ہمیں صحیح تاریخ کیوں نہیں پڑھائی جاتی ؟یہ آپکے لئے تو ایک سوال ہے لیکن میرے لئے لیکچر کا موضوع تھا۔ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے کچھ سینئر اساتذہ کافی دنوں سے اصرار کر رہے تھے کہ ان کے ادارے میں کمیونیکیشن اسٹڈیز کے طلباء و طالبات کو پاکستان میں آزادی صحافت کیلئے جدوجہد کی اصل تاریخ سے آگاہ کرنے کیلئے کچھ وقت نکالوں۔میں نے ان معزز اساتذہ سے کہا کہ طلباء و طالبات تک اصل تاریخ پہنچانے کا کام آپ کیوں نہیں کر رہے ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم وہی پڑھاتے ہیں جو نصابی کتب میں لکھا ہے لیکن نصابی کتب میں سیاسی تاریخ بھی نامکمل ہے اور صحافتی تاریخ بھی مسخ شدہ ہے اس لئے ہم کبھی کبھی ایسے لوگوں کو لیکچر کیلئے بلا لیتے ہیں جو نئی نسل کو نصابی کتب سے باہر بکھرے ہوئے سچ سے آگاہی دے سکیں اور یہ کام ہم بالکل خاموشی سے کرتے ہیں تاکہ ہماری علمی سرگرمی کو سیاسی رنگ دیکر ہماری یونیورسٹی کے خلاف کوئی ہنگامہ نہ کھڑا کیا جا سکے۔ بار بار کے اصرار پر مجھے ہتھیار پھینکنے پڑے اور میں اس مشکل موضوع پر گفتگو کیلئے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ پاکستان میں آزادی صحافت پر گفتگو شروع ہوئی تو مجھے یہ جان کر اطمینان ہوا کہ کئی طلباء و طالبات نے ضمیر نیازی صاحب کی کتاب (PRESS IN CHAINS)پڑھ رکھی تھی ۔ میں نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ احفاظ الرحمان صاحب کی کتاب ’’سب سے بڑی جنگ ‘‘ بھی پڑھ لیں جس میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں آزادی صحافت پر لگائی جانے والی پابندیوں کے خلاف مزاحمت کی داستان بڑی تفصیل سے بیان کی گئی ہے ۔ہماری گفتگو آزادی صحافت سے شروع ہوئی اور پھر تیکھے تیکھے سیاسی سوالات شروع ہو گئے ۔ان سوالات کے پیچھے شوخی شباب کم اور دردمندانہ اضطراب زیادہ تھا۔ایک طالبہ نے پوچھا ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہے جاپان کی جاپانی ہے چین کی چینی ہے تو پھر ہم اپنی قومی زبان کو پاکستانی کیوں نہیں کہتے؟ایک سندھی طالب علم نے پوچھا کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا دونوں کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا گیا؟ ایک بلوچ طالب علم نے کہا کہ جی ایم سید نے پاکستان توڑنے کا نعرہ لگایا لیکن فوجی حکمران ان پر مہربانیاں کرتے رہے جبکہ اکبر بگٹی نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور کبھی پاکستان توڑنے کا نعرہ نہ لگایا پھر انہیں غدار کیوں کہا گیا اور قتل کیوں کیا گیا؟ سب سے مشکل لیکن دلچسپ سوال بنوں کے ایک پختون نوجوان نے کیا۔ اس نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ جو بھی سیاست دان یا سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوتا ہے وہ عوام سے دور ہو جاتا ہے ؟ میں نے نوجوان سے کہا کہ آپ کے سوال کا پس منظر کیا ہے ؟ کہنے لگا کہ 2008ء میں اے این پی ہمارے صوبے کی حکمران بنی اور اس نے ہمارے صوبے کو نیا نام بھی دیا لیکن اے این پی کی اسٹیبلشمنٹ سے قربت نے اسے عوام سے دور کر دیا اور 2013ء میں تحریک انصاف ہمارے صوبے کی حکمران بنی لیکن تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ بن کر اپنی ساکھ مجروح کر لی اور اب ہمارے دلوں سے اتر چکی ہے ۔ میں نے پوچھا کہ کیا خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی؟ نوجوان نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات ہمیشہ وہی جماعت جیت لیتی ہے جو صوبے میں حکمران ہوتی ہے لیکن اصل فیصلہ تو عام انتخابات میں ہوتا ہے ۔
نوجوان کے سوال نے ایک نئی بحث چھیڑ دی اور میں خود بولنے کی بجائے نئی نسل کے خیالات میں نئی نئی باتیں تلاش کرنے لگا۔ مظفر گڑھ کے ایک نوجوان نے اپنے روائتی سرائیکی لہجے میں اردو اور انگریزی کو ملا کر کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو جب تک جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہتے رہے عوام نے ایوب خان کی سب سے بڑی مخالف فاطمہ جناح کو مادر ملت کا درجہ دیئے رکھا لیکن جب بھٹو نے فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف بغاوت کی تو وہ فخر ایشیا بن گیا اور تختہ دار پر لٹک کر ہمارا ہیرو بن گیا۔ نواز شریف کی سیاست جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوئی لیکن وہ عوامی لیڈر اس دن بنا جب اس نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کی ۔ ایک طالبہ نے کہا کہ اگلے عام انتخابات میں بلوچستان کی حکمران جماعت کے ساتھ وہی ہو گا جو خیبر پختونخوا میں اے این پی کے ساتھ ہوا ۔ میں نے نوجوانوں سے پوچھا کہ پیپلز پارٹی نے باربار اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتے کئے لیکن یہ پارٹی سندھ میں ختم کیوں نہ ہوئی ؟ایک برقعہ پوش طالبہ نے جواب میں کہا کہ اسکی والدہ سندھی اور والد پنجابی ہیں اس کی والدہ کا کہنا ہے کہ سندھ کے لوگ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی میں موت کو کبھی نہیں بھول سکتے اور جو جو جنرل ضیاء کے ساتھ رہا اسے کبھی معاف نہیں کیا جائے گا ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا فی الحال کوئی متبادل نہیں ۔
ایک طالب علم نے پوچھا کہ ہماری نصابی کتب میں یہ کیوں نہیں بتایا گیا کہ جنرل ایوب خان نے دھاندلی کے ذریعہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں شکست دی اور جنرل ضیاء الحق نے جی ایم سید کے ساتھ ایک نہیں بلکہ دو ملاقاتیں کیں؟ کیا جی ایم سید کی سرپرستی پاکستان سے دشمنی نہیں تھی؟ یہ ایک مشکل سوال تھا ۔میں نے جواب میں عرض کیا کہ ہو سکتا ہے جنرل ضیاء کے حامیوں کا خیال ہو کہ جی ایم سید سے ملاقات کا مقصد انہیں وفاق کی حمایت پر راضی کرنا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ جنرل ضیاء الحق نے جی ایم سید کو 1987ء میں بھارت کے دورے کی اجازت بھی دی اور وہاں جاکر انہوں نے کہا کہ جنرل ضیاء کو میں بھٹو سے بہتر سمجھتا ہوں ۔ جنرل ضیاء اور جی ایم سید کے تعلقات کی تفصیل ضیاء کے ایک قریبی ساتھی اور سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جہانداد خان نے اپنی کتاب ’’قیادت کا بحران ‘‘ میں بیان کی ہے ۔ جنرل ضیاء اور جی ایم سید کی پہلی ملاقات الٰہی بخش سومرو نے لیاقت میموریل اسپتال حیدر آباد اور دوسری کراچی میں کرائی تھی ۔ جہانداد خان کی موجودگی میں جی ایم سید نے جنرل ضیاء سے کہا کہ آئندہ آپ مجھے خاموشی سے ملا کریں کیونکہ میری پارٹی کے کچھ لوگ ناراض ہو جاتے ہیں ۔ جہانداد خان نے لکھا ہے کہ جنرل ضیاء نے جی ایم سید کے رشتہ داروں کو سرکاری ملازمتیں بھی پیش کیں اور ان دونوں کی دوستی کی واحد وجہ صرف پیپلز پارٹی سے دونوں کی نفرت تھی ۔ پیپلز پارٹی سے نفرت میں ایک فوجی ڈکیٹیٹر سے دوستی جی ایم سید کو مہنگی پڑی اور انکی پارٹی ٹوٹ گئی ۔رسول بخش پلیجو، ڈاکٹر قادر مگسی، جام ساقی اور دیگر سندھی قوم پرستوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر بحالی جمہوریت کی تحریک میں بھرپور حصہ لیااور قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ بحالی جمہوریت کی اس تحریک (ایم آرڈی ) میں بیس ہزار سے زائد سیاسی کارکن گرفتار ہوئے، صرف سندھ میں آٹھ سو کے قریب لوگ مارے گئے اور جن کو کوڑے مارے گئے ان کا کوئی شمار نہیں ۔اس لڑائی میں ولی خان کی این ڈی پی، مولانا شاہ احمد نورانی کی جے یوپی، مولانا مفتی محمود کی جے یوآئی، مسلم لیگ خیر الدین گروپ، مسلم لیگ ملک قاسم گروپ، اصغر خان کی تحریک استقلال، معراج محمد خان، اقبال حیدر، فتح یاب علی خان، شیرباز مزاری، نوابزادہ نصراللہ خان، میر غوث بخش بزنجو اور جی ایم سید سے بغاوت کرنے والے جئے سندھ کے بہت سے کارکن بھی آگے آگے تھے ۔ اس تحریک کے دوران حبیب جالب نے کہاتھا ۔
جاگ میرے پنجاب کہ پاکستان چلا
ٹوٹ چلے سب خواب کہ پاکستان چلا
سندھ، بلوچستان تو کب سے روتے ہیں
اور اہل پنجاب ابھی تک سوتے ہیں
1988ء کے انتخابات میں ایم آر ڈی سیاسی اتحاد نہ بن سکی اور خفیہ ادارے اسلامی جمہوری اتحاد بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ پیپلز پارٹی نے خفیہ اداروں سے لڑنے کی بجائے غلام اسحاق خان کو صدر کے طور پر تسلیم کر لیا لیکن غلام اسحاق خان نے 1990ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو برطرف کرکے جی ایم سید کی مدد سے اس پارٹی کو سندھ سے ختم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔1990ءمیں بے نظیر بھٹو کے انکل غلام مصطفیٰ جتوئی اور انکل عبدالحفیظ پیرزادہ نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا 2015ء میں بلاول بھٹو زرداری کے کچھ انکل اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا تاثر دیکر پیپلز پارٹی کو کمزور نہیں مضبوط کر رہے ہیں۔معاملہ صرف سندھ تک محدود نہیں۔ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت عوامی مزاج کا حصہ بن رہی ہے اورشاید اسی لئے کچھ لوگ یہ کہہ کر اپنی سیاست بچا رہے ہیں کہ اگر انہیں دو شریفوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ سویلین شریف کا ساتھ دیں گے اس شریف پر پیپلز پارٹی سے نرمی برتنے کا الزام ہے ۔
بشکریہ:روزنامہ جنگ