دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر

’’میں بے عزتی کو ترسا ہوا تھا‘ میں ایک دن اپنے پرانے محلے میںچلا گیا‘ میں گلی سے گزر رہا تھا‘مجھے اچانک آواز آئی‘ اوئے ظفری کتھے منہ چک کے پھر ریاں‘ بس یہ آواز میرے کانوں میں پڑنے کی دیر تھی‘ میری ساری ٹینشن‘ اینگزائٹی‘ بلڈ پریشر اور شوگر ٹھیک ہو گئی‘ میں خلا سے زمین پر آگیا‘‘۔ وہ مسکرا رہا تھا‘ مجھے وہ بڑے عرصے بعد مطمئن‘ مسرور اور صحت مند دکھائی دیا۔

میں اسے دس سال سے جانتا ہوں‘ یہ سیلف میڈ ارب پتی ہے‘ میڈیکل اسٹور چلاتا تھا‘ پچیس سال پہلے کف سیرپ کی ایک دیوالیہ کمپنی خریدی اور کف سیرپ بنانا شروع کر دیا‘ ملک میں اس وقت ڈسٹ الرجی پھیلی ہوئی تھی‘ لوگوں نے اس کا کف سیرپ استعمال کرنا شروع کیا اور پھر معجزہ ہو گیا‘ یہ لاکھ پتی بنا‘ پھر کروڑ پتی ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گیا‘ دکان فارما سوٹیکل کمپنی میں تبدیل ہو گئی اور یہ دوائیں ایکسپورٹ کرنے لگا۔

میں کہانی آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو دنیا کی خطرناک ترین چیز کے بارے میں بھی بتاتا چلوں‘ دولت دنیا کی خطرناک ترین چیز ہے‘ دنیا میں آج تک ایٹم بم سے اتنے لوگ نہیں مرے جتنے لوگ روزانہ دولت کے ہاتھوں مرتے ہیں‘ انسان کبھی بھوک سے نہیں مرتا‘ کھانے سے مرتا ہے‘ انسان کو غربت نہیں مارتی‘ امارت مارتی ہے اور انسان کبھی ناکام ہو کر بیمار نہیں ہوتا یہ کامیاب ہو کر علیل ہوتا ہے۔

دولت کبھی کسی کے پاس نہیں ٹھہرتی ‘ ہم سب چیک بک ہوتے ہیں‘ دولت آتی ہے اور ہم سے ہو کر آگے نکل جاتی ہے‘ ہم کریڈٹ کارڈ ہیں‘ ہم سب کی ایک کریڈٹ ویلیو ہوتی ہے‘ یہ ویلیو خرچ ہو جاتی ہے اور پھر ہم بلاک ہو جاتے ہیں‘ ہم دولت کماتے ہیں اور یہ چند دن‘ چند ماہ بعد ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے لیکن یہ جاتے جاتے ہمارے چار اثاثے ساتھ لے جاتی ہے‘ یہ ہماری صحت کھا جاتی ہے‘ میں نے آج تک زندگی میں کسی امیر شخص کو صحت مند نہیں دیکھا‘ انسان کی کریڈٹ ویلیو جتنی بڑھتی جاتی ہے یہ اتنا ہی بیمار ہوتا چلا جاتا ہے‘ دنیا بھر کے دولت مند پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے درمیان مر جاتے ہیں یا پھر آخری عمر اسپتالوں اور کلینکس میں گزارتے ہیں۔

دوسرا دولت ہمارے تعلقات کو کھا جاتی ہے‘ ہم لوگ بیٹا‘ باپ‘ بھائی‘ بہن اور بیوی نہیں رہتے‘ ہم اکیلے رہ جاتے ہیں‘ آپ کبھی غریب بھائی کو غریب بہن کے خلاف مقدمہ کرتے نہیں دیکھیں گے لیکن عدالتوں میں آپ کو امیر بچوں‘ باپ‘ بھائیوں اور بہنوں کے ہزاروں مقدمے ملیں گے‘زندگی میں غریب رشتے دار ناراض ہو کر راضی ہو جاتے ہیں مگر امیر رشتے داروں کی لڑائیاں قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتیں چنانچہ دولت آپ کے رشتے کھا جاتی ہے‘ دولت کا تیسرا وار اخلاقیات پر ہوتا ہے۔

آپ کو میلوں تک کوئی امیر شخص بااصول یا با اخلاق نہیں ملے گا ‘ جھوٹ ہو یا مجرے ہوں آپ کو ان کے دائیں بائیں امیر لوگ نظر آئیں گے لہٰذا دولت آپ کی اخلاقیات نگل جاتی ہے اور چوتھا اثاثہ سکون ہے‘ دولت آپ کا سکون چھین لیتی ہے‘ آپ نے زندگی میں بہت کم امیر لوگ مطمئن اور پرسکون دیکھے ہوں گے‘ یہ لوگ ہر وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں اور انھیں نیند لانے کے لیے گولیاں کھانی پڑتی ہیںاور میرے اس دوست کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ یہ پہلے اپنی صحت سے محروم ہوا‘ پھر یہ فیملی میں اکیلا ہوا‘ پھر یہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا اور آخر میں یہ بے سکونی کے بحر بیکراں میں جا گرا‘ یہ مردم بیزار ہو گیا۔

یہ لوگوں کو دیکھتا تھا اور برا سا منہ بنا کر چہرہ دوسری طرف پھیر لیتا تھا‘ یہ زندگی سے بری طرح تنگ آ چکا تھا‘ یہ عمرے بھی کر چکا تھا‘ دنیا بھر کی نعمتیں بھی اپنے اردگرد جمع کر لی تھیں اور اس نے ناچ کود اور لیٹ کر بھی دیکھ لیا تھا لیکن اسے سکون نصیب نہیں ہوا تھا مگر پھر اس میں ایک عجیب تبدیلی آئی‘ یہ زندگی کی طرف واپس لوٹ گیا‘ یہ مطمئن بھی ہو گیا‘ مسرور بھی اور صحت مند بھی اور میں اس سے اس کایا کلپ کی داستان سن رہا تھا۔

وہ بولا ’’میں جی ٹی روڈ پر سفر کر رہا تھا‘ میں اپنے آبائی قصبے کے قریب سے گزرا اور پھر میں نے بریک لگا دی ‘ میں اپنے پرانے محلے میں چلا گیا‘ میں جوں ہی اپنی گلی میں داخل ہوا‘ کسی کونے سے آواز آئی اوئے ظفری‘ کتھے منہ چک کے پھر ریاں‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر میری ساری بیماریاں ختم ہو گئیں‘ وہ میرے بچپن کا دوست مجید تھا‘ ہم اسے مجیدا کہتے تھے‘ اس کا والد بازار میں دہی بھلے کی ریڑھی لگاتا تھا‘ وہ بچپن ہی میں والد کے ساتھ کام پر لگ گیا تھا‘ وہ اپنے گھر سے دہی بھلے چوری کر کے لاتا تھا اور ہم گرائونڈ میں بیٹھ کر کھاتے تھے۔

ہم ایک دوسرے کے ساتھ کشتی بھی لڑتے تھے‘ بھونڈوں (بھڑوں)کے ساتھ دھاگا باندھ کر بھی اڑاتے تھے اور ہم اتوار کے اتوار گلی ڈنڈا بھی کھیلتے تھے‘ وہ مجھے ہمیشہ ظفری کہتا تھا‘ میں ترقی کر گیا‘ میں پہلے بین الاقوامی شہری بنا اور پھر ظفری سے سید ظفرالحق بن گیا‘ لوگ مجھے شاہ صاحب یا ظفر صاحب کہتے تھے‘ دفتر میں میرا نام ایس زیڈ تھا‘ میں نے 40 سال سے کسی کے منہ سے ظفری نہیں سنا تھا لیکن مجیدے نے جوں ہی مجھے ظفری کہا‘ میری خوشیاں مجھے واپس مل گئیں‘ میں ٹھیک ہو گیا‘ مجھے اس وقت محسوس ہوا میں بے عزتی اور بے تکلفی کو ترسا ہوا تھا‘ میری زندگی سے بے تکلف دوست نکل گئے تھے۔

میرے پاس صرف مطلبی رشتے دار‘ مراعات اور تنخواہوں کے پیچھے بھاگتے ملازمین‘ بزنس فرینڈز اور میری موت کے منتظر بچے اور حریص داماد تھے‘ یہ سارے لوگ میرے تھے لیکن یہ میرے نہیں تھے‘ میرے لوگ مجیدے تھے‘ میں مجیدے کو ترس رہا تھا‘ میں اوئے ظفری سننا چاہتا تھا اور یہ میرا اصل مرض تھا‘‘ وہ رکا اور ذرا سا سوچ کر بولا ’’جاوید صاحب انسان کا سب سے بڑا المیہ ان لوگوں کو برداشت کرنا ہوتا ہے جن کی نیت آپ پر کھل چکی ہوتی ہے‘ آپ جان چکے ہوتے ہیں آپ کے سامنے کھڑے ہو کر جو شخص سر‘ سر کہہ رہا ہے یہ روز آپ کو میٹھی چھری سے ذبح کرتا ہے لیکن آپ جانتے بوجھتے اس سے جان نہیں چھڑا سکتے۔

آپ یہ بھی جانتے ہیں آپ کی بیوی اور اس کے خاندان کو آپ سے نہیں آپ کی دولت سے غرض ہے اور آپ کے بچے آپ کو والد نہیں کریڈٹ کارڈ سمجھتے ہیں مگر آپ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کے ساتھ چلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ آپ دوستوں‘ رشتے داروں اور عزیزوں کی نیتوں سے بھی واقف ہوتے ہیں مگر آپ ان کے منہ پر انھیں برا نہیں کہہ سکتے‘ یہ تکلیف آپ کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے‘ یہ آپ کو بیمار کر دیتی ہے‘ میں بھی بیمار تھا‘ میں چالیس سال سے خلوص سے بھری آواز سننے کے لیے ترس رہا تھا اور پھر مجھے وہ آواز مل گئی۔

مجیدا اپنی دکان سے نیچے آیا‘ بھاگ کر اندر سے کرسی کھینچ کر لایا اور کرسی تھڑے پر ٹکا کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا‘ میں نے کرسی کو سائڈ پر کیا اور اس کے ساتھ تھڑے پر بیٹھ گیا‘ وہ دانت نکال کر مجھے دیکھ رہا تھا‘ ہاتھ مل رہا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا‘ اس کی آواز سن کر پورا محلہ اکٹھا ہو گیا‘ لوگ ظفری آیا‘ ظفری آیا کے نعرے لگا رہے تھے اور میرے اردگرد جمع ہو رہے تھے۔

میں حیرت سے انھیں دیکھتا تھا اور انھیں پہچاننے کی کوشش کرتا تھا‘ یہ سب میرے بچپن کے ساتھی تھے‘ میں کسی کے ساتھ پتنگیں اڑایا کرتا تھا‘ کسی کے ساتھ بنٹے کھیلتا تھا اور کسی کے ساتھ مل کر ریڑھیوں سے آم چوری کرتا تھااور یہ میرے ساتھ اسکول سے بھی بھاگتے تھے‘ ان میں سے کوئی شخص سید ظفر الحق کو نہیں جانتا تھا‘ یہ صرف اور صرف ظفری سے واقف تھے اور میں اس وقت ظفری تھا‘ یہ بوڑھے ہو چکے تھے‘ غربت نے کسی کا کُب نکال دیا تھا‘ کوئی کم سننے لگا تھا‘ کسی کے دانت جھڑ چکے تھے اور کسی کو دکھائی نہیں دیتا تھااور یہ سب گنجے بھی ہو چکے تھے مگر یہ اس کے باوجود مطمئن اور خوش تھے‘ میں ان سب کے مقابلے میں صحت مند تھا‘ میرے سر پر بال بھی تھے۔

میری آنکھیں‘ ناک‘ کان اور دانت بھی سلامت تھے اور میں نے اچھے کپڑے بھی پہن رکھے تھے لیکن یہ سب ظاہری تھا‘ میں اندر سے بیمار تھا‘ میں اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا جب کہ یہ باہر سے بے رنگ مگر اندر سے بھرے ہوئے تھے‘ میں نے اس وقت مجیدے کے تھڑے پر بیٹھے بیٹھے محسوس کیا دنیا کا سب سے بڑا ڈاکٹر‘ سب سے مہنگی دوا پرانے دوست ہوتے ہیں‘ انسان کو بچپن کے دوست‘ بگڑے ہوئے نام اور تکلف سے بے پروا مخلص آوازیں چاہیے ہوتی ہیں‘ یہ مل جائیں تو انسان بستر مرگ سے بھی اٹھ کر چلنا پھرنا شروع کر دیتا ہے اور اگر یہ نہ ملیں تو انسان خواہ بل گیٹس یا سٹیو جابز ہی کیوں نہ ہو یہ سسک سسک کر مر جاتا ہے۔

اس کے پلے صرف اچھا اسپتال‘ مہنگے ڈاکٹرز اور امیر جنازہ ہوتا ہے اور بس‘ دنیا میں عمر بڑھانے کی بہترین دوا دوست ہوتے ہیں‘ آپ اگر ایک بار ظفری بن گئے تو پھر آپ کے دوست آپ کو ہمیشہ ظفری بنائے رکھیں گے‘ یہ آپ کو سید ظفر الحق نہیں بننے دیں گے‘ یہ آپ کو کبھی بچپن سے باہر نہیں نکلنے دیں گے آپ خواہ صدر پاکستان ہی کیوں نہ ہو جائیں‘ آپ دوستوں کے لیے ظفری ہی رہیں گے‘ مجھے اس تھڑے پر بیٹھے بیٹھے محسوس ہوا ہمارے ملازمین کے لیے ہمارے اکائونٹس اہم ہوتے ہیں۔

ہمارے بچوں کے لیے ہماری وصیت اہم ہوتی ہے اورہمارے رشتے داروں کے لیے ہمارا اثرورسوخ‘ ہمارا دبدبہ اورہماری حیثیت اہم ہوتی ہے لیکن صرف ہمارے بچپن کے دوست وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے لیے ہماری خیریت اورہم اہم ہوتے ہیں چنانچہ آپ بچپن کے دوستوں سے ملتے رہا کریں‘ آپ کبھی بیمار نہیں ہوں گے‘‘ وہ مسکرایا اور بولا ’’آپ بھی پلیز مجھے ظفری کہا کریں‘ میں سید ظفر الحق بن بن کر تھک گیا ہوں‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے