کھنڈرات کا تصور کرتے ہو ذھن کے گوشوں میں رنگینیوں کا وہ تصورنہیں ابھرتا ہے جو بہت سے سیاحوں کے مزاج کے موافق ہوتا ہے _ اپنی آوارہ مزاجی کی عادت کی وجہ سے اکثر ایسی چیزیں دیکھنے کے مواقع ملتے ہیں جس اس نظام ہستی کے نظام کے بارے میں جانکاری میں اضافہ ہو جاتا ہے،
کھنڈرات اور تاریخی مقامات پر اکثر اوقات گہرا سکوت اور ویرانی ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی تبدیلی کے لئے ہی سہی ایسے مقامات کی سیاحت دلچسپی سے خالی ہرگز نہیں ہوتی۔ ڈسکو لاری نام کی ایک پرانی طرز کی گاڑی ان تاریخی مقامات کو منظر عام پر لانے کی کوشش کر رہی ہے جو اس مشینی دور میں اپنی خوبصورتی کھو رہے ہیں _
گزشتہ ہفتے کی یاترا اسلام آباد کے ذرا سا پرے واقع اس عظیم شہر کی تھی جو کبھی اس خطہ کا صدر مقام بھی کہلاتا تھا _ پاکستان کے موجودہ دارالحکومت سے قبل مسیح کی سلطنت کے صدر مقام کا فاصلہ بظاھر چند میل کا ہی ہے لیکن اس میں ہزاروں سال کا فاصلہ طہ کرنا پڑتا ہے _
ڈیڑھ سال کی بچی سے لے کر ساٹھ سالہ (اور اس کے درمیان جو بھی اپنے آپ کو فٹ کر لے) بابوں پر مشتمل یہ قافلہ تاریخ کے ان لوگوں کی زندگیوں کو محسوس کرنے جا رہا تھا جو اپنے دور کی تہذیب یافتہ قوم کہلاتی تھی _ عابدہ پروین، عارف لوہار اور ریشماں کی آوازیں ڈسکو لاری کے شور پے حاوی ہوتی ہی ہزاروں سال کے فاصلے کو گھنٹوں میں طے کرنے میں مدد دے رہی تھیں_
راولپنڈی اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ پشاور کی طرف چلیں تو بتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ٹیکسلا آجاتا ہے۔ یہاں سے ایک سڑک خانپور اور ہری پور کی طرف جاتی ہے۔ اسی سڑک کے دونوں طرف ٹیکسلا کے قدیم کھنڈرات واقع ہیں۔
ایسا کمال بہت ہی کم علاقوں کے نصیب میں ہوتا ہے جو ٹیکسلا کے حصے میں آیا ہے_ اس شہر کے کھنڈرات انسانی تمدن کی ترقی کا مطالعہ اور تہذیب و ثقافت کی تحقیق کے لئے اہم مقام رکھتے ہیں _ عقل دنگ رہ جاتی ہے جب انسان ماضی کے ترقی یافتہ انسان کے باقیات کو دیکھتا ہے
ٹیکسلا کا عظیم ثقافتی ورثہ نا صرف ایک تاریخی حقیقت ہے بلکہ قدیم عہد کی ایسی یادگار ہے جس میں بیتے زمانوں کے علم و فن کے حیرت انگیز نمونے آج کے ترقی یافتہ دور کے انسان کے لئے بھی فکر انگیز مواد رکھتے ہیں۔ چھ سو سال قبل مسیح کے ان آثار کا مشاہدہ ایک جہان گم شدہ سے متعارف ہونا ہے۔ انسانی عروج و زوال کی یہ نشانیاں یقینا اپنے اندر گہرائی اور سوچ کے لئے کئی پہلو رکھتی ہیں
گندھارا تہذیب پانچ سے سات سو سال قبل مسیح کی ایک سلطنت کا نام تھا جو شمالی پاکستان، کشمیر اور افغانستان کے بعض علاقوں پر مشتمل تھی۔ اس ریاست کی زیادہ تر آبادی سطح مرتفع پوٹھوہار، پشاور اور دریائے کابل سے متصل علاقوں میں تھی۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ گندھارا تہذیب چھ سو سال قبل مسیح سے گیارہویں صدی عیسوی تک قائم اور تباہ ہونے والی سلطنت کے عروج زوال پر مشتمل ہے _
انیسویں صدی میں انگریز سپاہیوں اور اہلکاروں نے برصغیر کی قدیم تاریخ میں دلچسپی لینا شروع کی۔ 1830ءمیں یہاں سے اشوکا کے دور کے چند سکے دریافت ہوئے۔ بعض چینی تاریخی کتابوں اور ان سکوں کی تحقیقات نے 1860ءمیں ٹیکسلا کے نواح میں آثار قدیمہ کا سراغ لگانے میں مدد دی اور 1912ءسے 1934ءتک کی کھدائیوں نے کی زمینوں میں دفن ان رازوں سے پردہ ہٹایا۔ کھدائی کے دوران بڑی تعداد میں قدیم شہروں، سٹوپہ اور عبادت گاہوں کا انکشاف ہوا۔ ان انکشافات کی روشنی میں گندھارا اور یہاں کے علوم و فنون اور تاریخ کا تعین ممکن ہوا۔ آج ٹیکسلا میں گندھارا کی ان تمام آبادیوں، تعمیرات اور مذہبی زیارتوں کے آثاروباقیات ہیں۔
ہمارا پہلا پڑاؤ ٹیکسلا کا میوزیم تھا جہاں اس خطے سے حاصل ہونے والی چیزوں کو محفوظ کیا گیا ہے _ برما کی لکڑی اور بیلجیم کے شیشوں میں قید تاریخ کے وہ رنگ آپکو ہزاروں سال پہلے کی دنیا میں لے جاتے ہیں _ ان نوادرات میں بدھ مت مذہب کے بانی بدھا کے مجسمے،اہم شخصیات کے مجسمے، پتھر پر کھدائی کے ذریعے بنائی گئی اشکال، تصاویر اور مجسمے، دھاتی برتن، سکے اور زیورات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام نوادرات آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے عجائب خانوں کی زینت ہیں۔
میوزیم کے گائیڈ کے منہ سے نیپال کے ڈریمز گارڈن کا تذکرے نے کٹھمنڈو کے سفر کی یاد بھی تازہ کر دی، کٹھمنڈو کے تاریخی "خوابوں کے باغ” میں ملکہ مایا کا دیکھا جانے والا خواب شیشوں میں قید ہے جو آپکو اس دور کے لوگوں کے آرٹ کو داد دینے پر مجبور کرتا ہے _ بدھ مت مذہب کی نشانیاں جن میں مورتیاں، مجسمے اور نقش نگاری کے نمونے ہیں ہزاروں سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس عہد کی شان شوکت کو بیان کرنے کے لئے کافی ہیں _
میوزیم کے بعد دھرما راجیکا سٹوپا، سرکپ اور جولیاں کے کھنڈرات ہماری اگلی منازل تھیں جہاں سے یہ سب چیزیں نکالی گئی تھیں _
‘دھرما راجیکا’ ٹیکسلا میں پہلی بدھ خانقاہ تھی جو اشوک نے بنوائی۔ اشوکا نے اپنی سلطنت میں آٹھ مقامات پر ایسے اسٹوپا بنوائے جن میں گوتم بدھ کے تھوڑے تھوڑے تبرکات محفوظ کر دیے گئے تھے، ٹیکسلا کا یہ اسٹوپا ان سب میں سے ایک تھا۔
دوسری صدی قبل مسیح میں آباد ہونے والا ‘سرکپ’ کا یہ شہر باختری یونانیوں نے بسایا تھا۔ سرکپ کے کھنڈرات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ شہر ایک مرکزی شاہراہ کے گرد تعمیر کیا گیا تھا جس سے پندرہ ذیلی راستے نکلتے تھے۔ ان کھنڈرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ یونانی طرز تعمیر کے حامل ہیں۔ یہاں کی خاص بات بدھا کے سٹوپہ بھی ہیں جو سرکپ میں جا بجا پائے جاتے ہیں۔ ایک ہندو مندر کی یہاں موجودگی ان مذاہب کے مابین روابط کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
تحقیق دانوں کے مطابق ۔ یونانیوں کے بعد سکیتھیوں اور پارتھیوں کے حملوں اور ۳۰ ق م میں آنے والے ایک زلزلہ کے بعد اس شھر کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ گوندافارس نے، جو کہ پہلا پارتھی بادشاہ تھا، نے بھی شھر کے بعض حصے تعمیر کئے تھے
اثارقدیمہ کی سیر میں اگر خانپور ڈیم کی تازہ مچھلی کھانے میں ہو تو تاریخ کی گتھیوں کو سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے _ سرمد صاحب کی جانب سے کھانے کے بہترین انتظام اور ہمراہی دوستوں کی خوش گپیوں نے ڈیم کے کنارے کو مزید خوبصورت کر دیا تھا_ اس کے بعد ہمارا اگلا سفر جولیاں کے کھنڈرات کی طرف تھا جہاں اڑھائی ہزار سال پہلے ایک درس گاہ قائم کی گئی تھی _
ضلع ہری پور میں واقع قدیم جولیاں یونیورسٹی کے کھنڈرات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک مرکزی سٹوپہ اور دوسرا مذہبی عبادت گاہ اور درسگاہ۔ یہ کھنڈرات ایک بلند ٹیلے پر واقع ہیں۔ مرکزی سٹوپہ بری طرح تباہی کا شکار ہے البتہ اس کے کچھ حصوں کو اس کی اصلی حالت میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔اس بڑے سٹوپہ کے اردگرد 21چھوٹے سٹوپہ ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اصل میں یہ چھوٹے سٹوپہ بھکشوﺅں کے مقبرے ہیں۔ عبادت گاہ ایک مرکزی تالاب کے گرد قائم کی گئی تھی۔ اس تالاب کو نہانے دھونے اور دیگر ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ تالاب کے گرد 28 کمرے ہیں جن میں یہاں درس و تدریس کے لئے آنے والے طلبا قیام کیا کرتے تھے۔
گندھارا میں انسانی دلچسپی کا اہم سبب یہاں کا مخصوص آرٹ بھی ہے۔ بدھ مت کے ان فنون کی رنگینی مختلف قومیتوں کے باہم ملاپ کے مرہون منت ہے۔ اس آرٹ کویونانی، شامی، فارسی اور ہندوستانی علوم و فنون نے بام عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ٹیکسلا کے نواح سے حاصل ہونے والے
یہ کھنڈرات ثقافت کے عالمی ورثے کا اہم حصہ ہیں۔ 1980ءمیں یونیسکو نے ٹیکسلا کے ان آثار قدیمہ کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا – قدیم آثار کے اس مشاہدے میں یہ سوال ذہن میں ضرور کھٹکتے ہیں کہ دنیا نے ترقی کی منازل کیسے طے کیں اور ایک رواں دواں سلطنت کھنڈرات میں کیوں بدل گئی؟