لوک سبھا انتخابات کا اونٹ ڈیڑھ سے دو ماہ تک بھارت کے کونے کونے میں دندناتے پھرنے کے بعد ‘ چند روز میں کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ جائے گا اور پھر دِلّی کے اقتدار پر ایک نئی حکومت براجمان ہو جائے گی‘ لیکن انتخابات کے بحر بیکراں کی موجوں سے اٹھنے والی سیاسی ریشہ دوانیوں کی جھاگ کے بیٹھ جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی سیاسی رگوں میں انتخابی تلخیوں کا زہر اتنا زیادہ گھول رکھا ہے کہ اگلی کیا‘ اس کے بعد آنے والی حکومتوں کی بے چینیوں اور شور شرابے میںبھی کمی نہیں آئے گی۔ دلوں کی کدورتیں اگر ”بدلے کی سیاست‘‘ میں بدل گئیں تو تھوڑے بہت بچے اچھے دنوں کو بھی برے دنوں میں تبدیل ہونے سے روکنا تقریباً نا ممکن ہو گا۔
سیاسی لیڈروں میں ”سمجھ بوجھ‘‘ کی کمی نہیں ہوتی‘ لیکن جب ان کے سروں پر انتخابی سودا سوار ہوتا ہے تو عام لیڈر سے لے کر پی ایم اور سی ایم تک‘ سبھی سیر سے سوا سیر بن جاتے ہیں او راپنے سیاسی حریف کو پٹخنی دینے میں کوئی بھی دائو آزمانے میں کسر نہیں اٹھا رکھتے۔ مغربی بنگال کے انتخابی نقشے پر ایسی صورت حال کے نمونے اس بار کچھ زیادہ ہی ابھرے ہیں‘ جس کی بنیادی وجہ اس کے سوا کچھ اور انہیں کہ ا یک طرف یو پی اور مہاراشٹر کے بعد سب سے زیادہ42سیٹیں دینے والی اس ریاست پر ‘ مودی اینڈ کمپنی نے اپنی نگاہیں بری طرح گاڑ رکھی ہیں‘ تو دوسری طرف ان نگاہوں کی کاٹ کے لئے بنگال کی شیرنی بھی گلا پھاڑ کر دھاڑ رہی ہے۔
قدرت کا قہر عام طور پر انسانوں اور جانوروں کو ایک جگہ جمع کر دیتا ہے‘ لیکن سیاست کے گورکھ دھندے نے انسانوں کو انسانو ں سے دور کر دیا ہے۔ روا ں لوک سبھا انتخابات کے دوران ”فینی‘‘ طوفان نے اڑیسہ اور مغربی بنگال کو پھن کیا مارا کہ سیاست کے نئے در کھل گئے۔ طوفان کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کے لئے اڑیسہ میں مودی کی سربراہی میں میٹنگ بلائی گئی‘ جس میں مغربی بنگال حکومت کے سینئر افسران کو بھی مدعو کیا گیا‘ لیکن ریاست میں؛ چونکہ چھ مئی کو پولنگ سر پر تھی‘ اس لئے بنگال حکومت نے شرکت سے انکار کر دیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی ‘بلکہ اس کا ٹھیکرا اکلوتی اپوزیشن لیڈر‘ ممتا بینر جی نے نریندر مودی کو تلخ جواب دیتا ہوئے کہا کہ میں ایکسپائری وزیراعظم کے ساتھ کیوں بیٹھوں؟
بنگال جب سیلاب سے متاثر تھا‘ تو اس وقت مودی خاموش رہے اور آج ”فینی‘‘ طوفان پر سیاست کر رہے ہیں۔ میں طوفان کی وجہ سے کھڑگپور میں رہ کر نگرانی کر رہی تھی‘ مگر مودی نمبر بنانے کے چکر میں‘ مجھے کولکتہ سیکرٹریٹ میں فون کر رہے تھے۔ یہ اس لئے کہ یہاں انتخاب ہے اور وہ اس کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے تھے‘جبکہ مودی نے بلدیہ کی ایک انتخابی ریلی میں نشانہ باندھتے ہوئے کہا کہ سپیڈ بریکر دیدی”فینی‘‘ طوفان پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آئی۔ میں نے ان سے کئی بار ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کی کوشش کی‘ مگر انہوں نے غرور کی وجہ سے مجھے گھاس نہ ڈالی اور فون تک ریسیونہ کیا۔اس تجاہل عارفانہ پر جتنا بھی سر دھنا جائے کم ہے۔
کس خوبی کے ساتھ طوفان کا رخ سیاسی فائدے کی جانب موڑ لیا گیا ؟ کوئی بتلائے کہ طوفان پر سیاست کا طوفان کون اٹھا رہا ہے؟ دیدی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ مودی کے خلاف1942ء کی ”انگریزو! بھارت چھوڑو‘‘ جیسی تحریک بھی چھیڑ دی اور مدنی پور کے گھٹال میں انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیاکہ ”مودی !تم بھارت چھوڑو‘‘۔ دیدی نے کہا کہ ملک کا سب سے بڑامسئلہ خود وزیراعظم مودی ہے۔اس لئے بی جے پی کو ملک سے سیاسی طور پر بے د خل کرنے کا وقت آگیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ”میں نے کئی وزرائے اعظم دیکھے ہیں‘ مگر مودی جیسا جھوٹا‘ مکار اور فریبی وزیراعظم نہیں دیکھا‘‘۔ وہ نوجوانوں کے دماغ پر غلط انداز سے اثر انداز ہو رہا ہے؛ اگر مودی دوبارہ اقتدار میں آگیا تو ملک تباہ ہو جائے گا۔ تاریخ کو بدل دے گا۔ آئین اور جغرافیے کو بھی اپنی اصل حالت میں نہیں رہنے دے گا۔مودی کو جمہوریت کا زور آور طمانچہ لگناچاہیے۔ بشنو پور لوک سبھا حلقے سے انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ممتا بینر جی نے کہا کہ ”آپ مجھے تو لا باز‘‘ کہہ کر بلا رہے ہیں ۔
اگر میں تو لاباز ہوں تو آپ اوپر سے نیچے تک فساد متاثرین کے خون سے لت پت ہیں۔ میں تو لوگوں کے خون ہو نے سے بچاتی ہیں اور مودی تم نے کیا کیا ہے؟ مودی نے اپنے انتخابی حلف نامے میں اپنی اہلیہ کا ذکر نہیں کیا‘جو شخص اپنی اہلیہ کو اچھے طریقے سے نہیں رکھ سکا‘ وہ ملک کی کیا بات کرے گا؟ ہاف پینٹ میں گھومنے والے لوگ آج روپے کا باکس لے کر گھوم رہے ہیں۔اس واقعے کے پس منظر میں مودی نے بلدیہ کی ریلی میں کہا کہ دیدی !ان دنوں جے شری رام کے نعرے لگانے والوں کو بھی جیل میں ڈلوا رہی ہے‘ جبکہ امیت شاہ نے گھٹال کی ریلی میں کہا کہ میں ممتا بینر جی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ رام کا نام لوگ ہندوستان میں نہیں لیں گے تو کیا پڑوسی ملک میں جا کر لیں گے‘ جبکہ بی جے پی لیڈر‘ کیلاش ورگیہ کا کہنا تھا کہ ممتا بینر جی کو جے شری رام کا نعرہ پسند نہیں ہے۔ اس لئے ان لوگوں کے خلاف پولیس کارروائی کرائی گئی۔