انسان جب غیرمہذب تھے تو ہاتھوں سے لڑاکرتے تھے۔آج بھی ہاتھا پائی اور گتھم گتھی والی لڑائیاں غیرمہذب اورکمزورکرتے ہیں۔پھرکچھ وقت گزرا توانسان نے پتھر اور لکڑی کو بطورآلہ حرب استعمال کرناشروع کردیا۔ذرا اورصاحب علم اور تہذیب یافتہ ہوئے تو تلوار اورتیرکی اختراع نے فن جنگ کو چارچاند لگادئے اور موت کے سوداگروں کے وارے نیارے ہوگئے۔کیونکہ نقصان جتنازیادہ ہو نفرت اتنی شدید ہوتی ہے اورجنگ کا عرصہ بھی طویل ہوجاتا ہے۔
ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔یہ انسانی تہذیب کے عروج کی صدی ہے۔جہاں انسان نے زندگی کے ہرشعبے میں ترقی کی اور معجزے کی حدتک کائنات کو تسخیر کیا تو کیسے ممکن تھا کہ وہ فن جنگ میں بھی جدید طریقے متعارف نہ کراتا۔حقیقت تو یہ ہے ہم نے جتنی ترقی فن جنگ میں کی کسی اور شعبے میں اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
اکیسویں صدی کے آلات حرب کیا ہیں؟ اس کاجواب دوٹوک نہیں دیاجاسکتا۔مطلب یہ کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج کاآلہ حرب ایٹم بم ہے،بندوق ہے یا جہاز ہے۔آپ موجودہ دورمیں لڑائی کے ہتھیار کی تحدید نہیں کرسکتے ۔بارودسے لیکر انٹرنیٹ،آرٹ اور قلم تک ، پانی سے لیکرتیل ،غذائی مواد اور ہواتک، حتی کہ مذہب ، عقیدے اور نظریے تک انسان نے ہرشے کو آلہ حرب بنالیا ہے۔
عصرحاضر کاانسان جس طرح تاریخ کاطاقتور ترین انسان ہے اسی طرح وہ عاجزترین بھی ہے۔جنگ کے ابتدائی تین مراحل میں کہ جب ہاتھ ،لکڑی اورتلوار سے لڑائی کی جاتی تھی۔اسوقت دشمن کاتعین بھی آسان ہوتا تھا اور جنگ کو روکنا بھی ممکن تھا۔جنگ مسلط کرنے والوں اور موت کے سوداگروں کی پہچان بھی اتنی مشکل نہ تھی جتنی کہ آج ہوچکی ہے۔اب نہ میدان میں لڑنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ سچ کیاہے اور نہ عام شہری کو حقیقت کاادراک ہوپاتاہے۔
اکیسویں صدی کی جنگ ذرامختلف ہے۔یہ جنگ دہشت گردی کے نام پر لڑی جارہی ہے۔کہا یہ گیا کہ یہ جنگ انسانیت اورانسانی وقار کے لئے ہے۔مذہب اورنسل سے بالاترہوکر۔یہ لڑائی جب شروع ہوئی تو دیمک کی طرح بس پھیلتی ہی چلی گئی۔کیا عیسائی،کیامسلمان،کیایہودوہنود اورکیالادین ،سب اس جنگ کاحصہ ہیں۔جنگ جوں جوں بڑھتی جارہی ہے کنفیوژن میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اس جنگ کے سب سے بڑے متاثرین مسلمان ہیں۔ عام مسلمان۔ جو یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ ہمارا دشمن کون ہے۔پچھلی صدی میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلم دنیا ایسی جنگوں کو استعماری اور تہذیبی جنگیں کہتی تھی۔مدمقابل یورپی ممالک تھے ۔ہمارے ذہنوں میں یہ بات راسخ تھی کہ مغربی ممالک اسلام دشمن ہیں اور ہماری زمین اور وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔آزادی کی کوششوں کے بعد جیسے جیسے وہ مسلم ممالک سے کوچ کرتے گئے اسلامی سیاسی جماعتیں وجود میں آتی گئیں اورحکومتی ایوانوں میں داخل ہوتی چلی گئیں۔کیونکہ استعماری جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے لوگ مذہبی طبقے کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔
ستر کی دہائی کے اواخر میں ایران میں انقلاب آیا،اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ سوڈان میں حسن ترابی نے اسلام کے نام پر حکومت ہتھیائی ۔پاکستان میں ایک آمر نے مذہب کے نام پر عوام کو ورغلایا۔ترکی میں نجم الدین اربکان کی اسلامی جماعت زور پکڑتی نظرآئی۔طالبان نے افغانستان اسلامیہ کی بنیاد رکھ دی ۔ یہ تمام تبدیلیاں ایکدم رونما ہوئیں اور ان سب پر اسلام کاٹھپہ لگا ہواتھا۔اگرچہ ان میں سے اکثریت کے خطوط میں راستی کا عنصر کم تھامگر اس کے باوجود یہ تبدیلی واضح اشارہ تھا کہ عالم اسلام کامستقبل مذہب اسلام ہے نہ کہ مغربی و جمہوری اقدار۔صرف تین دہائیوں کے اندر اسلامی جماعتوں نے کئی مسلم ممالک میں مضبوطی سے اپنے قدم جمالئے۔
یہ منظرنامہ امریکہ اور یورپ کے لئے تشویشناک تھا۔انہوں نے اپنے تہذیبی غلبے کے لئے انتہائی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔استعمار ایک نئے روپ میں سامنے آیا۔اس نے اسلامی یلغار روکنے کے لئے اسلام ہی کو ہتھیاربنایا۔ اس نے مسلم ممالک کے مذہبی جنونیوں کی طرف توجہ کی۔انہیں سعودی عرب اور ایران جیسے مسلم ممالک کے ذریعے طاقتورکیا۔یہ جنونی مذہب کی روح اور جدید دنیا سے نابلد تھے۔طاقتورجنونی خاموشی سے بیٹھ نہیں سکتا۔انہیں لڑنے کے لئے میدان چاہئے ہوتا ہے۔یہ اسکی نفسیاتی مجبوری ہوتی ہے۔مغرب اپنی سرزمین کو میدان نہیں بننے دے سکتا تھا۔اس نے مسلم جغرافیے میں مشرق وسطی کا انتخاب کیا۔اس نے افغانستان کے بعد عراق پر حملہ کردیا۔وہاں طاقت کاتوازن اور استحکام قائم کئے بغیر چپ چاپ نکل گیا۔عراق اب مذہبی جنونیوں کے رحم و کرم پر تھا۔وہ کام جو امریکہ اور یورپ خودکرنا چاہتے تھے وہ اب مسلمان خود انجام دینے لگے۔یہ جنگ اب ایمان کی جنگ بن گئی ہے۔ان جنونیوں نے فرقہ واریت کے پردے میں اوراسلامی نظام کے نفاذ کی آڑمیں ایکدوسرے پر اور عام شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم دنیا کے عوام اسلامی جماعتوں سے چاہے وہ سیاسی کیوں نہ ہوں متنفر ہوگئے۔وہ مذہبی طبقہ جو جنگ کاحصہ نہیں شدیدتذبذب کاشکار ہے ۔وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا کہ کس کے ساتھ کھڑا ہو۔کیونکہ مذہی مسلح جماعتیں جوکچھ کررہی ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے بالکل برخلاف ہے۔اب انکے پاس دو راستے رہ جاتے ہیں ۔یاتو مذہب کے نام پر ناجائز ستم کرنے والوں کی حمایت کریں یاپھرامریکہ کی۔کیونکہ بظاہر دہشت گردی کے خلاف جنگ کاعلم امریکا نے اٹھا رکھا ہے۔یہی حالت عام مسلمانوں کی بھی ہے۔وہ کنفیوزڈ ہیں کہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں ۔یاتو مغربی اقدار اور نظام قبول کرلیں اور یاپھراسلامی نظام کے نام پر مذہبی جنونیوں کے جوتے کھانے کے لئے تیار رہیں۔
جولوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغرب دہشت گردی اورتشدد کا قلع قمع کرنے میں واقعی مخلص ہیں وہ غلط فہمی کاشکار ہیں۔یہ گروہ امریکہ کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔وہ انہیں ختم کرنے کی بجائے ضرورت کے مطابق انکی کانٹ چھانٹ کرتا رہے گااور جہاں حاجت ہوگی انکے لئے میدان ہموار کرتا رہے گا۔
خلاصہ یہ کہ آپ کے پاس دو آپشن ہیں۔ امریکہ یا مذہبی جنونی۔ آپ کیا پسند کریں گے؟