جہلم میں مبینہ توہینِ مذہب کے واقعے کے بعد کشیدگی کی فضا ہے جبکہ حکومت نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فوج تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔
جہلم میں جمعے کی شب مشتعل ہجوم نے مبینہ توہینِ مذہب کے الزام کے بعد ایک فیکڑی پر حملہ کر دیا تھا جہاں وہ شخص ملازمت کرتا ہے جس پر وہاں کے ہی ایک ڈرائیور نے قرآن کو مبینہ طور پر نذرِ آتش کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے جہلم واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے شہر میں امن و امان قائم کرنے کے لیے فوج کو صوبائی حکومت کے مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کے اجازت نہیں دی جائے گی۔
جہلم کے ضلعی پولیس افسر مجاہد اکبر خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ الزام کے بعد احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ملازم قمر احمد طاہر کو پولیس نے حراست میں لیا تھا اور ان کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا جا چکا تھا۔
تاہم جماعت احمدیہ نے ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ ’ایک منصوبے کے تحت فیکٹری کو آگ لگا کر احمدیوں کو زندہ جلانے کی عمداً کوشش کی گئی۔ کسی شخص نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے دشمنی کی آگ کے تحت قرآن کریم کی مبینہ بے حرمتی کا شر انگیز الزام لگایا ہے۔‘
جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا بتایا کہ ’مساجد سے لاؤڈ سپیکرز پر اعلان کر کے مشتعل ہجوم کو اکھٹا کیا گیا۔ جس نے فیکٹر ی پر پتھراؤ کیا اور توڑ پھوڑ کرنے کے بعد فیکٹری کو آگ لگا دی۔‘
ڈی پی او مجاہد اکبر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ فیکڑی پر ہجوم کے حملے کے بعد کی اطلاع کے بعد فیکڑی کے اندر موجود قریباً 15 سے 16 افراد کو بچا لیا گیا تھا۔ یہ افراد ملازمین اور ان کے خاندان کے افراد تھے جو اس فیکٹری احاطے کے اندر ہی مقیم تھے اور ان سب کا تعلق احمدی برادری سے ہے۔
ڈی پی او مجاہد اکبر خان کے مطابق اس واقعے میں کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تاہم فیکڑی میں آگ لگنے سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ ان کے بقول آگ سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ مشتعل ہجوم کے خلاف بھی مقدمہ درج کر دیا گیا ہے جس میں کم سے کم ایک ہزار افراد شامل تھے اور مزید کارروائی کی جا رہی ہے۔
ڈی پی او کا کہنا تھا کہ اس وقت زیادہ توجہ قیامِ امن پر ہے۔ انھوں نے بتایا کہ علاقے میں موجود احمدی برداری کے افراد کی سکیورٹی کے لیے پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
فیکٹری کے مالکان کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے اور ملازمین کی اکثریت بھی احمدی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
آگ لگنے سے فیکٹری کا 70 فیصد سے زائد حصہ جل کر تباہ ہو گیا ہے جبکہ فیکٹری کے احاطے میں موجود آٹھ متعدد گاڑیاں بھی جلا دی گئیں۔