اسلام آباد سے بیجنگ تک کی پرواز PK-852، 16 جون کو رات دس بج کر پچاس منٹ پر روانہ ہوکر اگلے دن صبح سات بجے بیجنگ پہنچنا تھی۔ یعنی اگر وقت کے فرق کے تین گھنٹے درمیان سے نکال دیے جائیں تو کل دورانیہ پانچ گھنٹے بنتا تھا۔
اب اس بات پر پی آئی اے کے لیے داد بنتی ہے کہ ہر کام اپنے مقررہ وقت پر شروع اور ختم ہوا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے رائٹرز ہاؤس میں ہم چاروں مندوبین یعنی اکادمی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راشد حمید، ڈاکٹر ابراہیم ادل سومرو، محترمہ بشریٰ فرخ اور میں شام چھ بجے چائے پر اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا کہ باقی کے تینوں ساتھی پہلی بار چین جا رہے ہیں۔
سو وہیں بیٹھے بیٹھے مجھے وفد کا اعزازی سربراہ اور گائیڈ مقرر کردیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ میرے سمجھانے کے باوجود کہ ایئر لائن والے چار گھنٹے پہلے آنے کی تاکید از راہِ احتیاط کرتے ہیں ورنہ دو گھنٹے کا مارجن بہت مناسب ہوتا ہے۔ ہمارا قافلہ چار گھنٹے قبل ایئرپورٹ پہنچ گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ پی آئی اے کے عملے کی خصوصی محبت اور توجہ کے باعث بورڈنگ سے قبل کے تمام معاملات پندرہ بیس منٹ کے اندر اندر نمٹ گئے اور اب سوائے وی آئی پی لاؤنج میں خوامخواہ کھانے پینے اور پاک بھارت کرکٹ میچ دیکھنے کے ہمارے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ سو ہم نے بہت سی باتیں اس طرح سے کیں کہ
بات وہ کرتے رہے ہم جس کا مطلب کچھ نہیں
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کا مطلب کچھ نہیں
آرام دہ سیٹوں اور ہموار پرواز کے باوجود نیند تو ایک طرف رہی ڈھنگ سے غنودگی بھی کسی کے قریب نہیں پھٹکی اور ہم سب ایسے ہشاش بشاش جہاز سے اترے کہ جیسے پانچ گھنٹے پانچ منٹ میں گزرگئے ہوں لیکن یہ سرخوشی بس یہیں تک تھی۔ بیجنگ کے ہوائی اڈے کی جو تصویر میرے ذہن میں محفوظ تھی یہ نیا ایئرپورٹ اس سے کئی گنا بڑا اور بے حد مختلف تھا۔
امیگریشن کاؤنٹرز تین چوتھائی سے زیادہ خالی تھے اور ہم سے آگے تقریباً ستر اسی لوگ قطاروں میں موجود تھے۔ معلوم ہوا کہ قطار میں لگنے سے قبل ابھی دو مزید مرحلے باقی ہیں۔ پہلے ہمیں خود کار مشینوں پر اپنے پاسپورٹ کے اندراج اور بائیو میٹرکس کے عمل سے گزرنا تھا اور اس کے بعد دوسری طرف رکھے گئے امیگریشن فارمز کو مکمل طریقے سے بھرنا تھا۔ دونوں ہی کام خاصے دقت طلب تھے۔
سو ہوا یوں کہ اس دوران میں پچاس ساٹھ مزید مسافر ہم سے پہلے لائن میں لگ گئے۔ کاؤنٹرز کی کمی اور متعلقہ عملے کی سستی کے باعث دس منٹ میں صرف پانچ لوگ ہی بھگتائے جاسکے۔ حساب لگایا تو جواب بہت حوصلہ شکن تھا کہ ہماری باری ڈیڑھ سے دو گھنٹے کے درمیان آسکتی تھی اور یہ بھی علم تھا کہ یہاں میزبانوں یا سفارت خانے کے عملے کو مدد کے لیے اندر آنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔
سیکیورٹی اور انتظامیہ کے بیشتر افراد کو یا تو انگریزی آتی نہیں تھی یا وہ اس کا استعمال فضول خرچی سمجھتے تھے۔ بڑی کوشش اور مشکل سے ایک لڑکی کو یہ سمجھانے میں تو کامیاب ہوگئے کہ ہم اس کی حکومت کے مہمان اور پاکستان سے سرکاری وفد کی شکل میں آئے ہوئے لکھاری ہیں۔ مگر اس کے چہرے کے اسپاٹ پن میں رتی برابر کمی نہیں آئی۔
اتفاق سے ڈاکٹر راشد حمید کے پاس نیلا پاسپورٹ تھا جو اعلیٰ سرکاری افسروں یا سفارت کاروں کو ایشو ہوتا ہے اس نے چند لمحے پاسپورٹ اور ڈاکٹر راشد حمید کی طرف غور سے دیکھا اور پھر بولی ’’تم ڈپلومیٹ ہو؟‘‘ ہم نے ایک بار پھر اس کو باور کرانے کی کوشش کی کہ لکھاری اور فن کار اپنے ملکوں کے ڈپلومیٹ ہی ہوتے ہیں۔ سو ہمیں اسی کیٹگری میں شامل سمجھو۔
اب پتہ نہیں کہ اسے پاسپورٹ یا ہماری بات میں سے کس کا رنگ پسند آیا اس نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور قدرے فاصلے پر ایک ایسے کاؤنٹر کے پاس لے گئی جہاں صرف دو لوگ ہم سے آگے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ متعلقہ افسر کی سست روی کے باعث کم از کم پندرہ منٹ میں فراغت ہوئی جو اس وقت اور بھی زیادہ لمبے لگے مگر یہ خیال بہت خوش کن تھا کہ بصورت دیگر شائد اس سے دس گنا وقت بھی کم پڑجاتا۔
کسٹمز کے سبز والے راستے سے باہر نکلے تو میزبانوں جیسی کوئی شکل دور دور تک نظر نہ آئی، کچھ لوگ ہاتھوں میں پلے کارڈ لیے کھڑے تھے مگر ان میں سے بھی کسی پر ہمارا یا اکادمی ادبیات کا نام نظر نہیں آیا۔ مگر اس سے پہلے کہ ہماری پریشانی شدت اختیار کرتی ایک نوجوان سا شخص مسکراتا ہوا ہماری طرف بڑھا اور بتایا کہ وہ پاکستان ایمبیسی کی طرف سے ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے آیا ہے۔
ہم نے اس کا اور سفارتخانے کا ایک ساتھ شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جب تک متعلقہ منتظمین سے رابطہ نہیں ہوتا ہم اس کی محبت اور خدمات کسی سے بھی فائدہ نہیں اٹھاسکتے کہ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ کہ جانا کہاں ہے۔ آپ زحمت کرو اور کسی طرح سے ان سے ہمیں ملوا دو۔ ذوالفقار نامی یہ نوجوان بہت سمجھدار تھا اس نے ہمیں ایک جگہ بٹھایا اور کہا کہ وہ کچھ کرتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ سوٹی نامی وہ چینی لڑکی بھی تھی جو ہمارے استقبال کے لیے بھیجی گئی تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ جو پلے کارڈ لیے کھڑی تھی اس کی عبارت کا کوئی تعلق ہم سے بنتا ہی نہیں تھا۔ وہ گزارے لائق انگریزی تو جانتی تھی مگر اردو کا اسے ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا اور ادب کے ساتھ تو اس کا واجبی سا تعلق بھی نہیں تھا۔ البتہ اس کی سادگی، مسکراہٹ اور انتظامی صلاحیت ایسی عمدہ تھی کہ آیندہ چند گھنٹوں میں ہم اس کے ساتھ ویسی ہی بے تکلفی اور آسانی سے بات چیت کرنے لگے جیسی ہمیں پروفیسر تھانگ کے ساتھ اردو میںگفتگو کرکے حاصل ہوئی تھی۔
ہمارا قیام He Pingli ہی پنگ لی نامی ہوٹل میں تھا جو سٹی سینٹر میں واقع تھا اور جہاں تک پہنچنے میں ہمیں مزید ایک گھنٹہ لگ گیا کہ اس وقت صبح کی ٹریفک اپنے پورے زوروں پر تھی۔ ناشتے کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ سوٹی اور اس کے ساتھی لی کے مشورے سے یہی طے پایا کہ دوپہر کا کھانا بارہ بجے کے بجائے آدھ گھنٹہ قبل کھا لیا جائے۔ گزشتہ دورے کے دوران پتہ چلا تھا کہ عام طور پر چینی لوگ دن میں دو کھانے صبح چھ بجے اور شام سات بجے کھاتے ہیں اور لنچ کا اہتمام عام طور پر صرف غیر ملکی مہمانوں کے لیے کیا جاتا تھا لیکن ان 28 برسوں میں بے شمار دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ ان کی یہ عادت بھی بدلتی جارہی ہے اور اب دوپہر کا کھانا بھی ان کے معمولات میں شامل ہوگیا ہے۔ البتہ ان کے روایتی کھانوں کے اوقات اب بھی وہی پرانے والے ہیں۔
ہمارے قیام کے اس پہلے دن میں صرف ٹمپل آف ہیون کی سیر کا پروگرام رکھا گیا تھا جس کا تعلق وہاں کی قدیم ثقافت اور تاریخ سے ہے کہ اب عملی طور پر 90% سے زیادہ چینی Pagan یا لامذہب ہیں جب کہ باقی کے دس فی صد میں بت پرست، مسلمان، عیسائی اور دیگر کئی مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں۔
چینی کھانوں کی جو شکل چین میں ملتی ہے وہ پوری دنیا میں رائج مختلف طرح کی چائنیز فوڈ سے بے حد مختلف ہے۔ چینیوں کا کمال یہ ہے کہ وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں اپنی خوراک کو مقامی مزاج، ذائقے اور مصالحوں کے مطابق ڈھال لیتے ہیں مگر خود اپنے ملک میں وہ ابھی تک اپنی روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔