رجم کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر سے زیر بحث آ رہا ہے۔ افغانستان کے واقعے کے بعد اس موضوع پر کافی احباب نے اپنی آراء کا اظہار کیا ہے، جن میں اکثریت نے، میرے مشاہدے کی حد تک، "محض” جذبانی لفاظی اور "ملا” پر طعن و تشنیع کے علاوہ کوئی نظریاتی چیز پیش نہیں کی۔ البتہ شفیق منصور صاحب نے علمی انداز میں اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ ان کی تحریر پہلے فیس بک پر اور اس کے بعد آئی بی سی اردو میں سامنے آ گئ ہے۔ شفیق صاحب نے علامہ یوسف القرضاوی کے حوالے سے لکھا ہے کہ "امام ابو زہرۃ رحمہ اللہ” کی تحقیق کے مطابق رجم کی سزا اسلام میں نہیں ہے۔
اس سلسلے میں یہ "غریبِ شہر” بھی کچھ سخن ہائے گفتنی رکھتا ہے۔ شفیق منصور صاحب کی طرف سے پیش کردہ امام ابو زہرہ کے دلائل کا تجزیہ کرنے سے پہلے رجم کے حوالے سے کچھ تاریخی نظریات کا خلاصہ پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کہ رجم کا انکار اسلام کی علمی تاریخ میں متعدد طبقات کی طرف سے سامنے آیا ہے اور حیرت انگیز طور پر سب کے دلائل مختلف ہیں۔
میرے علم کے مطابق سب سے پہلے "خوارج” نے رجم کا انکار کیا ہے۔ خوارج کے ظہور تک رجم غیر متنازعہ سزا کے طور پر شریعت کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ خوارج کے نزدیک شریعت صرف وہ ہے جو قرآن کریم میں ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دین کا ماخذ نہیں ہے اس لیے، چونکہ رجم کا ثبوت بھی سنت سے ہے، رجم اسلام کا حصہ نہیں ہے۔
پھر اپنے بر صغیر پاک و ہند میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور ان کے مبینہ شاگرد جناب جاوید احمد غامدی صاحب بھی رجم کو شریعت کا حصہ نہیں مانتے۔ ان حضرات کی اپنی الگ دلیل ہے، اور وہ یہ ہے کہ "رجم” زنا کی سزا ہے ہی نہیں۔ زنا کی سزا وہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے۔ رجم زنا نہیں بلکہ "محاربہ” کی سزا ہے۔ اس دلیل پر بھی کافی کلام کیا جا چکا ہے لیکن سر دست یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔
اب شفیق منصور صاحب، کا شکریہ کہ ان، کے واسطے سے امام ابو زہرہ کا انکارِ رجم اور اس کی دلائل کا بھی علم ہوا ہے۔
چونکہ شفیق صاحب نے قرضاوی کی کسی کتاب یا مقالے کا حوالہ نہیں دیا ہے اس لیے ہم ان کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے ابو زہرہ صاحب کے دلائل کا تجزیہ کریں گے۔
1۔ پہلی دلیل امام ابو زہرہ نے سورۃ نساء کی آیت نمبر 25 سے دیا ہے، جس میں، امام ابو زہرہ کے بقول، شادی شدہ باندی کی سزا کو شادی شدہ آزاد کی سزا کا نصف بیان ہوا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ رجم میں تنصیف نا ممکن ہے اس لیے شادی شدہ عورت کی مکمل سزا بھی رجم نہیں ہوگی۔
یہاں پر سب سے پہلے مذکورہ آیت ذکر کی جاتی ہے جس کے اہم الفاظ کو انڈر لائن کیا جاتا ہے۔ آیت یوں ہے:
"وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنْكُمْ وَأَنْ تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ”
مفتی تقی عثمانی صاحب نے آیت کا ترجمہ کچھ یوں کیا ہے:
"اور تم میں سے جو لوگ اس بات کی طاقت نہ رکھتے ہوں کہ آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکیں، تو وہ ان مسلمان کنیزوں میں سے کسی سے نکاح کر سکتے ہیں، جو تمہاری ملکیت میں ہوں، اور اللہ کو تمہارے ایمان کی پوری حالت خوب معلوم ہے۔ تم سب آپس میں ایک جیسے ہو۔ لہذا ان کنیزوں سے ان کے مالکوں کی اجازت سے نکاح کر لو، اور ان کو قاعدے کے مطابق ان کے مہر ادا کرو، بشرطیکہ ان سے نکاح کا رشتہ قائم کرکے انہیں پاک دامن بنایا جائے؛ نہ وہ صرف شہوت پوری کرنے کے لیے کوئی (ناجائز) کام کریں، اور نہ خفیہ طور پر ناجائز آشنائیاں پیدا کریں۔ پھر جب وہ نکاح کی حفاظت میں آجائیں، اور اس کے بعد کسی بڑی بے حیائی (یعنی زنا) کا ارتکاب کریں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا واجب ہوگی جو (غیر شادی شدہ) آزاد عورتوں کے لیے مقرر ہے۔ یہ سب (یعنی کنیزوں سے نکاح کرنا) تم میں سے ان لوگوں کے لئے ہے جن کو (نکاح نہ کرنے کی صورت میں) گناہ میں مبتلا ہونے کا ندیشہ ہو۔ اور اگر صبر ہی کیے رہو تو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، مہربان ہے۔ ”
اگر کوئی گہرائی میں جائے بغیر صرف لغوی اعتبار سے اس آیت پر غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو زہرہ کی دلیل میں، افسوس، کوئی وزن نہیں ہے۔ امام ابو زہرہ سے بنیادی غلطی یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے اس آیت میں لفظ "محصنات” کا ترجمہ ہر جگہ "شادی شدہ” سے کیا ہے، جبکہ در حقیقت "محصنۃ” تین معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک "آزاد مسلمان” دو "پاکباز عورت” اور تیسرا معنی اس کا "شادی شدہ” ہے۔ امام رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ "محصنات” (صاد پر کسرہ کے ساتھ) شادی شدہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور (صاد پر فتحہ کے ساتھ) عفیفہ اور آزاد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اب اوپر ایک نظر پھر آیت میں ڈالی جائے۔۔۔۔ وہاں پر آخری "محصنات” صاد کے فتحہ کے ساتھ ہے جس کا معنی "شادی شدہ” نہیں بلکہ آزاد عورت کے ہے۔ (التفسیر الکبیر ج 10 ص 57 مطبوعہ: دار الفکر)
دوسری بات اس آیت میں یہ ہے کہ "فان احصن” کا ترجمہ مفسرین کی ایک معتد بہ تعداد نے "مسلمان” کا کیا ہے اور ایک جماعت نے "شادی شدہ” کا کیا ہے۔ تاہم قرآن کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر "شادی شدہ” زیادہ قرینِ قیاس ہے۔
بہر حال! اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ لونڈی زنا کرے تو اس کو شادی شدہ آزاد عورت کے سزا کا نصف دیا جائے، بلکہ اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ شادی شدہ لونڈی اگر زنا کرے تو آزاد عورت کی سزا کا نصف اسے دیا جائے۔ اس کے چاروں سنی مکاتب فقہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آزاد عورت کی سزا شادہ شدہ ہونے کی صورت میں کیا ہے اور غیر شادی شدہ ہونے میں کیا ہے۔۔۔ یہ بھی طے شدہ ہے کہ لونڈی کو ہر صورت میں 50 کوڑے ہی مارے جائیں گے۔
2۔ شفیق منصور صاحب نے امام ابو زہرہ کی دوسری دلیل یوں ذکر کی ہے:
"دوسری دلیل یہ ہے کہ حدیث میں جو آپﷺ سے رجم کرنے کا عمل ثابت ہے وہ روایت عبداللہ ابن ابی اوفیؓ نے روایت کی ہے۔بخاری میں ہے کہ ان سے سوال کیاگیا کیا قرآن میں حدزنا والی آیت جسمیں صرف کوڑے مارنے کاذکرہے آپﷺ کے رجم والے عمل سے پہلے نازل ہوئی یا بعد میں ؟ تو انہوں نے جوابدیا مجھے یاد نہیں۔ امام ابوزھرہ نے کہا میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ آیت بعد میں نازل ہوئی اور رجم کا حکم منسوخ ہوگیا۔”
بخاری شریف نے یہ بات "اہل ذمہ جب زنا کریں تو اس کے احکام” کے تحت ذکر کیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ عبد اللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ "کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا؟” انہوں نے جواب دیا کہ ” جی ہاں” اس پر پھر سوال ہوا کہ "سورت نور (کے نزول) سے پہلے یا بعد میں؟” ایک روایت میں سورت مائدہ کا تذکرہ ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے سورت نور کے بارے میں سوال ہوا ہے۔ عبد اللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ "مجھے علم نہیں”
آگے جانے سے پہلے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ مولانا تقی عثمانی صاحب اپنے ایک عدالتی فیصلے میں بیان فرمایا ہے کہ رجم کا واقعہ ستر سے زیادہ صحابہ سے مروی ہے، عبد اللہ ابن ابی اوفی اکیلے اس کے راوی نہیں ہیں۔
جب عبد اللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ یہ طے نہیں کر سکے یہ رجم کا واقعہ سورت نور کے نزول سے پہلے کا ہے یہ بعد کا ہے، تو اس کو طے کرنے کے لیے دوسری احادیث اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا زمانہ زیادہ بہتر رہنمائی کر سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم خود اپنے اندازے سے یہ طے کر لیں کہ رجم سورت نور کے نزول سے پہلے ہوا ہے یا بعد میں۔ آئیے ایک نظر زنا کے سزا کی تدریجی عمل پر ڈالتے ہیں۔
اسلام نے جب تک زنا کی کوئی سزا تجویز نہیں کی تھی تب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد و عورت کو، تورات کے حکم کے مطابق، سنگسار کروایا تھا، کہ تورات میں زنا کی سزا، بلا تفریق شادی شدہ و غیر شادی شدہ، رجم ہے۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالی نے سورت نساء کی آیت نمبر 15 نازل فرما دی، جس میں یہ کہا گیا کہ جو مسلمان عورتیں زنا کا ارتکاب کریں اور چار گواہوں سے یہ جرم ثابت ہو جائے تو ان کو گھروں میں اس وقت تک قید میں رکھا جائے کہ یا تو ان کو موت آ جائے یا پھر اللہ کی طرف سے کوئی حکم آ جائے۔ پھر سورت نور میں زنا کی سزا والی آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ نے فرمایا کہ "مجھ سے لے لو! مجھ سے لے لو! غیر شادی شدہ مرد عورت کو سو کوڑے اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے۔۔۔ اور شادی شدہ مرد و عورت کو سو کوڑے اور رجم کی سزا ہے”۔ جس کی رو سے اسلام نے تورات کے حکم میں یوں ترمیم کی کہ محصن اور غیر محصن کی سزا الگ الگ کر دی گئی۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال ج 8 ص 476 مطبوعہ: مکتبۃ الرشد ریاض)
بہر حال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان یہ "مجھ سے لے لو مجھ سے لے لو! اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ کوڑوں کی سزا والی آیت کے نزول کے بعد بھی رجم کا حکم برقرار رہا ہے۔ بلکہ رجم کا حکم اس آیت کے ساتھ ہی آیا ہے۔
پھر اگر ہم دور خلافت راشدہ میں دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں بھی رجم کی مثالیں ملتی ہیں۔ یہاں میں صحیح بخاری میں مروی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ایک خطبہ نقل کر رہا ہوں، ایسا لگتا ہے کہ حضرت عمر الفاروق کی بصیرت آج کے دور کو خطاب فرما رہی ہے: فرماتے ہیں:
"۔۔۔۔۔ اللہ تبارک و تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل فرمائی۔ جو کچھ اللہ کے رسول پر نازل ہوئی اس میں رجم کی آیت بھی شامل تھی، ہم نے اس کو پڑھا، سمجھا اور یاد کیا۔ اللہ کے رسول نے رجم کیا، اور ان کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ تم پر ایک لمبا زمانہ گزرجائے اور کوئی یہ کہہ دے کہ "خدا کی قسم ہمیں تو اللہ کی کتاب میں رجم نظر نہیں آتا’ اور وہ لوگ ایک فریضہ کو ترک کر کے گمراہ ہو جائیں۔ رجم اللہ کی کتاب میں حق ہے، اس مرد اور عورت زانی پر جو محصن ہوں جب گواہوں کے ساتھ، یا حمل یا اقرار کے ساتھ ثابت ہوئے۔۔۔۔”
3۔ شفیق صاحب نے امام ابو زہرہ کی تیسری دلیل یوں نقل فرمائی ہے:
"تیسری دلیل یہ ہے کہ جو حضرات رجم کی سزا کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ رجم والی آیت نازل تو ہوئی تھی مگر یعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی جبکہ اسکا حکم ابھی تک باقی ہے۔ یہ ایک خلافِ عقل اور خلافِ منطق بات ہے کہ ایک چیز کا حکم باقی رہے مگر آیت کی تلاوت منسوخ ہوجائے۔آیت رجم سرے سے نازل ہی نہیں ہوئی ۔”
اب یہاں دو باتیں ہیں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رجم کی آیت نازل ہوئی تھی۔ ایک روایت میں ان سے یو بھی مروی ہے کہ اگر لوگ مجھ یوں نہ کہتے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو میں اپنے ہاتھ سے رجم کی آیت لکھ لیتا۔ یہ کہنا کہ "حکم باقی رکھ کے تلاوت منسوخ کرنا غیر معقول اور خلاف منطق ہے” محض ایک دعوی بلا دلیل ہے۔ صرف یہ آیت نہیں اور بھی کافی مثالیں ہیں کہ قرآن میں احکام باقی رکھ کر تلاوت کو منسوخ کیا گیا ہو۔
دوسری بات: اگر برائے استدلال یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ رجم کی آیت نازل ہی نہیں ہوئی تھی تب بھی رجم کو غیر اسلامی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ علماء نے رجم کو جب بھی ثابت کیا ہے، تو اس کے اصلا استدلال سنتِ رسول سے کیا ہے۔۔۔ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی ایک کثیر تعداد نے رجم کو روایت کیا ہے۔
اس لیے اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ رجم کی آیت نازل نہیں ہوئی تھی تب بھی رجم شریعت کا حصہ سنت رسول کی رو سے بن جاتا ہے۔
4۔ شفیق صاحب نے آخر میں امام ابو زہرہ کا ایک جذباتی بیان بھی نقل فرمایا ہے: فرماتے ہیں:
"یوسف میرادل اور ایمان نہیں مانتے کہ رحمت للعالمین رجم جیسی بھیانک سزا کو اسلام کا حصہ بنائیں۔یہ یہود کی شریعت ہوسکتی ہے میرے نبی کی نہیں۔”
جیسا کہ بیان ہوا کہ رجم تورات کا حکم ہے، اور تورات اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہے۔ جو اللہ حضرت موسی کی شریعت میں ایک حکم جاری فرما سکتا ہے وہ اللہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں وہی حکم کیوںکر جاری نہیں فرما سکتا؟ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے شریعت نہیں دیتے تھے، جو کچھ بھی ارشاد فرماتے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا۔ خود اللہ نے فرمایا ہے:
: "وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔