گزشتہ مہینے کا واقعہ ہے کہ میں اسلام آباد کے ایک بڑے پرائیویٹ ہسپتال کے مشہور ہارٹ سرجن کے پاس بیٹھا تھا کہ ان کو انٹرکام پر ایک کال موصول ہوئی ۔ انہوں نے مجھ سے ایمرجنسی کا کہہ کر معذرت کی اور انتظار کا کہہ کر کمرے سے نکل گئے۔ ایک گھنٹہ انتظار کے دوران مجھے بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب آپریشن تھیٹر میں ایک ایمرجنسی آپریشن میں مصروف ہیں ۔ قریب دو گھنٹے کے بعد وہ واپس آئے تو بہت ہشاش بشاش نظر آئے ۔ چہرے پر بھی تازگی تھی ۔ مجھے تعجب ہوا کہ ایمرجنسی آپریشن کے بعد ان کے چہرے پر تھکاوٹ کی بجائے خوشی کے آثار تھے۔ میرے استفسار پر انہوں نے کہا کہ جب کسی مریض کی جان بچ جاتی ہے تو دل خوش ہو جاتا ہے ۔
ساتھ ہی انہوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور خود کلامی کرتے ہوئے کہنے لگے ۔ اف یہ صحافی ! اس بات پر میرے کان کھڑے ہونا قدرتی امر تھا ۔ میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب ۔ خیریت ہے ؟ صحافیوں نے کیا کر دیا۔ کہنے لگے کہ یہ ایمرجنسی مریض ایک سرکاری ہسپتال میں تھا ۔ جہاں سے مجھے کال موصول ہوئی ۔ کال پر وہاں کے ڈاکٹر نے بتایا کہ مریض کی حالت بہت خراب ہے اور اس کی فورا سرجری کی جانی چاہئے ۔ لیکن سرکاری ہسپتال میں سہولت میسر نہیں ہے۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ آپ مریض کو بھجوا دیں ۔ میں اللہ کی مدد سے جو بھی ممکن ہوا ۔ کوشش کروں گا ۔ ڈاکٹر نے مزید وضاحت کی کہ مریض کے بھائی نے بتایا ہے کہ مریض صحافی ہے اور وہ انشورنس کے زریعے پرائیویٹ ہسپتال کا خرچہ برداشت کر سکتا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ لفظ ”صحافی” سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا کہ کہ یہ تو مسئلہ ہو گا ۔ یہ صحافی لوگ خطرناک ہیں ان کا علاج کرنا تو خود کو مصیبت میں ڈالنا ہے ۔ بہرحال میں نے مریض کے بھائی سے تحریری طور پر الگ سے گارنٹی لکھوائی کہ اگر مریض کو ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقل کرنے اور پھر یہاں علاج کے دوران خدانخواستہ کچھ مسئلہ ہوا تو ڈاکٹر یا ہسپتال بری الذمہ ہوں گے ۔ کیونکہ مریض کی حالت بہت خراب تھی اور اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ سر یہ معاملہ تو کس بھی مریض کے ساتھ ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے حالیہ واقعات کے بعد ہم صحافیوں اور وکیلوں کے علاج سے ڈرتے ہیں ۔ ہر ڈاکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے پاس کوئی مریض آئے تو کسی نہ کسی طرح ان کی جان بچ جائے ۔ لیکن صحافیوں اور وکیلوں کے معاملے میں مریض کا تعارف مریض کی حیثیت سے نہیں بلکہ ان کے پیشے کی حیثیت سے ہوتا ہے ۔ علاج سے پہلے ہی یہ ایک طرح کی دھمکی ملتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب زرا توجہ سے ہاتھ چلایئے گا کیونکہ مریض صحافی یا وکیل ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اس کا اثر ہمارے ینگ ڈاکٹرز پر بھی پڑا ہے جو آئے روز ایمرجنسی بند کر کے ہڑتال شروع کر دیتے ہیں ۔
اس صورتحال میں تینوں شعبوں یعنی صحافت ، وکالت اور میڈیکل سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔