صحافی ایسے ہوتے ہیں

برطانوی صحافی نے جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ برطانیہ کے موقعے پر برملا کہا کہ ’’آپ عزت و توقیر کے لائق ہرگز نہیں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما کو ملنی چاہیے۔‘‘ صحافی نے بلا جھجک یہ بھی کہہ ڈالا کہ نریندر مودی  صاحب ایک طرف آپ ویمیلے اسٹیڈیم میں خطاب کرنے جا رہے ہیں، دوسری طرف لندن میں جو لوگ آپ کی متشدد پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں،ان پر بھی غورکیجیے اور یاد کیجیے کہ گجرات میں بحیثیت وزیر اعلیٰ جو کارنامے آپ نے کر دکھائے ہیں، وہ آپ کی جمہوریت کے منہ پر ایک سیاہ اور خوفناک دھبہ ہیں لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ آپ کسی عزت کے لائق ہیں۔

یہ ہوتے ہیں صحافی۔ جو صحافت کی آبرو ہیں۔ غور کیجیے اس بات پر کہ وہ شخص جو کسی ملک کا وزیر اعظم ہے اور برطانیہ کے دورے پر آیا ہے۔ یعنی وہ برطانیہ کا مہمان ہے۔ اسے کھلے عام ایک سچا صحافی کھری کھری سنا دیتا ہے۔ نہ ہی برطانوی پولیس اس صحافی کوکالر سے پکڑ کر باہر نکالتی ہے نہ ہی ایجنسیوں کا نزلہ اس پرگرتا ہے نہ ہی حکومت اسے گرفتار کرکے سزا سناتی ہے اور نہ اس کی ملازمت خطرے میں پڑتی ہے کیونکہ وہاں سب جانتے ہیں کہ صحافی کا کام سچ کو سامنے لانا ہے نہ کہ سچ کو جھوٹ اور مصلحت کے لفافے میں بند کرکے اپنی جیب میں رکھنا۔

کیا پاکستان میں کوئی صحافی ایسی ہمت دکھا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ خود ہی اس حماقت سے دور رہے گا۔ غیرملکی سربراہان مملکت کو تو چھوڑیے یہاں تو ارکان اسمبلی کے سامنے بھی ہمارے رپورٹر حضرات ’’حد ادب ملحوظ خاطر‘‘ رکھتے ہیں۔ جہاں تک تخت شاہی پہ جلوہ افروز طاقتور لوگوں کا سوال ہے تو پاکستان کی کسی بھی صحافتی لغت میں ایسا کوئی لفظ اب موجود نہیں ہے جس کو استعمال کرکے کوئی رپورٹر پوچھ سکے کہ عزت مآب آپ نے تو پہلے چھ ماہ میں ہی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی بشارت دی تھی؟ کیا ہوا وہ آپ کا اور برادرِ خورد کا جذباتی مکے لہرا کر عوام کی مشکلات کو ختم کرنے والا ’’اسم اعظم؟‘‘

یہاں تو کسی سرکاری کوریج کے لیے یا پریس کانفرنس میں بلوائے جانے والے رپورٹرز کے نام حکومتی میڈیا سیل کی منظوری کے بعد ہی فائنل کیے جاتے ہیں۔ایسے میں بھلا کس کی مجال ہے جو انواع و اقسام کی لذیذ ڈشیں چھوڑنے کا بھی سوچ سکے۔ فی زمانہ اسے ’’حماقت‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جو کہتے ہیں نا کہ ’’لوح بھی تو قلم بھی تو‘‘ وہی معاملہ ہے۔

پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے قحط بنگال میں لوگوں نے ایک بوری چاول کے لیے بیٹیاں بیچ دی تھیں۔ دور کیوں جائیے۔ 1971 میں جب ڈھاکا فال ہوا اور بنگلہ دیش بنا تو ایک بہاری خاندان کے ساتھ ایک لڑکی بھی آگئی تھی جو انھوں نے خریدی تھی۔ نام تھا اس کا چندا، لیکن صورت نام کے برعکس۔ میں نے کئی سال پہلے ایک کالم میں اس کا پورا احوال لکھا تھا۔ اسی غربت اور بھوک نے چندا سے اپنا گھر اور ماں باپ چھڑوائے اور پھر وہ وہاں پہنچ گئی جہاں بدنصیب اور خانماں برباد بنت حوا کا مقدر ہے۔ ایسے میں بھلا کون صحافی سچ کی سولی پہ چڑھ کے زندہ درگور ہوگا؟ یا پھر اس کی لاش کسی ندی نالے میں سے ملے گی۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔

چلیے یہ تو مان لیا کہ ہمارے ملک میں سچ کا پھل کبھی نہیں پکتا۔ کیونکہ اس کو کھانے کے اہل لوگ نہیں رہے۔ لیکن ایک اور المیہ بھی درپیش ہوتا ہے۔وہ یہ کہ دیگر اہل قلم خاص کر کالم نویس بھی اس کی زد میں آتے ہیں۔ کیونکہ کالم نگار کا سچ اگر شایع ہوگیا تو اس کی کمبختی تو بعد میں آئے گی، پہلے وہ ہاتھ قلم کیے جائیں گے جن سے سچائی کے الفاظ ایڈٹ نہ ہوسکے۔

لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ گئے دنوں کی صحافت میں جو سچائی کی بہار تھی، وہ سرے سے ختم ہوگئی ہے۔ شاندار عمارت جل کر خاک ہوئی، لیکن نشان عظمت باقی ہیں۔ اب بھی اس دور کے کچھ صاحب ضمیر صحافی زندہ ہیں جنھوں نے سچ لکھنے کی پاداش میں کوڑے بھی کھائے، جیلیں بھی کاٹیں، بھوکے بھی رہے۔

آج بھی وہ عظمت رفتہ کی یادیں سمیٹے چپ چاپ کام کر رہے ہیں، قصیدہ خوانی اور یلو جرنلزم کی بڑھتی ہوئی یلغار کی طغیانی دیکھ رہے ہیں۔ اور ماتھا پیٹ رہے ہیں۔ کاش ہمارے وطن میں بھی کوئی ایسا جی دار صحافی ہوتا جو کسی بھی حاکم کے منہ پر اس کی کمزوریاں اور خامیاں بتانے کی ہمت جٹا پاتا۔ اب نہ حسرت موہانی ہیں، نہ مولانا ظفر علی خاں، نہ ابوالکلام آزاد۔ ایسے لوگ جنت میں بیٹھے ہمارے صحافتی نظام پہ آنسو بہا رہے ہیں۔

چند دن قبل ایک خبر نے بری طرح جھنجھوڑ دیا جس کے مطابق دوران پرواز پائلٹ کی شراب نوشی کی خبریں عام ہوئیں اور فوری طور پر جب خبر میڈیا پہ آگئی تو شجاعت عظیم نے 24 گھنٹے ایئرپورٹس پر ڈاکٹروں کی تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے اور پرواز سے پہلے پائلٹ سمیت تمام کیبن کریو کا طبی معائنہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ پائلٹ اورکو پائلٹ دوران پرواز خود کو راجہ اندر سمجھتے ہیں۔ ایک طرح سے تمام عملہ پائلٹ کی مرضی کا ہوتا ہے۔ یہ خبریں بھی اب میڈیا کے ذریعے عام ہوچکی ہیں کہ ہماری کتنی ایئرہوسٹسں اور اسٹیورڈ اسمگلنگ میں ملوث رہے ہیں۔

بیرون ملک انھیں گرفتار بھی کیا گیا ہے جب کہ اندرون ملک ان کی گرفتاری اور چیکنگ کا کوئی وجود نہیں۔ یہ کام سب بھائی بند مل کے کرتے ہیں۔ کیبن کریو کے عملے کا سامان چیک نہیں ہوتا۔ان کی حرکات کاسب کو سب پتہ ہے لیکن کوئی دخل اندازی نہیں کرتا۔ میں نے متعدد بار مختلف ایئرلائن سے سفر کرنے کے دوران وہ وہ نظارے دیکھے ہیں جو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ سب دیکھ رہے تھے اور سب چپ تھے۔

ایسے پائلٹوں کو انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہے جو شراب و شباب کے نشے میں دھت مسافروں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹروں کے طبی معائنے کی بات ہے تو کیا وہ الکحل سے آشنا نہیں ہوں گے؟ کیا ضمانت ہے اس بات کی کہ ڈاکٹر ایمانداری سے چیک اپ کے بعد صحیح رپورٹ دے گا؟ بیرون ملک سے قیمتی موبائل اور قیمتی مشروبات کے عوض یہ ڈیل بری نہیں کہ پائلٹ اور کیبن کریو کو کلین چٹ دے دی جائے؟ یہاں حلف اٹھا کر حکمران قوم کو تباہی سے دوچار کردیتے ہیں۔ ایسے میں ڈاکٹر کا چھوٹا سا سرٹیفکیٹ بھلا کیا اہمیت رکھتا ہے۔ نشہ ضروری ہے خواہ اقتدار کا ہو، شباب کا ہو یا شراب کا۔ مرنے والے مر جاتے ہیں بلیک باکس کی سچائی چھپا لی جاتی ہے اور ایئرلائن پر قتل عمد کا مقدمہ بھی نہیں بنتا۔

بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے