ہم کیسے بیوقوف بن رہے ہیں ؟
1۔ ہم افغانستان اور عراق میں جمہوریت، امن اور آزادی لانا چاہتے ہیں، جو ہماری مخالفت کرے گا وہ ’قتل و غارت کا حامی‘ اور ’انسانیت‘ کا دشمن ہے۔
2۔ ہم پاکستان میں دین کا نفاذ چاہتے ہیں، جو ہماری مخالفت کرے گا، وہ ’کفار کا ساتھی‘ ہے اور اسلام کا دشمن ہے۔
3۔ یہ سیاسی جماعتوں پر تنقید نہیں ’جمہوریت‘ پر حملہ ہے، یہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔
عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے’نعروں کی سیاست‘ بہت قدیم ہے لیکن آج کی دنیا میں اس کا استعمال جتنا ہو رہا ہے شاید ہی کبھی پہلے ہوا ہو۔ اس میں صرف ایک کام کرنا ہوتا ہے۔ آپ اپنے اعمال یا خود کو کسی ایسے ’مقدس لفظ‘ ، شخصیت یا نظریے سے جوڑ لیتے ہیں، جس کی مخالفت آسانی سے نہیں کی جا سکتی۔ فنکار لوگ اپنے غلطیوں کو چھپانے یا پھر اپنی کامیابی کے لیے ایسے نعروں کا سہارا لیتے ہیں اور عام فہم انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ امن کے نام پر ہزاروں لوگوں کے قتل کی حمایت کر رہا ہے۔
نہ صرف مغربی دنیا بلکہ پاکستانی سیاست اور مساجد میں ہم روزانہ ہزاروں ایسے نعرے سنتے ہیں۔ اب ہم میں سے کون ہے، جو یہ کہے گا کہ میں امن کے خلاف ہوں؟ کون ہے جو یہ کہے گا کہ میں جمہوریت کے خلاف ہوں؟ کون ہے جو یہ کہے گا کہ میں اسلام کے خلاف ہوں؟ کون ہے جو یہ کہے کہ میں صحابہ اکرام سے محبت نہیں کرتا؟
پاکستان میں جب بھی کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کی بات کی جاتی ہے تو نعرہ لگتا ہے ’جمہوریت‘ خطرے میں ہے۔ سب کو پتہ ہے جمہوریت ایک اچھا لفظ ہے اور سیاستدان اس لفظ کے پیچھے اپنی کرپشن چھپا لیتے ہیں۔ اب بھلا کرپشن اور جمہوریت کا کیا لینا دینا؟ اگر پرویز مشرف پر تنقید کرو تو وہ خود کو ’فوج اور ملکی سالمیت‘ سے جوڑ لیتے ہیں۔ اب جنرل صاحب کے کسی غلط کام کا ملکی سالمیت سے کیا لینا دینا ؟ آپ اپنے اقتدار کی بقاء کو پاکستان کی بقاء کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں۔
اسی طرح طالبان نے خود کو اسلام سے جوڑا ہوا ہے اور ان پر تنقید کا مقصد یہ ہے کہ آپ اسلام پر تنقید کر رہے ہیں۔ اسی طرح دوسرے مذہبی فرقے بھی ہیں۔ کسی مولوی کی ذات پر تنقید کر دو تو وہ کہتا ہے کہ اس نے اسلام پر تنقید کی ہے۔ اب عوام کو کون سمجھائے کہ اسلام مولوی صاحب سے نہیں مولوی صاحب اسلام سے جڑے بیٹھے ہیں۔ اب عید میلاد النبی پر جھنڈیاں نہ لگائیں تو آپ سچے عاشق نہیں ہیں۔ اب جھنڈیوں کا حب رسول سے کیا لینا دینا؟
آج ہمیں بین الاقوامی اور قومی سطح پر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جو نعرہ لگایا جا رہا ہے، اس کے پیچھے کیا ہے ؟
آپ زہر کا نام کھانا رکھ دیں اور پھر کہیں کہ کیا کسی کو کھانا کھلانا بری بات ہے؟ تو سب کہیں گے نہیں ، مزید کھلائیے بلکہ ہمیں بھی کھلائیے۔۔۔
لفظوں اور نعروں کے ساتھ آج بالکل یہی ہو رہا ہے۔۔ کرپشن اور جنگوں کا نام ’امن، جمہوریت اور آزادی جبکہ فرقہ واریت کا نام ’سچا اسلام‘ رکھ دیا گیا ہے۔ اب ہر بچہ جمہورا یہی کہہ رہا ہے کہ میں امن کے حق میں ہوں، میں سچا مسلمان بننا چاہتا ہوں۔ اب جو ان نعروں کے حق میں بات کرتا ہے اسے ’’سمجھدار اور عقل مند‘‘ کہا جاتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ ’’بیوقوف‘ قرار پاتا ہے۔ یہ ہے لفظوں اور نعروں کی طاقت۔۔۔
اشتہار اور پراڈکٹس کے نعرے ایک دوسری دنیا ہے۔۔۔ فریج لیں ، زندگی آسان ہو جائے گی، یہ تیل آپ کے بچوں کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اگر آپ بچوں سے محبت کرتے ہیں تو یہ کھلونا لیں۔۔۔ اب بھلا بچوں سے محبت کا ایک مخصوص کمپنی کی پراڈکٹ سے کیا لینا دینا۔۔ لیکن دیکھایا یہ جائے گا کہ آپ اس وقت تک ایک اچھے باپ، بھائی یا بیٹے نہیں بن سکتے جب تک یہ چیز نہ خرید لیں۔۔ آپ زندگی کی مشکلات اس وقت تک ختم نہیں ہوں گی جب تک یوفون کا سمارٹ فون نہیں ہو گا۔۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ۔۔۔ اب ہم کہاں کہاں بیوقوف بنیں گے ۔۔؟