جنید حفیظ کا یہ جرم نہیں جو بتایا جا رہا ہے، دراصل وہ کچھ عناصر کے راستے میں رکاوٹ بنا اور آج نتائج بھکت رہا ہے، ہیومن رائٹس پنجاب بار کونسل کے وائس چئیرمین ایڈووکیٹ ہادی علی کی آئی بی سی اردو سے گفتگو.
ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے انھیں سزائے موت کا حکم دیا ہے۔ایڈیشنل سیشن جج کاشف قیوم نے ہفتے کو سنٹرل جیل ملتان میں فیصلہ سنایا جس میں جیند حفیظ کو دفعہ 295 اے، بی اور سی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا، عمر قید، دس سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔یاد رہے یہ کیس کئی سال سے التواء کا شکار رہا، کیس کی پیروی کرنے والے اس سے پہلے وکیل راشد رحمان کو 2014 میں قتل کردیا گیا اور دیگر جو بھی وکیل کیس لیتا اس کو ہراساں کرکے بھگا دیا جاتا تھا.
جنید حفیظ کے خلاف 15 گواہوں کی شہادتیں اور زیر دفعہ 342 کے بیانات مکمل کیے گئے۔ مقدمے کے بقیہ 11 گواہوں کو غیر ضروری جان کر ترک کر دیا گیا یاد رہے سابق یونیورسٹی لیکچرار جنید حفیظ پر سوشل میڈیا پر مذہبی دل آزاری پر مبنی تبصرہ کرنے کا مقدمہ 13 مارچ 2013 میں درج کیا گیا تھا۔
تمام الزامات سے الگ ایک اور حقیقت پر بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ ھادی علی کا کہنا تھا کہ جنید اسی جامع کا گریجویٹ تھا اور باہر سے پڑھنے کے بعد وطن واپس آیا تھا. ایڈووکیٹ ھادی کا آئی بی سی اُردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ جنید کو مذہبی شدت پسند سیاسی جماعت کی طرف سے منع کیا گیا تھا کہ وہ بہاؤالدین زکریہ یونیورسٹی میں اس پوسٹ کے لیئے اپلائے نا کرے مگر جنید نے کیا، اس کا میرٹ پر نام آیا اور اس نے پڑھانا شروع کردیا.
مذہبی شدت پسند حلقے کی بات نا ماننا جنید کو مہنگا پڑگیا اور وہ کئی برس سے گستاخی کے الزام میں جیل کاٹ رہاہے، وائس چئیرمین ہیومن رائٹس پنجاب بار کونسل.
اس کیس کو سُننے والے کئی جج صاحبان کو بھی جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملیں یا ان کے تبادلے کروا دیئے گئے. ایڈووکیٹ ھادی کا کہنا ہے کہ وہ ہائی کورٹ میں اس کیس کی اپیل لیجانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ انصاف ہوگا.