اپنے نوجوان ساتھیوں سے جنہیں اپنے کیرئیر کے اس حصے میں سرکاری اور غیر سرکاری پریس کانفرنسوں میں شرکت کی اذیت سے گزرنا ضروری ہے، ہاتھ باندھ کر استدعا کررہا ہوں کہ خدارا سمجھنے کی کوشش کریں کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب سیاست دان نہیں ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ ہیں۔ ایسے ذہین وفطین افراد میڈیا میں اپنے بارے میں ’’اچھی خبریں‘‘ دیکھنے کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان کی عقل ودانش بورڈ میٹنگوں، بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمینارز وغیرہ میں لشکارے دکھاتی ہے۔ وہ عموماََ Working Papersلکھ کر اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ان دستاویزات پر لمبی Emailsکے ذریعے Commentsدئیے جاتے ہیں۔وہ ان کے جوابات دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ البتہ جس ادارے کے لئے کام کررہے ہوں وہاں کا سربراہ یا اس کے طاقت ور ترین نائبین جو اعتراضات اٹھائیں انہیں رفع کرنے کی ہر صورت کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد پریس کانفرنسوں میں ’’دو ٹکے کے رپورٹروں‘‘ کے اٹھائے سوالات کے جوابات دینے کے عادی نہیں ہوتے۔
منگل کی سہ پہر میرے نوجوان ساتھیوں نے مگر ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کو سوالات کی بوچھاڑسے زچ کرنا چاہا۔ کچھ دیربرداشت کرنے کے بعد مشیر خزانہ کسی بھی نوعیت کی بدتمیزی دکھائے بغیر مسکراتے ہوئے اس پریس کانفرنس سے رخصت ہوگئے جو عمران حکومت کی متعارف کردہ ’’ایمنسٹی سکیم‘‘ کی تفصیلات بتانے کے لئے منعقد ہوئی تھی۔ ان کی رخصت نے چند رپورٹروں کو احتجاجاََ واک آئوٹ پر اُکسایا۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے ہنستے مسکراتے انہیں روک دیا اور بذاتِ خود سخت ترین سوالات کا جواب دینے کے لئے مائیک سنبھال لیا۔
حماد اظہر ان کے ہمراہ بیٹھے رہے تو میں حیران نہیں ہوا۔ وہ لاہورسے پہلی بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے ہیں۔ سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہوئے انہیں خبر ہے کہ صحافیوں کو ’’برداشت‘‘ کرنا ہوتا ہے۔ حیرت مگر اس حقیقت پر ہوئی کہ حفیظ شیخ جیسے ’’منے پرونے‘‘ ٹیکنوکریٹ ہوتے ہوئے بھی FBRکے نئے چیئرمین، مشیر اطلاعات اور وزیر ریونیو کے ساتھ پریس کانفرنس میں بیٹھے رہے۔
شبر زیدی مگر پرائیویٹ سیکٹرسے آئے ہیں۔ انہوں نے ٹیکس کے معاملات سنبھالتے ہوئے اپنا کاروبارچمکایا۔ ورلڈ بینک اور IMFوغیرہ میں نوکری نہیں کی۔ اس وجہ سے وہ "Global Technocrat”نہیں۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر موجودہ مقام تک پہنچے ہیں۔ دھندے کے آدمی ہیں۔ Clientکی تشفی کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ چیئرمین FBRکا منصب سنبھالنے کے بعد انہیں اپنی ذمہ داریاں بخیر و خوبی سرانجام دینے کے لئے میڈیا کی بدولت عوامی رابطے میں رہنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ صاحب کو ایسی کوئی مجبوری لاحق نہیں۔
شیخ صاحب بیرون ملک اطمینان سے بیٹھے Consultancy کے ذریعے آرام دہ زندگی گزاررہے تھے۔ مشرف دور میں سندھ حکومت کے وزیر خزانہ بنائے جانے سے قبل ورلڈ بینک سے وابستہ تھے۔ اس سے قبل بوسٹن اور ہارورڈجیسی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ نوکری ان کی مجبوری نہیں۔ حکومتِ پاکستان ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کو مجبور ہوئی۔
یہ مجبوری 2010میں آصف علی زرداری کو بھی محسوس ہوئی تھی۔ شوکت ترین نے ان کی یوسف رضا گیلانی کی بطور وزیراعظم بنی حکومت کے لئے IMFکا پیکیج حاصل کیا تھا۔یہ پیکیج حاصل کرنے کے بعد ترین صاحب نے مگر محسوس کیا کہ ’’سیاسی دبائو‘‘ کے باعث وہ اس پر کماحقہ عمل درآمد نہ کرپائیں گے۔ اپنی محدودات جان کر خاموشی سے مستعفی ہو کر اپنا بینک چلانے میں مصروف ہوگئے۔ آئی ایم ایف کے اطمینان کے لئے حفیظ شیخ صاحب کو ان کی جگہ لانا پڑا۔ ڈھائی برس سے زائد عرصہ تک وہ یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ RGSTکا نفاذ مگر گلے کی پھانسی ثابت ہوا۔ دِق ہوکر مستعفی ہوگئے۔
عمران خان صاحب کی حکومت کو ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لئے اقتدار سنبھالنے کے نوماہ بعد بالآخر IMFسے بیل آئوٹ پیکیج کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس سے قبل اس حکومت کو یہ زعم تھا کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوستوں کی معاونت سے پاکستان کی ملکی معیشت کو سنبھالا جا سکتا ہے۔
IMFکے نخرے اٹھانے کی ضرورت نہیں۔وزیر اعظم کے دیرینہ ساتھی-اسدعمر- اس گماں میںمبتلا رہے کہ آئی ایم ایف کی معاونت کے بغیر ہی وہ ’’مریض (یعنی پاکستانی معیشت)کو ICUسے باہر‘‘ نکال لائے ہیں۔ ’’مریض‘‘ مگر جنرل وارڈمیں چند روز بھی اطمینان سے گزار نہیں پایا۔ اس کے سانس اُکھڑنے لگے۔ دوبارہ ICUمیں چلا گیا۔ اسد عمر صاحب کا نسخہ ایک بار پھر آزمانے کا رسک نہیں لیا جا سکتا تھا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ سے رجوع کرنا پڑا۔ انہوں نے وزارتِ خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی فقط چھ ہفتوں کے دوران IMFسے بیل آئوٹ پیکیج کے معاملات طے کرلئے۔
وزیراعظم کی نظر میں انہوں نے جو ممکن تھا Deleverکر دیا ہے۔ حفیظ شیخ کے لئے اپنے باس کو ڈیلیور کرنے کے بعد اب ضروری نہیں کہ وہ پریس کانفرنسوں میں بیٹھ کر ’’رولا‘‘ مچاتے رپورٹروں کے سوالات کا جواب دیں۔ یہ فریضہ فردوس عاشق اعوان اور حماد اظہر جیسے Home Made سیاست دانوں کو سرانجام دینا ہوگا۔ اس ضمن میں شبر زیدی جیسے میڈیا فرینڈلی ٹیکنوکریٹ کی معاونت حیران کن حد تک خوش گوار اضافہ ہے۔ میرے نوجوان ساتھیوں کو اور کیا چاہیے؟
یہ کالم ختم کرنے سے قبل اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ حفیظ شیخ صاحب کو ذاتی طورپر میں پسند کرتا ہوں۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والی خود میں مگن شخصیت ہیں۔ دو نمبر ہیلو ہائے پر یقین نہیں رکھتے۔ مختصر بات کرتے ہیں اور عموماََ خاموش طبع۔ ایک بار مگر انہوں نے اپنے گھر بلاکر مجھے بہت تفصیل سے بتایا تھا کہ وہ جیکب آباد کے کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کے والد پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں شامل تھے۔ بھٹو صاحب کو بلکہ جیکب آباد حفیظ شیخ کے والد عبدالنبی شیخ صاحب نے پہلی بار اس وقت مدعو کیا تھاجب اس شہر کے نامی گرامی وڈیرے ایوب خان کے ’’باغی‘‘ ہوئے ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی کتراتے تھے۔
ضیاء دور میں سیاست دانوں کے ساتھ جو ہوا اس کی وجہ سے حفیظ شیخ نے دل ہی دل میں محض ’’ٹیکنوکریٹ‘‘ ہونے کی ٹھان لی۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ اپنی یکسوئی اور محنت سے انہوں نے بالآخر یہ مقام حاصل کر لیا۔ اسی باعث جنرل ضیاء کے کئی برس بعد آئے جنرل مشرف کو بالآخر ان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وطن کی خدمت کرنے وہ یہاں لوٹ آئے۔ آصف علی زرداری کی مدد کو بھی شاید اسی خاطر تیار ہو گئے۔ اب عمران خان کو ان کی ضرورت ہے۔ میرے نوجوان ساتھیوں نے اگر شیخ صاحب کو اپنے سوالات سے پریشان کردیا تو وہ عمران حکومت کو مشکل وقت سے نکالنے پر توجہ نہیں دے پائیں گے۔