بھی ان کو پیار سے چھوٹا ہی کہتے ہونگے۔ یاد رہے میرا فی الحال نکے دے ابے والی بات کی جانب بالکل اشارہ نہیں ہے۔
خیر تازہ بات یہ ہے کہ جیسے ہی منظور کے غدار ہونے کے ثبوت ہاتھ لگے ہیں، جنرل صاحب کے چھوٹے خاصے تازہ دم نظر آرہے ہیں جیسے پاکستان میں غربت کے خاتمے کا کوئی فارمولا ہاتھ لگ گیا ہو یا ایک کروڑ نوکریوں والی بات سچ ہونے کو ہو۔ خیر میرے دوست جنہوں نے پچھلے دنوں جنرل صاحب کی پریس کانفرنس سے متاثر ہوکر دھواں دار ویڈیو بنائی، ٹارگٹ یہی تھا کہ منظور غدار ہے، اس کے بھارت اور افغانستان حتاکہ اسرائیل سے رابطوں اور فنڈنگ ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں، اب ہوگا دمادم مست قلندر۔ دوست نے کچھ منٹ کے اس ری بٹل کے بعد ویڈیو بند کردی اور اس عنوان کے ساتھ لگا دی کہ یہ دستاویزی ویڈیو ہے۔
ایک دن بعد پتہ چلتا ہے موصوف منظور پشتین سے ملنے ان کے آستانے تشریف لے گئے ہیں اور وہاں ان کا انٹرویو کرکے آئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تصاویر اس پیغام کے ساتھ لگائی گئیں کہ جذبہ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، حالانکہ انٹرویو کا حال ایسا کچھ بھی نہیں بتاتا۔ انٹرویو جاری ہونے سے پہلے ہی موصوف کی لابی کی جانب سے یہ پروپیگنڈا شروع ہوجاتا ہے کہ منظور پشتین نے اپنی زبان سے مان لیا ہے کہ وہ فنڈنگ لیتا رہا ہے اور اسکے ایسا کرنے کی وجہ ہے، حالانکہ صاف نظر آرہا ہے کہ موصوف کس طرح سے منظور کو بولنے نہیں دے رہا اور اپنے الفاظ اس کے منہ میں ڈال کر کہلوانے کی کوشش پر تلا ہوا ہے۔ مجھے اس وقت بالکل لگا کہ موصوف بڑے ہوکر ارناب گوسوامی کی کرسی سنبھالیں گے۔ اتنی نفرت یہ لوگ لاتے کہاں سے ہیں؟
صاف پتہ چلتا ہے کہ موصوف کا انٹرویو کرنے کا مقصد صرف جنرل کی شاباشی لینا ہے اور توجہ حاصل کرنا ہے، ایک بھی سوال اس انتہائی مسئلے جس کا تعلق عوام کے اصل مسئلوں سے ہے، نہیں تھا، سب کا سب پریس کانفرنس کا ری بٹل تھا۔ لیکن مزے کی بات، اس سے منظور کی حیثیت کو بالکل بھی فرق نہیں پڑا، بلکہ اس کے سہارے سے جو لوگ خود کی طرف توجہ دلوانے کی ناکام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ان کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ میں منظور سے گزارش کرتا ہوں کہ ایسے نام نہاد صحافیوں سے ہوشیار رہے اور اپنے مقصد میں ڈٹا رہے، سوشل میڈیا کا بھلا ہو، تمہاری آواز صرف پاکستان نہیں، پوری دنیا میں سنی جارہی ہے، تمہیں ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا ہے جو تمہاری معصومیت کا فائدہ اٹھا کر اپنی دکان چمکانے آتے ہیں، اور تمہارا بڑا پن ہے کہ ان کو ایسا کرنے دیتے ہو۔ تمہارے ساتھ اس ملک کے ہر غریب، لاچار اور بے بس کی دعا ہے، تمہیں بس ہمت کرنی ہے، جیت زیادہ دور نہیں رہی۔