لگتا ہے وہی جیت رہے ہیں جنہوں نے اس ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور سب کچھ لوٹ کر باہر لے گئے ہیں ۔ وہی منیر نیازی والی بات کہ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے کہ کوئی ایک کام بھی سیدھا نہیں ہوتا ۔ زرداری صاحب نے کھل کر بات کر دی ہے کہ اس ملک میں نیب اور اکانومی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ بات تاجروں‘ چیئرمین نیب اور وزیراعظم کو بھی سمجھا دی ہے۔ مطلب ہم لوٹتے رہیں گے اور آپ لٹتے رہیں گے‘ اگر اس ملک میں سانسیں لینی ہیں ورنہ ہم آپ کا جینا حرام کردیں گے۔
یہ دبائو ایسا کام کر گیا ہے کہ نیب چیئر مین نے کچھ دن پہلے ایک طویل پریس کانفرنس میں تفصیل سے بتایا تھاکہ اب کاروباری حضرات پریشان نہ ہوں انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ وہ اربوں روپے عوام سے فون کارڈز پر ٹیکس اکٹھا کرنے کے بعد جمع نہ کرائیں تو بھی انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ ریسٹو رنٹس مالکان کھانے کے بل پر جی ایس ٹی عوام سے لے کر خود کھا جائیں ‘ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ چیئر مین ایف بی آر شبر زیدی پہلے ہی اس طرح کے اقدامات کرچکے ہیں جن کے بعد ان کا خیال ہے سب تاجر انہیں گھر بیٹھے ٹیکس دیں گے۔ یہ سب باتیں سن کر ہنسی ضرور آتی ہے۔
اسلام آباد میں 1998ء سے صحافت کررہا ہوں اور ان اکیس برسوں میں یہی باتیں سنتا آیا ہوں ۔ جنرل مشرف نے بھی کہا تھا کہ وہ تاجروں کو سیلز ٹیکس کے دائرے میں لائیں گے اورنیب کے ذریعے سب لوگوں کو لگام دیں گے‘ مگر دو تین ماہ بعد ہی عقل ٹھکانے پر آگئی ۔ تاجروں نے ہڑتال کر دی ۔ بڑے بڑے تاجر جنرل مشرف اور شوکت عزیز سے ملے اور یہی تسلی کرائی کہ جناب آپ گھر بیٹھیں‘ ہم آپ کو ٹیکس دیں گے اور پھر نت نئے طریقے ڈھونڈ نکالے گئے ٹیکس چوری کے۔ ایف بی آر اور تاجر ساتھ مل گئے اور ٹیکس فراڈ کی نئی کہانیوں نے جنم لیا۔
جنرل مشرف کو پتہ چل گیا کہ اقتدار کی طوالت چاہتے ہیں تو کرپٹ اور کرپشن کو برداشت کرنا ہوگا ۔ انہوںنے چیئر مین نیب جنرل امجد کو پہلے کہا سیاستدانوں کو ٹائٹ کرو اور پھر انہیں ہٹا کر جنرل خالد مقبول کو لگا دیا کہ اب ذرا ہلکا کرو۔ پھر سب کو ڈیلیں ملنا شروع ہوگئیں ۔ ایک ملزم نے نیب کے دو چیئر مینوں کو اپنے کاروبار میں حصہ دار بنا لیا اور پلی بارگین لے لی۔ جو افسران پلی بارگین کے شعبے میں کام کررہے تھے انہوں نے بھی اپنا حصہ وصول کیا۔ وہ کاروباری کنگ بعد میں جنرل مشرف کا رائٹ ہینڈ بن گیا ۔ وہ جانتا تھا کہ ہر بندے کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ایک اہم ادارے کے سابق سربراہ ایک ایسے کاروباری سیاستدان کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ملازم ہو گئے تھے جس کے خلاف نیب میں کرپشن کے مقدمات درج تھے ۔
اس ملک میں جو بھی چیئر مین نیب لگا ہے وہ انصاف کرنے کے لیے نہیں بلکہ حکمرانوں کی مدد کرنے کے لیے لگا ہے۔ کرپٹ کو اس لیے نہیں پکڑا گیا کہ اسے سزا دلوانی تھی بلکہ اس لیے پکڑا گیا کہ حکمران اس سے سیاسی فائدہ لے سکیں۔ جنرل مشرف نے درجنوں کرپٹ سیاستدانوں کو پکڑا لیکن آخر میں پنجاب انہی کے حوالے کیا جو پنجاب کے بڑے ڈاکو کہلوائے۔ بچ جانے والوںکو وفاق میں جمالی اور شوکت عزیز کے ساتھ کابینہ میں بٹھا دیا۔ اس کے بعد سیاستدانوں کی باری لگی تو انہوںنے ایسا چیئر مین بھرتی کیا جو سپریم کورٹ میں ان کے خلاف مقدمات لڑنے کی بجائے زرداری کے مقدمات کا دفاع کرتا تھا۔
نیب کا ایک پراسیکیوٹر‘ جس کا کام تھا کہ وہ مقدمے میں سزا دلواتا ‘وہ زرداری کا کھیل کھیل رہا تھا‘ اسے بعد میں سندھ میں جج لگوادیا گیا۔ نواز شریف بدقسمت رہے کہ ان کا پانامہ سکینڈل آگیا ورنہ انہوں نے بھی ہر جگہ اپنا بندوبست پورا کررکھا تھا۔ اس دفعہ تقدیر کو خود ہی مداخلت کرنا پڑی ورنہ اس سسٹم میں نواز شریف کو سزائیں دلوانا عام انسان کے بس کی بات نہ تھی ۔ اگر کسی نے اس ملک میں سب کو اپنی جیب میں ڈالا ہوا تھا تو وہ شریف خاندان ہے۔
ابھی بھی انہیں اپنی دولت اور ذہانت پر بھروسہ ہے کہ وہ اس مشکل سے نکل کر پھر سر پر تاج سجائیں گے۔ سرکاری ادارے لاکھ پروپیگنڈا کریں کہ آئندہ شریف خاندان اقتدار میں نہیں آسکے گا ‘ لیکن میں ماننے کو تیار نہیں ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ زرداری اور بینظیر بھٹو کو اگر جنرل مشرف کی طرف سے این آر او مل گیا تھا کہ جو کچھ تم نے لوٹا وہ تمہارا بس ہمارے ساتھ پاور شیئر کرو۔ کچھ لے لو اور کچھ دے دو۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی جنرل کیانی کے ساتھ کی گئی درجنوں خفیہ ملاقاتوں نے نواز شریف کے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی تھی۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ عمران خان بھی اقتدار میں آنے کے لیے انہیں راستوں پر چلتے رہے تھے‘ جس کا اعتراف بعد میں کیا گیا ۔ سیاستدانوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ بغیر مدد کے اقتدار میں نہیں آسکتے۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو تعاون کے بغیر پاور میں آیا ہو‘ لہٰذا اگر کسی کے دل میں انسانوںپر حکومت کرنے کا جنون سوار ہورہا ہو تو اسے پہلے خفیہ ملاقاتیں کرنا پڑتی ہیں ۔
اب عمران خان کو اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کی کمزوری کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سب اخلاقی جواز کھو چکے ہیں جن کو بنیاد بنا کر وہ پاپولر ہوئے تھے اور سب سمجھ بیٹھے تھے کہ عمران خان مختلف ہیں ۔ عمران زرداری اور شریف خاندان جیسی سیاست نہیں کرتے۔ اب پتہ چلا ہے کہ عمران خان کی بھی وہی حیثیت ہے جو جنرل مشرف دور میں ظفراللہ جمالی‘ شوکت عزیز یا زرداری دور میں گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی تھی یا پھر نواز شریف دور میں شاہد خاقان عباسی کی تھی۔ عمران خان بھی اس طرح کے وزیراعظم کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جیسے جمالی‘ شوکت عزیز‘ گیلانی راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی کو یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے سوشل میڈیا پر حامی لاکھ انہیں دنیا کا بہترین حکمران بنا کر پیش کرتے رہیں بات نہیں بنے گی ۔ چکوال کے تھانوں کا چکر لگاتے دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان بھی آخرکار شہباز شریف ماڈل پر چل نکلے ہیں اور بھلا کیسے ممکن ہے کہ انجام بھی وہی نہ ہو۔
پولیس ریفارمز عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ تھا اور جب پنجاب ہی انہوں نے ان کو سونپ دیا جنہیں وہ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے تو اس کے بعد ان کے حامیوں کا ان سے اصلاحات یا تبدیلیوں کی توقع رکھنا فضول ہے۔
اب یہ بھی سن لیں‘ اس ملک کے مفادات کا کیسے تحفظ کیا جاتا ہے؟ جب آئی ایم ایف کے ساتھ نئے وزیر خزانہ نے مذاکرات شروع کئے تو سیکرٹری نے ایک مرحلے پر محسوس کیا کہ نئے وزیرخزانہ ایسی شرائط بھی مان رہے تھے جن سے اسد عمر کے دورمیں آئی ایم ایف خود پیچھے ہٹ گئی تھی۔ سیکرٹری خزانہ نے مذاکرات میں اس پر اعتراض کیا اور آئی ایم ایف کو یاد کرایا گیا کہ یہ شرائط شامل نہیں تھیں ۔ وزیرخزانہ کو وہ شرائط مانتے دیکھ کر یونس ڈھاگا وزیراعظم ہاؤس گئے اور ایک طاقتور بیوروکریٹ کو بتایا گیا کہ اگر یہ شرائط مان لی گئیں تو ہمارا بہت برا حال ہوگا۔ یہ شرائط ملک اور لوگوں کے مفاد میں نہیں ہیں۔ الٹا انہی کو برطرف کرا دیا گیا۔
زرداری کی کرپشن پر اعتراض کریں تو جواب ملتا ہے: کھایا ہے تو گیارہ برس جیل بھی کاٹی ہے۔ شریف خاندان کے حامی فرماتے ہیں کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں جبکہ عمران خان کے حامی یہ کہہ کر منہ بند کرادیتے ہیں کہ جانے دیں جی ہمارا وزیراعظم تو ہینڈسم اور سمارٹ ہی بہت ہے!