فواد چوہدری پر تو صرف مفتی منیب الرحمان برہم ہیں لیکن مجھ پر یقیناً مفتی شہاب الدین پوپلزئی بھی اُن کے ہمنوا بن جائیں گے۔ بیک وقت ایک دیوبندی اور ایک بریلوی مفتی کی برہمی کا سامنا کرنا بہت مشکل ہے اور اِس خوف سے میں قطعاً اُن کے کاموں میں ٹانگ اڑانے کی جرات نہ کرتا لیکن فواد چوہدری کے برعکس چونکہ میں اور میرا خاندان براہ راست اِن دونوں کی انائوں کے متاثرین ہیں، اِس لئے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہوں۔ حالانکہ اُن پر بھی اُن کا غصہ یوں بلاجواز ہے کہ فواد چوہدری مسلمان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر ہیں۔ جس ریاست نے مفتی منیب الرحمان کو ہمارے سروں پر مسلط کر رکھا ہے اور اُس کے نامزد شدہ ہونے کی وجہ سے اختلاف کے باوجود میں ہر سال اُن کے فرمان کے مطابق روزہ رکھتا اور عید مناتا ہوں۔
اُسی ریاست نے فواد چوہدری کو سب سے بڑے فیصلہ ساز فورمز یعنی کابینہ اور پارلیمنٹ کا رکن مقرر کیا ہے۔ آئینی لحاظ سے اُن کا اور مولانا نورالحق قادری کا مقام اور مرتبہ ایک ہے۔ یوں اُن کی رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے، اُسے دلائل دے کر غلط ثابت کیا جا سکتا ہے اور ہم خود دن رات یہی کام کرتے رہتے ہیں لیکن اُنہیں کسی معاملے سے متعلق رائے زنی سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔ اگر مفتی صاحب قرآن کی وہ آیت یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث ہمیں بھی بتادیں کہ جس میں دینی امور سے متعلق مفتی عبدالقوی اور مولانا خادم حسین رضوی کو تو ہر قسم کی رائے دینے کی اجازت دی گئی ہے لیکن فواد چوہدری کو روکا گیا ہے، تو ہم اُن کے مشکور رہیں گے۔
ہم متاثرینِ مفتیانِ کرام یوں ہیں کہ میں اپنے روزگار کے سلسلے میں گزشتہ کئی سال سے اسلام آباد میں رہائش پزیر ہوں۔ میرے چھوٹے بھائی اور اُن کے بچے بھی یہیں رہتے ہیں۔ بڑے بھائی، بہنیں، ماموں، چچا اور دیگر رشتہ دار مردان اور نوشہرہ کے اضلاع میں رہائش پزیر ہیں۔ اللہ نے مجھے یہ سعادت بخشی ہے کہ والدہ محترمہ میرے ساتھ رہتی ہیں۔ ہمیں مفتی منیب الرحمان صاحب جیسے علمائے کرام نے بتایا ہے کہ شریعت کی رو سے جہاں روزہ ہو، وہاں روزہ رکھا جاتا ہے اور جہاں عید ہو، وہاں عید منانا چاہئے۔ یوں میرے بڑے بھائی، بہنیں، چچا اور ماموں وغیرہ روزہ بھی ایک روز پہلے رکھ لیتے ہیں اور اُن کی عید بھی عموماً ایک دن پہلے آجاتی ہے۔ میں چونکہ اِن معاملات میں اپنے آپ کو ریاست کے احکامات کا پابند سمجھتا ہوں، اِس لئے اختلاف کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے مطابق روزہ رکھتا اور عید مناتا ہوں۔
اِسی طرح والدہ محترمہ اور اسلام آباد میں مقیم دیگر گھر والے بھی رویت ہلال کمیٹی کی پیروی کرتے ہیں۔ اب پیر کے دن مردان اور نوشہرہ میں مقیم سب عزیزوں نے روزہ رکھا لیکن والدہ محترمہ سمیت ہم نے نہیں رکھا لیکن اصل آزمائش عید کے موقع پر ہوتی ہے۔ عید والے روز بڑے بھائی اور بہنیں اپنی والدہ سے ملنے اسلام آباد نہیں آسکتے کیوںکہ اُس روز ہم روزے سے ہوتے ہیں۔ عید اپنوں کے ساتھ منائی جاتی ہے اور اِسی لئے لوگ بیرون ملک اور دور دراز علاقوں سے عید منانے گھروں کو آتے ہیں لیکن مفتی منیب الرحمان اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی وجہ سے ہم ایک ہی گھرانے کے لوگ بھی ایک ہی روز عید نہیں منا سکتے۔
میں نے جب سے صحافت شروع کی ہے اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے نام سے واقف ہوا ہوں تو اُس کے چیئرمین مفتی منیب الرحمان صاحب ہی ہیں۔ کئی حکومتیں بدلیں، فوجی حکومتیں بھی درمیان میں آئیں اور جمہوری حکومتیں بھی آتی اور جاتی رہیں لیکن مفتی منیب الرحمان اُس کمیٹی کے ایسے مستقل چیئرمین ہیں جیسے سعودی بادشاہ زندگی بھر کے لئے بادشاہ ہوا کرتے ہیں۔ یہی ضد پوپلزئی صاحب اور اُن کی طرح کے مفتی صاحبان نے پکڑی ہوئی ہے۔ ہم گناہ گار لوگ درست یا غلط کی بحث میں نہیں پڑتے۔ ہمارا معصومانہ مطالبہ یہ ہے کہ یا تو مفتی منیب الرحمان صاحب کی کمیٹی اپنی قوتِ نافذہ کو بڑھا کر مفتی پوپلزئی صاحب اور اُن جیسے مفتیوں کو روک دے یا پھر ہمیں مفتی منیب الرحمان کی کمیٹی سے نجات دلا دی جائے۔ یہ مفتیانِ کرام تو ہماری زندگی میں یہ مسئلہ حل نہ کرا سکے بلکہ ہر سال مزید گھمبیر بناتے رہتے ہیں، اِس لئے ہم فواد چوہدری کی تجویز کی بھی حمایت کرتے ہیں اور اگر کسی اور جانب سے بھی اِن کمیٹیوں کے علاوہ کوئی متبادل اور عاقلانہ تجویز آتی ہے تو اُسے بھی قبول کر لیتے ہیں۔ اِس کمیٹی سے تو بہتر ہوگا کہ فواد چوہدری کی تجویز کردہ مجوزہ کمیٹی اسلامی نظریاتی کونسل کی معاونت کرے اور یہی کونسل رویت ہلال کا فیصلہ کرے۔
اب یہ مذاق نہیں تو کیا ہے کہ مفتی پوپلزئی صاحب نے کیمروں کے سامنے درجنوں مفتیان کی موجودگی میں اعلان کیا کہ پختونخوا(جو ماشاءاللہ پاکستان کا حصہ ہے) کے فلاں فلاں علاقوں سے رمضان کے چاند کی رویت کی اتنی شہادتیں موصول ہوئی ہیں لیکن اُسی وقت مفتی منیب الرحمان ٹی وی کیمروں کے سامنے درجنوں مفتیوں کی موجودگی میں اعلان کرتے ہیں کہ ملک کے کسی حصے سے چاند کی رویت کی شہادت موصول نہیں ہوئی۔ اب اِن دونوں میں کوئی ایک گروہ تو جھوٹ بول رہا ہے اور جھوٹے کے بارے میں اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے احکامات سے یہ حضرات ہم سے زیادہ واقف ہیں۔ اِس لئے میری گزارش ہے کہ امسال کے اعلانات کو بنیاد بنا کر اسلامی نظریاتی کونسل یا پھر وفاقی شرعی عدالت یہ فیصلہ کر لے کہ مفتی منیب الرحمان اور مفتی شہاب الدین پوپلزئی میں سے کون جھوٹا ہے۔
پوپلزئی صاحب، فواد چوہدری جیسے وہ مسلمان بھی نہیں جنہیں بقول مفتی منیب الرحمان کے دینی معاملات میں ٹانگ نہیں اڑانا چاہئے۔ وہ تو مفتی منیب الرحمان کے کلیے کے مطابق دینی معاملات پر رائے زنی کے لئے کوالیفائیڈ ہیں۔
چنانچہ فواد چوہدری اور مجھ جیسے گناہ گار مسلمان حیران ہیں کہ ہم کس کی سنیں؟ کس مفتی کو سچا مانیں اور کس کو جھوٹا؟۔ ویسے رویت ہلال کی شہادت کے لئے بندے کا بالغ یا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ عالم ہونے کے علاوہ الحمدللہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی بالغ بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ مفتی منیب الرحمان صاحب اور اُن کی کمیٹی بتادے کہ وہ پوپلزئی صاحب کو بالغ نہیں سمجھتے یا خاکم بدہن اُن کے نزدیک ان کے مسلمان ہونے میں کوئی شک ہے۔ نہیں تو پھر وہ اُن کی شہادت کے باوجود یہ اعلان کیوں کرتے ہیں کہ ملک کے کسی حصے سے چاند دیکھنے کی شرعی شہادت موصول نہیں ہوئی۔ فواد چوہدری کی تجویز کردہ ماہرین فلکیات اور سائنسدانوں کی کمیٹی کم ازکم یہ فیصلہ تو کر سکتی ہے کہ دو مفتیوں میں کون جھوٹا اور کون سچا ہے؟