ایک انتہائی غیر اہم بات آپ سے کرنے لگا ہوں ۔ فالتو لوگ باہر چلے جائیں ۔ نیک لوگ سو جائیں اور بے کار قسم کے لوگ قریب قریب آ جائیں ۔ چھوٹے بچوں کو ان کے باپوں سمیت باہر نکال دیں ، ملکی حالات دیکھیں اور انہیں بچے پیدا کرنے کے سوا کوئی اور کام ہی نہیں سوجھتا ۔
پاکستان میں آٹھ مارچ کا سورج طلوع ہو چکا ہے ۔ آپ میں اگر ایمان کی رتی بھی ہے تو خدارا جا گیے گا مت ، سوتے رہیں ۔ اس کے کئی فائدے ہیں ۔ پاکستان سے آنے والی اطلاعات کے مطابق ایک تو شدید سردی ہے ، تیز بارش ہے اور دوسرا کرونا وائرس دندناتا پھر رہا ہے ۔ شرعی لحاظ سے بھی اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا درست نہیں اور غیر شرعی لحاظ سے بھی اپنی “ جان “ کو خطرے میں ڈالنا مناسب نہیں ۔
تیسری بات میرے ذہن میں نہیں رہی البتہ چوتھی بات یہ ہے کہ اس سچ سے بچو جس سے فساد پھیلنے کا خطرہ ہو ، آپ کے جاگنے سے کیونکہ وسیع پیمانے پر فساد پھیلنے کا خطرہ ہے ۔ اس لیے میری گزارش ہے کہ خدا کے لیے آپ سوتے رہیں ۔ ویسے بھی علماء کے سونے عبادت قرار دیا گیا ہے ۔ اس کی شاید یہی وجہ ہو ۔
میں آپ کو یقین آپ کے یقین سے کہتا ہوں کہ یہ عورت مارچ ٹائپ لوگ کل بیس پچیس سے زیادہ نہیں ہوں گے ۔ انہیں اپنے جسم کے ساتھ اپنی مرضی کرنے دیں اور آپ اپنے جسم کو خدا کی مرضی کے عین مطابق سلا دیں ۔ ویسے بھی آج اتوار ہے ۔ تو آپ سے بات ختم ہوئی ۔
اب میرے ساتھ ایک وعدہ کریں کہ اس سے نیچے جو میں لکھوں گا وہ آپ نہیں پڑھیں گے ۔
تو بات کرتا ہوں اب عورت مارچ کے حمایتیوں اور مارچ میں شرکت کر نے والوں سے ،،
اے ریاست ، ملائیت اور قبائلیت کے تین اندھیروں سے خدا کو اپنی مظلومیت کے لیے پکارنے والو،
یاد رکھو ، تم کوئی چھوٹا کام نہیں کر رہے ۔ اگر تمھیں اس کام کے لیے کہیں سے فنڈ بھی مل رہا ہے تو یاد رکھو ، وہ فنڈ افغان جہاد میں لوگوں کو قتل کرنے کے لیے امریکا اور روس کی جانب سے برسائے گئے ڈالروں سے لاکھ درجے بہتر ہے ۔ تم لوگوں کو مارنے نہیں ، انہیں ظلم سے بچانے نکلے ہو ۔ تم لاشوں کو تڑپانے نہیں ، خوشی کے رقص کروانے نکلے ہو ۔ تم رومی کی طرح می رقصم می رقصم کے شور پر شعور کی دھمال ڈالتے جاؤ ۔
ایک جماعت کے رکن اسمبلی نے مجھے کہا کہ یہ تم سستی شہرت کے حصول کے لیے کر رہے ہو ۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ذہین آدمی کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ شہرت کے لیے سستا راستہ اختیار کرے ۔ مجھ میں مولانا صلاح الدین ، مولانا قاری شمس الدین جیسی ہمت تو نہیں کہ میں مشہور ہونے کے لیے "اتنا” مہنگا راستہ منتخب کروں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ جیسے کہیں ،یہ آپ کی مرضی ہے لیکن بقول آپ کے ، یہ بیس لوگ نہیں ، تو بیس بندوں میں ، میں کیا مشہور ہو سکتا ہوں ؟ ۔
مجھے پورا یقین ہے کہ آپ لوگوں کے ذہن میں شاید اس پوری تحریک کا پس منظر نہیں ہوگا . واقعات آپ کے علم میں نہیں ہوں گے ۔ اس لیے آپ بات کو ٹھیک طریقے سے نہیں سمجھ سکے ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ آپ کو بتانے والوں نے درست نہ بتایا ہو ۔
میں چند لچکتے ہوئے جملے لکھ کر خلیل الرحمان قمر کی طرح راتوں رات صالحین کا امام بن سکتا ہوں لیکن جسے میں سچ سمجھتا ہوں ، جسے میں ٹھیک سمجھتا ہوں اس پر کمپرومائز کرنا میرے لیے ممکن نہیں ۔
عورت صدیوں سے ظلم کی چکی میں پس رہی ہے ۔آپ اپنے گھر میں ہیں ۔ آپ نے دو تین بچے بھی پیدا کر لیے ہیں ۔ ایک روز کسی بات پر میاں بیوی میں تلخ کلامی ہوجاتی ہے ۔ آپ ٹھک سے تین طلاقیں دے مارتے ہیں اور بیوی سے کہتے ہیں نکل جاو میرے گھر سے ،،، وہ بچوں کو انگلی سے پکڑتی ہے اور روتے دھوتے نکل جاتی ہے . تین دن بعد آپ کی انا کا پارہ نیچے آتا ہے ۔ بچے یاد آتے ہیں . موزے ڈھونڈتے ہیں تو نہیں ملتے تو پھر اپنی انا کے بت پر قابو پاکر بیوی کو فون کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ میرے موزے کہاں ہیں ؟ بیوی آگے سے کہتی ہے کہ مجھے کیا پتا ، تمھارے موزے کہاں ہیں ؟ آپ کو خیال آتا ہے کہ اوہو ، یہ تو غلط ہو گیا ۔ اسے واپس بلانے کی کوشش کرتے ہیں ، یہاں مولوی صاحب انٹری مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ طلاق واقع ہو چکی ہے . اب حلالہ کے سوا کئی چارہ نہیں ( مجھے سمجھائیے گا نہیں ، میں اکثریتی کی بات کرتا ہوں ) . آپ کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے . عورت آپ کے غلطی کی سزا بھگتتی ہے . میرے رشک قمر ،،، یہ گلی محلے کے کیس ہیں . لیکن زرا رکیں ، آج آپ سے لمبی بات کرنے ہے .
دو مرد آپس میں لڑتے ہیں ، ایک قتل ہو جاتا ہے تو صلح کے لیے دوسرے فریق کو دبنے کے ساتھ اپنی چھ سالہ بیٹی کو ساٹھ سالہ بڈھے کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے ۔ پھر وہ بیٹی ساری عمر دوبارہ اپنا گھر نہیں دیکھ سکتی ، خاوند کے گھر میں وہ دشمن کی بیٹی کی طرح سسک سسک کر جیتی ہے اور ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتی ہے . ساٹھ سالہ بڈھا معاملات کے حوالے سے بھی فارغ ہوتا ہے . یوں بے دھیانی میں اکثر اوقات وہ گھر کے کسی اور کی غلیظ نگاہوں کا نشانہ بن جاتی ہے ، اس پر کسی کو کوئی خاص تکلیف بھی نہیں ہوتی کیونکہ اس کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ اسے سوارہ کہتے ہیں . اس کے خلاف کسی اور نہیں ، انہی بیس پچیس "اوباش” خواتین نے تحریک چلائی تھی ، قمری علماء تو تب آئے جب انہیں علم ہوا کہ پگڑی کی زرد دھاریوں اور ٹیڑھی ٹوپی کے درمیان میں سیاہی کے چھینٹے پڑ رہے ہیں .
آپ کی لڑائی ہو جاتی ہے ، آپ سے قتل ہو جاتا ہے ۔ آپ جا کر سیدھا اپنی بہن کے سر میں گولی مارتے ہو اور لاش اٹھا جسے قتل کیا ہوتا ہے ، اس کے قریب پھینک کر آ جاتے ہو ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہوا ؟ تو آپ قانون کی گرفت سے اپنی جان بچانے کے لیے کہتے ہو کہ کالی تھی ۔ اسے کارو کاری کہتے ہیں ۔
آپ اس ملک میں ہی رہتے ہو ۔ تین عورتوں کو ہمارے ملک کے ایک حصے میں رات کے اندھیرے میں زمین کھود کر زندہ دفنا دیا جاتا ہے ۔ کوئی سو سال پرانی بات نہیں کر رہا ، دس سال پہلے ، پارلیمان کے ایوان بالا میں سوال اٹھتا ہے تو بلوچستان کا ایک سینیٹر تقریر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پر بات نہیں ہوگی کیونکہ یہ ہماری روایات کا حصہ ہے ۔ آپ ہماری روایات اور اقدار کے خلاف بات نہیں کر سکتے . رؤف کلاسرا صاحب چاہیں تو اس پر زیادہ تفصیل سے آپ کو بتا سکتے ہیں ۔ بات ختم ہو جاتی ہے ۔ کوئٹہ میں بولان میڈیکل کالج کی طالبات نا انصافی اور بد سلوکی کے خلاف احتجاج کرتی ہیں تو وزیر تعلیم اٹھ کر کہتا ہے کہ بلوچ لڑکیاں مظاہرے نہیں کرتیں .
کیا آپ جانتے ہیں صرف 2016 میں غگ نامی رسم کی وجہ سے خیبر پختونخواہ میں 20 لڑکیوں نے خود کشی کی ۔ لیکن زرا رکیے تو ، پہلے آپ کو یہ تو بتا دوں کہ غگ کہتے کسے ہیں ۔ غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آواز لگانے یا اعلان کرنے کے ہیں۔ آپ کو ایک لڑکی پسند آگئی ۔ آپ اس لڑکی کے ساتھ شادی کا اعلان کر دیتے ہیں ۔آپ کے اعلان کے بعد روایات کے مطابق برادری کا کوئی اور شخص اس خاتون کے لیے رشتہ نہیں بھجوا سکتا .وہ ساری عمر یونہی گزار دیتی ہے . اس روایت کے تحت اس میں خاتون، اس کے والدین یا رشتہ داورں کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی۔ یہاں یہ بھی بتا دوں ، آپ یہ اعلان کر کے شادی نہیں کرتے ، بلکہ آپ کا مقصد صرف اس لڑکی اور اس کے خاندان والوں کو تنگ کرنا ہوتا ہے ۔
آپ کی بیٹی ذہین ہے ، پڑھنا چاہتی ہے ۔ آگے بڑھنا چاہتی ہے لیکن آپ نے تو بچپن میں طے کیا ہوا ہے کہ آپ نے اس کی شادی اس کے کزن سے ہی کروانی ہے ۔ لڑکی کو لڑکا یا لڑکے کو لڑکی پسند ہے یا نہیں ، بس آپ کو پسند ہے ۔ ہمارے ایک جاننے والوں کی بیٹی نے ایف ایس سی میں ہزارہ بورڈ ٹاپ کیا ۔ بی ایس سی میں بھی فرسٹ ڈیویژن اے ون گریڈ حاصل کیا ۔ اس کے والد نے اس کی اپنے بھائی کے بیٹے کے ساتھ شادی کروا دی . یہ شادی بچپن میں طے ہوئی تھی . میں لڑکے کو بھی جانتا ہوں . شادی سے کچھ عرصہ پہلے کہا بھی آپ زرا غور کر لیں . لڑکی کے چہرے پر لڑکے کا نام آتے ہی کچھ خوشگوار تاثرات نہیں ہوتے تھے ۔ میں نے ایک بار محسوس کر لیا لیکن رونے سے بچے کا مسئلہ جاننے والی ماں جانتے بوجھتے محسوس نہ کر سکی . شادی ہوگئی ، سال بھی نہیں چل سکی ۔ لڑکی پر تشدد کر کے اسے نفسیاتی مریض بنا دیا گیا اور گھر سے نکال دیا گیا ۔ اب وہ صلح کرنا چاہتے تو لڑکی کہتی ہے مجھے خدا بھی آکر کہے تو اس گھر میں نہیں جاؤں گا ۔ لڑکی کا جسم تو تھا لیکن مرضی اس پر کسی اور کی تھی .
آپ جبری شادیاں کرواتے ہیں اور ساتھ کہتے ہیں کہ اب بیٹا ، اس گھر سے تمھاری لاش ہی آنی چاہیے ۔ لاش بھی کہاں آتی ہے ۔ وہیں دفن ہوتی ہے ۔ بس وہ پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ، آپ پندرہ بیس سال کی عمر میں کرتے ہیں۔
آپ کے گھر میں بیٹی ہوتی ہے . جب دوسری بیٹی پیدا ہوتی ہے تو آپ کے چہروں پر نفرت اور غم آپ کی بیٹی واضح طور پر دیکھتی ہے . آپ کے بیٹا پیدا کرنے کے لیے بیٹی سے دعائیں کرواتے ہیں . بیٹی کو ٹکا کر سمجھاتے ہیں کہ ہم نے شادی تمھیں پیدا کرنے کے لیے نہیں ، بیٹا پیدا کرنے کے لیے کی تھی . وہ بیٹی بچپن سے دکھوں کو گلے لگاتی ہے ، چپ چاپ ایک جہنم سے دوسرے جہنم میں چلی جاتی ہے اور وہیں سے قبر میں پہنچ جاتی ہے .
آپ کے ہاں بیٹی پیدا ہو جاتی ہے ۔ قرآن تو ساڑھے چودہ سو سال پہلے کی بات کرتا ہے ۔ میں دو سال پہلے کی بات کرتا ہوں ۔ خاوند اپنی بیوی کو قتل کر دیتا ہے کہ تم نے بیٹی کیوں پیدا کی ۔ قتل نہ کرے تو پورا خاندان طعنے دیتا ہے ۔ عورت کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے ۔
وہ بیٹی بڑی ہو جاتی ہے . آپ اس رشتہ طے کرتے ہیں لیکن اسے جہیز نہیں دے سکتے یا کم دیتے ہیں .سسرال سے اسے طعنے ملتے ہیں ۔ وہ زندہ لاش بن جاتی ہے ۔ کسی روز خود پنکھے سے لٹک جاتی ہے ۔ آپ خود کشی کہہ دیتے ہو لیکن ماری آپ نے ہوتی ہے ۔ کبھی آپ اسے گولی سے مار دیتے ہو ۔ کبھی زندہ جلا دیتے ہو اور کہتے ہو کہ چولہا پھٹنے سے مر گئی ۔
میں نے ایسے کئی واقعات رپورٹ کیے ہیں ۔ مختلف اوقات میں اپنی پسند کی شادی کرنے پر پانچ جوڑوں کو پناہ دینی پڑی تھی ۔ بااثر خاندان کی ایک لڑکی نے ایک غریب لڑکے سے محبت کی شادی کی ۔ چار پانچ دن انہیں پناہ بھی دی ۔ اس پر اس وقت کے خیبر پختونخواہ کے گورنر کی جانب سے دھمکیاں بھی دی گئیں کیونکہ یہ اس روز جیو نیوز کی ہیڈ لائن بنی رہی، وہ ہر عید پر صبح سویرے مجھے فون کرتے . در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے ۔ آج ان کے تین بچے ہیں ، والدین سے صلح ہو چکی ہے .
آپ سمجھتے ہیں کہ بیٹی کی کسی اونچے گھر میں شادی کروانی چاہیے . اچھا سوچتے ہیں لیکن شاید آپ کی بیٹی ایسا نہیں سوچتی لیکن آپ ٹاٹ کے لباس میں ریشم کا پیوند لگانے پر مصر ہیں ۔ . بیٹی یا بہن کبھی یہ کہہ دے کہ نہیں ، مجھے یہاں شادی نہیں کرنی تو آپ سے برداشت نہیں ہوتا .
لڑکا جب اپنی بہن کو اپنی پسند کے بارے میں بتاتا ہے کہ بہن کے چہرہ مسکراہٹ سے سرخ ہوجاتا ہے لیکن اگر کبھی بہن بتا دے کہ فلاں لڑکا مجھے پسند ہے تو آپ کے اندر غیرت کے طوفان اور جھکڑ چلنا شروع ہو جاتے ہیں .
آپ کو اپنی جائیداد بچانی ہے ۔ لڑکی کی شادی ہوگئی تو وہاں حصہ دینا پڑے گا ۔ آسان سا طریقہ ہے کہ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی قرآن سے کر دیں ۔ اس عمل میں صرف ان پڑھ ہی نہیں ، ملک کے بڑے بڑے لوگ شریک ہیں ۔
آپ کسی لڑکی کا شادی کا جھانسا دیتے ہو ۔ اس سے تعلقات قائم کر تے ہو ، اسے بڑے بڑے خواب دکھاتے ہو ،ایک دن آپ کا جی بھر جاتا ہے ، آپ اسے بے آب و گیا ہ صحرا میں چھوڑ دیتے ہو ۔ وہ اپنی جان سے کھیل جاتی ہے ۔ ڈاکٹر کی رپورٹ آتی ہے کہ خود کشی تھی ۔ پولیس فائل بند کر دیتی ہے کہ خود کشی تھی ۔ آپ نئی شادی رچا لیتے ہو ۔ آج نہ مرتی تو کسی دن تو اسے مرنا ہی تھا ناں ، قسمت میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا ، حالانکہ کئی لوگوں نے خود کشیاں کیں ، بچ گئے ، جب موت کا وقت اٹل ہو تو کوئی نہیں بچا سکتا ۔ یہ جملے آپ کے ضمیر کی غیرت کو سلانے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔
اچھا ، آگے چلیں اور زرا دائیں بائیں دیکھتے ہوئے چلیں ،،،
آپ کو لڑکی پسند آتی ہے لیکن لڑکی کو آپ پسند نہیں آتے ۔ آپ اگلے دن تیزاب کی بوتل اٹھاتے ہیں اور جس سے محبت سے دعوے کرتے ہیں ، اس کا چہرہ جلا دیتے ہیں ۔ لاہور کی خدیجہ آپ کو یاد ہے جس نے چھریوں کے اٹھارہ زخم اپنے وجود پر سہے ۔ وکیلوں کا پورا لشکر اس کی کردار کشی کے لیے متحد ہو گیا . جج کو دھمکیاں دی گئیں .میں خدیجہ سے ملا تھا لیکن نظر یں نہیں ملا سکا ۔
آپ کو کنیئرڈ کالج کی وہ لڑکی یاد ہے جسے اسے پسند کرنے والے لڑکے نے کالج کے پل کر گولی مار دی تھی ۔ اسی کنیئرڈ کالج میں وہ لڑکی آپ کو یاد ہے جسے نقاب کرنے کی پاداش میں کالج سے نکال دیا گیا تھا ۔ کوئٹہ یونیورسٹی میں لڑکیوں کے واش رومز میں خفیہ کمیرے نصب کر کے لڑکیوں کو بلیک میل کیا جاتا تھا ۔ گومل یونیورسٹی مولانا ڈاکٹر صلاح الدین اسلامیات میں پاس کرنے کے لیے لڑکیوں سے جسم طلب کرتا تھا ۔ دفتروں میں پروموشن کے لیے جسم طلب کیا جاتا ہے ۔ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ جسم برائے فروخت کا بورڈ نہیں ، جسم کو درندوں سے محفوظ بنانے کی ایک چیخ ہے جسے درندوں نے فحاشی اور بے حیائی کا نام دے دیا ۔ یہ ٹرینڈ کوئی نیا نہیں ، جو حق مانگے وہ غدار ہے یا کافر ہے ۔
یہ سارے وہ کیسسز ہیں جن کے خلاف یہ بیس پچیس اوباش عورتیں ہی مجھے اپنی بیس سالہ صحافت میں نظر آتی ہیں . کبھی کسی مذہبی جماعت ، یا عالم دین نے اس کے خلاف آواز اٹھانا مناسب نہیں سمجھا لیکن آج جب یہ عورتیں اپنے حقوق کے لیے باہر نکلیں تو آپ کے چہروں اور رومالوں پر زردی چھا گئی .
آپ کو علم ہے کہ لاہور میں بیٹی نے روٹی گول نہیں بنائی تھی تو باپ نے مار دیا تھا ۔ آپ کو علم ہے کہ کھانا گرم نہ دینے پر اسی لاہور میں خاوند نے بیوی کو قتل کر دیا تھا ۔ آپ میری بات نہ مانیں ، گوگل پر سرچ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے بھائی نے کھانا جلدی نہ دینے پر اپنی دو سگی بہنوں کا قتل کر دیا تھا ۔ آپ نہیں جانتے کہ قندیل بلوچ کے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کیا ، گرفتار ہو گیا تو والدین نے معاف کر دیا ۔ آپ نہیں جانتے کہ حویلیاں میں ایک نہتی لڑکی کی کیری ڈبے میں سیٹوں کے ساتھ باندھ انتہائی نیک اور پرہیز گار لوگوں نے زندہ جلا دیا تھا ۔ کیری ڈبہ جل کر سیاہ ہو گیا تھا ۔ اس کی چیخوں سے پورا علاقہ کانپ گیا ۔ بندے رہا ہو گئے ۔ آپ نہیں جانتے کہ مری میں رشتے سے انکار کر اسکول ٹیچر کو پرنسپل نے مروا دیا تھا اور ایک اخبار جو علماء کے ہاں بڑا پسند کیا جاتا ہے ، وہ اور اس کا ایک کالم نگار اس قتل کو غیرت کا مسئلہ بنا رہا تھا ۔ آپ بھول گئے جب لاہور میں پسند کی شادی کرنے پر ماں نے خاوند اور بیٹے کے اصرار پر اپنی بیٹی کو صلح کے بہانے بلا یا اور زندہ جلا دیا تھا ۔ آپ کو کوہاٹ کی کرن یاد ہے ، جی وہی جسے کالج سے واپسی پر اس سے محبت کے دعوے دار نے والدین کی جانب سے رشتے سے انکار پر گاڑی سے اترتے وقت گولیاں مار کر قتل کر دیا اور پھر بھاگ کر سعودی عرب چلا گیا تھا ۔ آپ کو لاہور میں دار الامان والا کیس یاد ہے اور کیس کو اوپن کرنے والی خاتون کیسے مار دی گئی اور کیس ٹھپ ہو گیا ؟
میں اس درد اور دکھ کا حافظ ہوں ۔ مجھے کسی پاگل کتے نے نہیں کاٹا کہ بقول آپ کے بیس بندوں کے لیے صبح و شام اپنی ماں اور بہنوں کو ٹکے ٹکے کے لوگوں سے گالیاں دلواتا پھروں ۔ میں ہر گالی سنتا ہوں اور سہتا بھی ہوں ، میرے گھر والے ، میری بہنیں کہتی ہیں کہ سبوخ بھائی ، یہ کیا ہے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ ظلم کے خلاف بولنے کی قیمت ہوتی ہے ۔ میں یہ قیمت ادا کر رہا ہوں ۔
مظلوم کی حمایت آسان نہیں ہوتی ، سچ لکھنا مشکل کام ہے ۔اگر آپ کا قلم ظالم کے گریبان تک نہیں پہنچ پاتا ، اگر آپ کا قلم نثر نگاری کے جوہر تو خوب کھلاتا ہے لیکن مظلوم کے بارے میں لکھنے سے پہلے عقیدے ، نظریے ، عقیدت ، عصبیت ، علاقے ، زبان ، رنگ ، نسل کو کھوجتا ہے تو اس قلم کا بہترین مصرف ازار بند دانی ہے ۔
نوٹ : عورت مارچ چاہتا کیا ہے ؟ اگلے کالم میں