لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن ہراسمنٹ | سوشل میڈیا خواتین کیلئے وبال جان

[pullquote]گزشتہ دو ماہ کے دوران آن لائن ہراسمنٹ سے متعلق شکایات میں غیر معمولی اضافہ[/pullquote]

گزشتہ دو ماہ کے دوران آن لائن ہراسمنٹ سے متعلق شکایات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ جنسی ہراسمنٹ کے بڑھتے ہوئے واقعات نے سوشل میڈیا استعمال کرنے والی خواتین کا جینا محال بنا دیا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نامی تنظیم کا اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ ہے کہ پاکستان میں مارچ میں رپورٹ ہونے والے ہراسمنٹ کے کیسز کی شرح پہلے سے 180 فیصد زیادہ ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق مارچ اور اپریل میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں 74 فیصد خواتین کی جانب سے ہوئے، 19 فیصد کیسز کا تعلق مردوں کے ساتھ آن لائن جنسی ہراسگی سے تھا جبکہ 5 فیصد شکایات کا تعلق نان بائینری افراد سے ہے۔

رپورٹ کے تجزیے کے مطابق جو شکایات سامنے آئیں ان میں زیاد تر آن لائن جنسی ہراسمنٹ، سرویلنس، انتہائی نجی معلومات ویڈیوز یا تصویروں کی صورت میں اپلوڈ کردینے، کسی کی ذاتی معلومات کا غلط استعمال کرنے وغیرہ جیسے جرائم ہیں. زیادہ تر کیسز لاک ڈاؤن کے دوران، مارچ اور اپریل میں سامنے آئے۔ تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ مارچ اور اپریل میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعدادخطرناک حد تک بڑھی ہے، جنوری میں آن لائن ہراسمنٹ سے متعلق کل 30 شکایات موصول ہوئیں، جبکہ فروری میں کل 17 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد لاک ڈاؤن کے دوران بڑھ کر 136 ہوگئی۔

[pullquote]لاک ڈاؤن میں ہراسمنٹ [/pullquote]

خواتین پر جنسی تشدد اور ہراسمنٹ انسانی حقوق کا ایک عالمی مسئلہ ہے. اس کے شکار افراد، ان کے خاندان اور پھر معاشرے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بلیک میلنگ سے متاثرہ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ تین سال پہلے وہ شدید بلیک میلنگ اور سائبر بلنگ کا شکار ہوئیں اور یہ معاملہ کچھ عرصے کے لیئے تھم گیا۔ متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دورانیے میں ان کے ساتھ دوبارہ وہی کچھ شروع ہوگیا ہے اور وہ اب شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ خودکشی کے رجحان کی نفی کرتے ہوئے خاتون کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھاؤں گی بلکہ اس سب کے خلاف لڑوں گی۔ خاتون کا کہنا تھا کہ وہ قانونی چارہ جوئی کررہی ہیں جس میں ایف آئی اے اور دیگر تنظیموں سے مدد کی توقع رکھتی ہیں۔

ایک اور متاثرہ خاتون نے ہمارے ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو حال ہی میں ایک انجان آئی ڈی سے ریکوئیسٹ آئی جس کوقبول کر لیا، متاثرہ خاتون کے مطابق یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ان کا فیسبک آئی ڈی ہیک کر لیا گیا اور تما م نجی معلومات حاصل کرلی گئی اور ان کے جاننے والوں کو سب کچھ افشاں کرنے کی دھمکی دے کر غیر اخلاقی حرکات کروائیں گئیں۔ خاتون کا کہنا ہے کہ مجھے اداروں پر اعتبار نہیں ہے، میں مزید مشکلات نہیں کھڑی کرنا چاہتی، بس چاہتی ہوں کہ اس سب سے میری جان چھوٹ جائے۔

رواں ہفتے شائع ہونے والی رپورٹ میں حکومت اور انتظامی اداروں کو سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں کہ کورونا وائرس کی صورتحال میں ایف آئی اے کا آن لائن شکایات کا سلسلہ مزید فعال ہونا چاہیئے جس سے شکایت کنندہ کو کسی بھی مشکل میں اتھاریٹیز تک پہنچنا اور کیس دائر کرنا آسان ہو۔ رپورٹ کے تجزیے کے مطابق خواتین بدنامی کے ڈر سے یا اداروں پر اپنی نجی معلومات کے غلط استعمال کے شبے کی وجہ سے اپنا کیس درج نہیں کرواتیں، یا اپنا کیس ادھورا چھوڑ دیتی ہیں۔ ادارے کو اپنی ساکھ کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تفتیشی عمل کو موثر اور تیز بنانے کی ضرورت ہے۔

بلیک میلرز خواتین کا کیسے استحصال کرتے ہیں –

ایک متاثرہ خاتون کا انٹرویو

[pullquote]آن لائن ہراسمنٹ ہے کیا؟[/pullquote]

دور جدید میں انٹرنیٹ کے جہاں فائدے بہت ہیں، وہیں صارفین کی سیکیورٹی پر بہت سے سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں آن لائن ہراسمنٹ کے کیسز کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے بڑھنے کی ایک وجہ صارفین کا اس حوالے سے لاعلمی بھی ہے۔ پہلا سوال ہی یہ ہے کہ آخر آن لائن ہراسمنٹ کیا ہوتی ہے اور اس کی اقسام کیا ہیں؟ اس کے بہت سے جواب ہوسکتے ہیں۔ مثلاً

1. اس کی ایک شکل اسٹاکنگ ہے، جس میں مجرم کسی کا خفیہ طور پر پیچھا کرتا ہے. قانونی طور پر یہ ایک جرم ہے اور اس کی ذیلی حیثیت ایک بڑے جرم کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے. کسی بڑے جرم کی ابتداء آن لائن اسٹاکنگ سے ہی ہوتی ہے جو کہ خود ایک جرم ہے۔

2. سائبر ہراسمنٹ کی دوسری صورت آپ کے اکاؤنٹ کو ہیک کرنا، آپ کی نجی معلومات تک پہنچنا اور پھر اس کا غلط استعمال کرنا، اس کو بلیک میلنگ کے لیئے استعمال کرنا وغیرہ ہے. یہ ایک جرم ہے جس کی پاکستان کے سائبر کرائم کے قوانین کے تحت سخت سزائیں مختص ہیں۔ اس کی ایک اور شکل، اس معلومات تک رسائی کے بعد اس کی تشہیر کی صرف دھمکی دینا بھی جرم ہے۔ اور آپ کی اجازت کے بغیر آپ کی نجی معلومات کی تشہیر کرنا ایک انتہائی درجے کا جرم ہے، سائبر کرائم کا قانون آپ کو ان جرائم سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اس سب میں کسی بھی شہری کی جنسی و غیر اخلاقی نوعیت کی تصاویر، یا ویڈیو کو شائع کر دینا سنگین نوعیت کا جرم ہے۔

3. اسی نوعیت کا ایک اور جرم، کسی کا آئی ڈی، ای میل اور پاسورڈ چوری کرنا بھی ہے۔ اگر کوئی آپ کے نام کا جعلی اکاؤنٹ بنائے اور آپ کو بلیک میل کرے تو یہ بھی قابل سزا جرم ہے جس کے لیئے آپ کو قانونی مدد لینی چاہیئے۔

[pullquote]آپ آن لائن ہراسمنٹ کا شکار ہورہے ہیں تو آپ کو کیا کرنا چاہیئے؟[/pullquote]

پہلے تو یہ یقین رکھیں کہ آپ دنیا کے پہلے انسان نہیں ہیں جو اس طرح کی صورتحال سے دو چار ہو رہے ہیں. ایسے واقعات دنیا میں بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور دنیابھر میں سائبر کرائمز کے خلاف اور شہریوں کے آن لائن تحفظ کے لیئے قوانین بھی بنے ہوئے ہیں۔ آپ نے سب سے پہلے پریشان نہیں ہونا، ایسے واقعات میں متاثرہ شہری حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ بالکل بھی بلیک میل نہیں ہونا اور نا ہی کسی ذہنی دباؤ میں آنا ہے کیونکہ جو شخص ایسا کررہا ہے وہ وہ قانوناً جرم ہے جس سے آپ کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

ایسی صورت بن جانے پر آپ کو جلد ہی کسی اعتبار کے شخص کو تمام صورتحال سے آگاہ کرنا ہے۔ ایک دم گھر والوں کو بتا دینا شاید مزید مشکلات کھڑی کر سکتا ہے، لہٰذا بہتر ہے کہ اگر تو والدین معاون ثابت ہوسکتے ہوں، تو ان کو ساری تفصیل سے آگاہ کریں۔ نہیں تو کسی باشعور دوست یا اعتبار کے رشتہ دار کو تلاش کریں جو آپ کو اس مشکل سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوسکے۔ اور اگر آپ خود اتنی معلومات اکٹھی کر سکتے ہیں تو انٹرنیٹ آپ کا بہترین دوست بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ اس صورتحال سے نکلنے کے طریقوں سے آگاہی باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔

آئی بی سی اردو اور یوتھ میڈیا نیٹ ورک کے اشتراک سے 10 روزہ "یوتھ ڈیجیٹل کانفرنس” 7 جولائی سے شروع ہو گی

 

آپ نے بلیک میل کرنے والے شخص کے خلاف تمام ثبوت محفوظ رکھنے ہیں۔ مثلاً واٹس ایپ، فیسبک مسینجر کی وہ گفتگو جس میں وہ دھمکا رہا ہے اور آپ کی نجی معلومات کو افشاں کردینے کی بات کررہا ہے۔اس نوعیت کے اسکرین شاٹس آپ نے محفوظ رکھنے ہیں۔ اس کے علاوہ اس فیسبک آئی ڈی کا یو آر ایل، انسٹاگرام، ٹویٹر یا کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی معلومات کاپی کرنا نا بھولیئے گا جس سے یہ وہ شخص بلیک میل کررہا تھا یا جس سے اس نے آپ کی ذاتی معلومات پبلک کردی ہے۔

ایسی صورتحال میں متاثرہ شخص کے آس پاس موجود خاندان اور دوستوں کو اس کے ساتھ کھڑے ہوجانا چاہیئے – بلیک میلر کے ہاتھ میں ایک ہی بڑا ہتھیار، آپ کا خوف ہے، یہ خوف کہ آپ بدنام ہوجائیں گے۔ جب والدین، خاندان والے اور دوست احباب ہی متاثرہ شخص کے ساتھ ہونگے تو اس کا مقصد زائل ہوجائے گا اور وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے گا. آپ کو اس وقت ملزم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی طرف جانا ہے مگر یہ کیسے ہوگا؟

ٹیکنالوجی کے دور میں سائبر کرائم کے قوانین کے ہوتے ہوئے اگر بروقت کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے تو ملزم کا بچ نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ آپ کو بروقت قانونی مدد حاصل کرنی ہے۔ اس کے لیئے ایف آئی اے کے سائبر سیل موجود ہیں جس تک رسائی حاصل کرنی ہے۔ آپ ایف آئی اے سائبر کرائم کی آن لائن ویب سائٹ پر بھی رپورٹ درج کروا سکتے ہیں مگر مناسب یہی ہے کہ اگر آپ اس شہر میں موجود ہیں جہاں ایف آئی اے کا دفتر ہے تو آپ کو دفتر چلے جانا چاہیئے اور وہاں اپنا کیس درج کروانا چاہیئے۔ جب آپ اپنا کیس درج کروا چکیں گے تو آپ کو ایک نمبر دیا جائے گا جس کو ڈائری نمبر کہتے ہیں اور وہ اس بات کی ضمانت ہوگا کہ آپ کا کیس تفتیش کے عمل کے لیئے درج کر لیا گیا ہے۔

اس کے بعد آپ کو بیٹھ نہیں جانا بلکہ اپنے کیس کی معلومات لیتے رہنا ہے. اس سلسلے میں پاکستان میں کام کرنے والی سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیمیں، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، ہمارا انٹرنیٹ وغیرہ موجود ہیں جو آپ کی اس سلسلے میں مدد کرسکتی ہیں۔ آپ کا اپنے کیس کو تکمیل تک پہنچوانا معاشرے کو مزید جرائم سے بچانے میں مدد کرسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے