اللہ کے رسولؐ نے مکہ میں قرآن کے ذریعہ توحید کی دعوت کا آغاز کیا‘ تو مکہ کے بُت پرست مشرک دشمنی میں یہاں تک چلے گئے کہ اللہ کے رسولؐ کی زندگی کے خاتمے کی خواہشیں اور باتیں کرنے لگے‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد کریمؐ سے مخاطب ہو کر فرمایا ”صبر کیجئے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم ان لوگوں سے (اگلے جہان کی زندگی اور دنیا میں سخت سزا) کی جو بات کرتے ہیں ‘اس کا کوئی حصہ ہم (اے رسولؐ) آپؐ کو دکھا دیں یا آپؐ کو اپنے پاس بلا لیں (اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا) ‘کیونکہ یہ لوگ بھی ہماری طرف ہی واپس لوٹائے جائیں گے‘‘ (المؤمن:77)۔
قارئین کرام! مذکورہ سورت مکی ہے ‘یعنی مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس سورت کا نمبر40ہے۔ عرب دنیا کے معروف اسلامی سکالر محترم عبدالدائم کحیل جو بنیادی طور پر میکینکل انجینئر ہیں۔ 53سال ان کی عمر ہے۔ امارات کی حکومت انہیں اسلامی خدمات پر انعامات سے نواز چکی ہے۔ دنیا بھر میں قرآن و حدیث کی شرح جدید سائنسی انداز سے کرنے میں وہ اپنا ایک بلند علمی مقام رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مذکورہ سورت قرآن کی چالیسویں سورت ہے۔ اس سے مراد حضورؐ کی زندگی کے چالیس سال ہیں۔ اس میں حضورؐ کے لئے اللہ نے مذکورہ آیت میں جو لفظ استعمال فرمایا ہے‘ وہ ہے؛ ”نتوفینک‘‘ یعنی ہم آپؐ کو اپنے پاس بلا لیں گے۔ قارئین کرام! آئیے! اب ایسے ہی مفہوم کی ایک اور آیت ملاحظہ کریں:
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ سے فرماتے ہیں ”اگر ہم واقعی آپؐ کو اس وعدے کا کوئی حصہ دکھا دیں کہ جن وعدوں کا ہم ان مشرکوں سے ذکر کرتے ہیں یا آپؐ کو اپنے پاس بلا لیں (تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا) آپ کا کام (توحید کی دعوت) پہنچا دینا ہے‘ پھر حساب ان کا ہمارے ذمہ ہے‘‘ (الرّعد:40)۔
قارئین کرام! مذکورہ سورت کا نمبر13ہے۔ محترم عبدالدائم کحیل کہتے ہیں؛ دونوں آیات ایک ہی مفہوم ادا کر رہی ہیں۔ دونوں کے نمبروں کو ملایا جائے تو گنتی 53بنتی ہے۔ آئیے! اسی مفہوم کی اب تیسری اور آخری آیت ملاحظہ کرتے ہیں۔ مولا کریم فرماتے ہیں ”(میرے رسولؐ) وہ وعدہ جو ہم ان (مشرکین) سے کرتے ہیں ‘اس کا کوئی ایک حصہ ہم آپؐ کو دکھا دیں یا آپؐ کو اپنے پاس بلا لیں (تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا) ‘کیونکہ ان لوگوں کی واپسی بھی ہماری طرف ہی ہے‘‘ (یونس:46) ۔
قارئین کرام! مذکورہ تینوں آیات میں ایک ہی مفہوم کی تین آیات ہیں۔ تینوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولؐ کیلئے ”نتوفینک‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ تینوں آیات میں مکہ کے بت پرست مشرکوں کیلئے ایک ہی پیغام ہے اور جی ہاں! مذکورہ تیسری اور آخری آیت کا جس سورت سے تعلق ہے ‘اس کا نمبر10ہے۔
کحیل صاحب کہتے ہیں کہ 53 اور 10مل کر 63 ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حسابی انداز سے ایک جواب دے دیا ہے کہ میرے حبیبؐ کی عمر 63سال ہے۔ قارئین کرام! آئیے‘ اب آپ کو حضور رسول کریمؐ کی مبارک عمر کا ایک اور دلکش نظارہ کرواتے ہیں۔
ہمارے حضورؐ کی زندگی کے خاتمے کی خواہشات اب عملی کوششوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ قرآن نے آگاہ فرمایا کہ ”(میرے نئیؐ!) وہ وقت بھی یاد کرو ‘جب تمہارے خلاف وہ لوگ یہ منصوبہ بنا چکے تھے کہ آپؐ کو قید کر دیں یا زندگی کا خاتمہ کر دیں اور یا پھر جلاوطن کر دیں‘‘ (الانفال:30)۔ جی ہاں! اب جو آیت ہم لکھنے جا رہے ہیں‘ یعنی ترجمہ لکھنے جا رہے ہیں۔ یہ آیت‘ جس سورت سے تعلق رکھتی ہے‘ اس کا نام ”محمدؐ‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”(میرے رسولؐ) آپؐ کا یہ شہر (مکہ جو عرب کا دارالحکومت ہے) وہ کہ جس سے آپ کو نکال دیا گیا ہے۔ تاریخ میں اس کی قوت سے کہیں بڑھ کر بے پناہ قوتوں کے حامل شہر تھے‘ جن کو ہم نے ہلاک کر ڈالا‘ پھر ان (بڑی بڑی پاوروں) کا کوئی مددگار نہ تھا‘‘ (محمدؐ:13)۔
قارئین! مندرجہ بالا آیت کی شرح میں امام المفسرین اسماعیل بن کثیرؒ سمیت پہلے اور دور جدید کے مفسر یہ واقعہ لائے ہیں کہ مکہ سے ہجرت کے لئے نکلتے ہوئے اللہ کے رسولؐ نے مکہ کو مخاطب کر کے کہا ”اللہ کی قسم! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر ہے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے نزدیک تو سب سے بڑھ کر محبوب شہر ہے۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر مجھے تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا‘‘ (ترمذی:3925‘ صحیح‘‘)۔ قرآن کی مذکورہ آیت بتلا رہی ہے کہ اللہ کے رسولؐ پر ہجرت کے دوران یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ ترمذی کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عدیؓ کی مذکورہ حدیث بھی آگاہ کر رہی ہے کہ ہجرت کے دوران ہی مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی ہے۔ بعض مفسرین واضح لکھا ہے کہ ہجرت کے دوران ‘یعنی سفر میں نازل ہوئی ہے۔ کیسا خوبصورت ترین اتفاق ہے کہ مذکورہ آیت جس سورت میں ہے ‘اس کا نام محمدؐ ہے۔ آیت کا نمبر13 ہے۔
نازل ہو رہی ہے تو ہجرت کے سفر میں نازل ہو رہی ہے‘ یعنی حضرت محمد کریمؐ متواتر 13سال اہل مکہ کو دعوت دینے کے بعد اب مکہ سے مہاجر بن کر جا رہے ہیں۔ امام ابن ِکثیر بھی شام کے رہنے والے۔ دمشق کے باسی تھے۔ عبدالدائم کحیل بھی شام کے شہر ادلب کے رہنے والے ہیں۔ دمشق سے تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں‘ مذکورہ آیت کے حروف کو گِنا جائے تو ان کی تعداد 53بنتی ہے۔ ہجرت کے وقت اللہ کے رسولؐ کی یہی عمر مبارک تھی۔ چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی۔ 13سال دعوت دی۔
قارئین کرام! سورت محمدؐ کی آیت 13کے حروف آپ بھی گِن سکتے ہیں۔ بس‘ اتنا خیال رہے کہ جس حرف پر شد ہو‘ اس کو ایک ہی شمار کریں ‘کیونکہ عربی گرامر کے لحاظ سے لکھنے میں یہ سنگل ہی لکھا جاتا ہے۔ بولنے میں ڈبل بولا جاتا ہے‘ لہٰذا جب شمار کیا جائے گا تو سنگل ہی شمار کیا جائے گا۔ جی ہاں! میں تو اسے اتفاق نہیں مانتا‘ کیونکہ ہمارے ہاتھوں میں جو قرآن ہے‘ لوحِ محفوظ میں یہی محفوظ ہے۔ حضورؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سورتوں اور آیات کی ترتیب خود کاتبینِ وحی سے لکھوائی ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ میرے حبیبؐ کو 53سال کی عمر میں مکہ سے نکالا جا رہا ہے۔ پوری عمر 63سال ہے۔ باقی دس سال میں قریش کے بت پرستانہ عقیدے اور پورے نظام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہم ان لوگوں کو ہلاک کر ڈالیں گے اور ان کی مدد کو کوئی نہ آئے گا؛ چنانچہ بدر‘ اُحد اور احزاب کے بعد مکہ فتح ہو گیا اور قریشِ مکہ کی مدد کو نہ رومی آئے۔ نہ ایرانی آئے اور نہ ہی یہودی مدد کے قابل ٹھہرے تھے۔ ان کا آخری گڑھ خیبر پہلے ہی شکست سے دوچار ہو چکا تھا۔
لوگو! یاد رکھ لو۔ اللہ تعالیٰ کا ہر ملک اور ہر قوم کے بارے میں ایک ٹائم مقرر ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ ہم نے پاکستان مدینہ منورہ کے طرزِ نظام کے تجربے کے لئے بنایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم حضرت محمد کریمؐ کی مبارک زندگی کہ جس میں رحمت ہی رحمت ہے۔ عدل ہی عدل ہے۔ اخلاق ہی اخلاق ہے‘ اس زندگی کے مطابق پاکستان کو بنا رہے ہیں۔ باتیں ہر کوئی کرتا ہے اور بہت کرتا ہے‘ مگر عمل کہاں ہے؟اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری اور پیارے حبیب اور خلیلؐ کی زندگی کی قسم کھائی ہے۔ قرآن میں یہ واحد قسم ہے‘ جو آخری رسولؐ کی زندگی کی قسم ہے۔ اسے ہمارے لئے نمونہ قرار دیا ہے۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے بھائیو! اہل پاکستان آپ لوگوں سے آپ کے دعوے کے مطابق عملی نمونہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)