دکھ جھیلے بی فاختہ…!

سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز لاہور رائل پام کلب سکینڈل کا فیصلہ سترہ برس بعد سنایا تو وزیر ریلوے شیخ رشید مٹھائی کا ڈبہ لے کر وزیر اعظم عمران خان سے شاباش لینے کیلئے ان کے دفتر پہنچ گئے۔ شیخ صاحب کی سمجھداری کو داد دینا پڑی کہ کیسے انہوں نے وہ کریڈٹ خود سمیٹ لیا جس کا ان سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ عمران خان کی باڈی لینگویج سے بھی یہ واضح تھا کہ انہیں یہی کہانی بیچی گئی تھی کہ سترہ برس شیخ رشید اس سکینڈل کا پیچھا کرتے رہے‘ اور آخر وہ جنگ جیت لی گئی ہے۔

انہیں عمران خان کو مٹھائی کا ڈبہ پیش کرتے دیکھ کر دو ہزار گیارہ کی ایک صبح یاد آ گئی۔ گھر میں مسلسل فون بج رہا تھا۔ مجھے میرے بیٹے نے نیند سے جگایا اور بتایا کہ آپ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس صاحب نے بلایا ہے۔ میں حیران ہوا کہ میری کیا ضرورت عدالت کو پڑ گئی ہے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کہنے لگے: آپ کو چیف جسٹس نے عدالت بلایا ہے۔ آپ اگلے آدھے گھنٹے میں عدالت پہنچ جائیں۔ اسی وقت موبائل فون پر سابق وزیر اسحاق خاکوانی کا نام ابھرا۔ پوچھا: جناب کہاں ہیں؟ چیف جسٹس صاحب نے بلایا ہے۔

میں نے کہا‘ خاکوانی صاحب کہاں پھنسا دیا ہے۔ پتہ چلا کہ اسحاق خاکوانی نے رائل پام کلب سکینڈل پر سپریم کورٹ میں جو پٹیشن فائل کی ہوئی تھی اس پر گواہی کیلئے مجھے طلب کیا جا رہا تھا۔ میری گواہی کی ضرورت کیوں پڑی تھی وہ اپنی جگہ ایک علیحدہ کہانی تھی۔

ساڑھے گیارہ بجے میں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس صاحب کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھ سے اس سکینڈل کی تفصیلات پوچھ رہے تھے جو پہلی دفعہ میں نے دو ہزار ایک میں فائل کیا تھا۔ تب جنرل مشرف کی حکومت تھی۔ ان دنوں جنرل مشرف یا ان کے کسی وزیر کے خلاف کوئی بات لکھنا یا بولنا بہت بڑی گستاخی سمجھی جاتی تھی۔

خیر انہی دنوں ایک اچھا کام ہوا جنرل مشرف نے پبلک اکائونٹس کمیٹی قائم کی‘ جس کا سربراہ ایچ یو بیگ کو بنا دیا گیا۔ کئی ٹیکنوکریٹس اور پرانے بیوروکریٹس کو ممبر بنا دیا گیا۔ پہلی دفعہ صحافیوں کو اس کمیٹی میں بیٹھ کر رپورٹنگ کرنے کی اجازت دی گئی‘ ورنہ ماضی میں تمام جمہوری حکومتیں اس کمیٹی کے اجلاس بند کمرے میں کرتی تھیں اور ہم پارلیمنٹ کی گیلری میں گھنٹوں انتظار کرتے کہ کوئی افسر اجلاس سے باہر نکلے یا کوئی ایم این اے بات کرنے پر تیار ہو تو ہم کوئی خبر نکال لیں۔

یوں ایک نیا تجربہ ہوا جس سے ہم صحافیوں نے بہت سیکھا‘ خصوصاً ارشد شریف، عارف رانا، صدیق ساجد، ساجد چوہدری اور میں ریگولر اجلاس میں موجود ہوتے۔ کچھ عرصہ بعد احساس ہوا‘ اس کمیٹی کو صحافیوں کیلئے اس لیے کھولا گیا تھا کہ پاکستانی سیاستدانوں کے کرتوت عوام کے سامنے لائیں جائیں۔ لیکن جنرل مشرف کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن ان کے اپنے قریبی ساتھیوں کو‘ جو اس وقت مختلف وزارتوں کو چلا رہے تھے‘ بھی ایسے سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ جس کیلئے سیاستدان مشہور تھے۔ وہی ہوا۔ ایک سکینڈل میرے ہاتھ لگ گیا اور لگا بھی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں۔ ہوا یوں کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کمیٹی کو یہ تحریری شکایت کی کہ جنرل مشرف کے تین معتمد‘ جو اس وقت پاکستان ریلوے کو چلا رہے تھے‘ ایک ڈیل کی دستاویزات دینے کو تیار نہیں ہیں۔

یہ دستاویزات دراصل اربوں کی اس ڈیل کے بارے میں تھیں جو ریلوے نے ایک پرائیویٹ پارٹی کے ساتھ لاہور میں ریلوے کے تقریباً ڈیڑھ سو ایکڑ پر محیط ایک کلب کے حوالے سے کی تھی۔ ریلوے حکام وہ دستاویزات یہ کہہ کر دینے سے انکاری تھے کہ یہ بہت سیکرٹ ہیں اور یہ میڈیا کے ہاتھ لگ گئیں تو اس سے ملک کو نقصان ہو گا۔ اب ہم سب کو اندازہ ہو رہا تھا کوئی بڑی گڑبڑ ہے۔ اجلاس میں متعلقہ حکام کافی دیرکمیٹی ارکان سے الجھتے رہے۔ آخر کار ایچ یو بیگ نے ریلوے حکام سے منوا لیا کہ وہ سب دستاویزات آڈٹ کیلئے دیں گے اور انہیں خفیہ رکھا جائے گا۔

میرے اندر کا رپورٹر مجھے بتا رہا تھا کہ ان دستاویزات میں بہت بڑا سکینڈل چھپا ہوا ہے۔ اب مجھے انتظار کرنا تھا کہ کب آڈٹ آفس اپنی رپورٹ کمیٹی میں پیش کرتا ہے۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ رپورٹ پیش کیے جانے سے دو تین دن پہلے مجھے اگر اس کی کاپی مل جائے تو میں ایکسکلوسیو رپورٹ فائل کرکے کچھ نمبر ٹانک لوں گا۔ اس کے لیے مجھے چند ماہ انتظار کرنا پڑا۔ آخر وہ رپورٹ ہاتھ لگ گئی۔ ریلوے کی ڈیڑھ سو ایکڑ زمین ایک غیر ملکی پارٹی کو دی گئی تھی‘ جس نے ایک پاکستانی کمپنی کو ساتھ ملایا تھا۔ جو ڈیل کی گئی تھی اس میں ریلوے کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا تھا اور حکومتِ پاکستان کو بیس ارب روپے کے قریب نقصان ہو رہا تھا۔

جس پارٹی کو وہ لیز دیا گیا تھا‘ اس نے جن شرائط پر وہ زمین حاصل کی تھی وہ شرائط پوری نہیں کی گئی تھیں۔ جس انداز میں ایمرجنسی لگا کر وہ ڈیل اس پارٹی کو دی گئی تھی‘ وہ اپنی جگہ ایک سکینڈل تھا۔ ریلوے کی وہ زمین بھی اونے پونے پہلے تیس سال اور پھر انچاس برس کے لیے لیز پر دی گئی جو پہلے معاہدے میں شامل نہ تھی۔ اس طرح ریلوے کالونی کو بھی راتوں رات بلڈوزر بھیج کر گرا کر اس پارٹی کو دے دیا گیا۔ پارٹی نے جو انکم ریلوے کو دینی تھی وہ بھی نہیں دے رہی تھی۔

میں نے یہ رپورٹ اپنے انگریزی اخبار میں چھاپی کہ کیسے ایک بڑی ڈیل پر سوالات کھڑے ہو گئے تھے کہ اس میں کچھ بڑے لوگوں نے اسلام آباد میں بیٹھ کر فیصلہ کیا تھا‘ جس میں شفافیت کا دور دور تک نام نہیں تھا۔ چند افسران بیٹھے‘ انہوں نے خود ہی ڈیل تیار کی اور ایک پارٹی کے حوالے کر دی۔ جونہی میری یہ رپورٹ چھپی اس پر ایک ہنگامہ مچ گیا کیونکہ یہ جنرل مشرف دور کا پہلا سکینڈل تھا جو سامنے آیا تھا۔ جنرل مشرف حکومت کو بڑا دھچکا لگا کہ وہ تو کرپشن سے پاک حکومت کرنے آئے تھے‘ اور اب سب سے بڑا سکینڈل باہر آ چکا تھا۔ اور یہ سکینڈل اس وزارت کے بارے میں تھا جسے جنرل مشرف کے تین معتمد چلا رہے تھے۔

مجھے اندازہ تھا اس کا شدید ردعمل آئے گا۔ وہی ہوا جس صبح وہ رپورٹ چھپی اس پر اس وقت کے وزیر ریلوے جنرل قاضی نے فوراً ایک پریس کانفرنس بلائی اور اس میں انہوں نے میرے خوب لتے لیے۔ جنرل صاحب کی پریس کانفرنس کی ٹون سے واضح تھا کہ کچھ نہ کچھ میرے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ یہ اندیشہ درست نکلا۔ گھر کے باہر ایک موٹر سائیکل سوار ہر وقت بیٹھا رہتا اور جب میں نکلتا تو وہ میرے پیچھے ہوتا تھا۔ گائوں سے بھائی کا فون آیا کہ کچھ لوگ وہاں میرے بارے میں پوچھ گچھ کررہے ہیں۔

میرا سرکاری محکموں میں داخلہ بند کر دیا گیا۔ اعلیٰ سطح سے ایک لیٹر جاری ہوا‘ جس میں میرا نام لکھ کر حکم دیا گیا کہ وہ (میں) آئندہ کسی دفتر نظر نہ آئے۔ میری بیوی شادی سے پہلے جو جاب کر رہی تھی اس کا کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا۔ فلیٹ خالی کرنے کے نوٹس ملنے شروع ہو گئے۔ ایک دن ایک وفاقی سیکرٹری نے مجھے کہا: آپ کے بارے مشہور کیا جا رہا ہے کہ آپ ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ سن کر شدید جھٹکا لگا کہ جو اربوں روپے لوٹ رہے تھے وہ دوست اور ہم دشمن۔

میں سب دبائو برداشت کر رہا تھا جو مشرف حکومت مجھ پر ڈال رہی تھی۔ خیر اس سکینڈل کو دبا گیا۔ لیکن میں پھر بھی آتے جاتے اس سکینڈل کے حوالے سے خبریں دیتا رہا۔ برسوں بعد اسحاق خاکوانی نے دو ہزار گیارہ میں سپریم کورٹ میں اس سکینڈل پر پٹیشن فائل کر دی۔ جب خاکوانی ریلوے کے وزیر مملکت تھے تو ریلوے کے وزیر جنرل قاضی جاوید اشرف نے باقاعدہ جنرل مشرف کو شکایت کی کہ خاکوانی اپنے دوست رئوف کلاسرا کے ذریعے خبریں لگواتا رہتا ہے۔ جنرل مشرف نے خاکوانی کو بلا کر خاموش کرانے کی کوشش کی تو انہوں نے آگے سے دلائل کا انبار لگا دیا۔ خاکوانی کو آخرکار اپنی وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ان تمام سترہ برسوں میں شیخ رشید آرام سے ایک سائیڈ پر رہے۔ وہ ان حکام کے ساتھ کابینہ میں بیٹھے رہے جن کے خلاف یہ سکینڈل تھا۔ کبھی یہ معاملہ نہ اٹھایا۔

اب سترہ برس بعد وہ مٹھائی کا ڈبہ لے کر عمران خان کو یہ تاثر دینے پہنچ گئے‘ جیسے ان سترہ برسوں میں وہ اس سکینڈل کا تن تنہا پیچھا کرتے رہے ہیں۔ جنرل مشرف کو بھی خوش رکھا اور اب عمران خان بھی خوش کہ میرے وزیر نے کتنا بڑا تیر مارا ہے۔ اگر کریڈٹ بنتا تھا تو اسحاق خاکوانی کا بنتا تھا جو آٹھ برس سے سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑ رہے تھے لیکن اب اسحاق خاکوانی کا کہیں نام نہیں۔ شیخ رشید کے ہاتھوں سے عمران خان کو مٹھائی کے ٹوکرے پیش ہوتے اورکریڈٹ لیتے دیکھ کر ایک پُرانی کہاوت یاد آئی: دکھ جھیلے بی فاختہ‘ کوّے انڈے کھائیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے