کوئٹہ اور سبی کے درمیان ریلوے ٹریک کے چار مقامات کو عرف عام میں جہنم لائن کہا جاتا ہے.اس نام سے درہ بولان بلوچستان کےتمام ریلوے ملازمین بخوبی واقف ہیں.ان مقامات کو جہنم لائن کا نام کیوں اور کس نے دیا یہ آگے بتاوں گا.
1830 میں دنیا اور 1861 کو متحدہ ہندوستان میں ریل سروس کے آغاز نےدنیا میں انقلاب برپا کردیا.درہ بولان کی بل کهاتی ریلوے لائن ایک سو انتیس سال پہلے 1886 میں بنائی گئی جس پر اس وقت دو کروڑ 85 ہزار روپے لاگت آئی تهی.کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں ریل سروس نے عوام کا طرز زندگی بدل دیا اور جہاں ٹرین چلتی تهی وہاں کے لوگ بیٹیوں کو دور دور بیاہنے لگے..
طرز زندگی بدلنے پر یاد آیا کہ بلوچستان کے 32 اضلاع میں سے اب تک صرف 13 اضلاع کے کچه حصوں کو سوئی گیس کی سہولت دستیاب ہوسکی ہے.ایک علاقہ میں سوئی گیس گهروں میں پہنچی تو خاتون صحافی نے ایک عورت سے پوچهاکهانا پکانے میں کتنی آسانی ہوئی.؟
عورت بولی لکڑی کا چولہا پهونکنے سے تو جان چهوٹی مگر اب چولہے کے دهویں کابہانہ بهی نہیں رہا.جس میں عورتیں اپنے دکه اور آنسوچهپالیتی تهیں.خیر بات ہورہی تهی بلوچستان میں بچهے ریلوے کے جال کی، جو دنیا میں آج بهی عجوبے کی حیثیت رکهتا ہے.ان میں کوئٹہ سبی روٹ،کوئٹہ چمن،سپیزنڈ زاہدان روٹ (ایرانی سرحد پر تک جانے والی ساڑهے سات سو کلومیٹر ریلوے لائن،سبی ہرنائی روٹ،اور بوستان سے ژوب تک چهوٹی پٹڑی (نیروگیج)کی ریلوے لائن.بوستان ژوب اورسبی ہرنائی کے عجوبہ روزگار ریلوے ٹریکس تو کب کےمرحوم ہو چکے .کوئٹہ سبی اور جیکب آباد روٹس کے علاوہ صوبے کے باقی ریلوے ٹریکس اورریل گاڑیاں خستہ حال اور ریلوے اسٹیشنوں پر سہولیات ناکافی ہیں.ان روٹس کو بهی کئی مرتبہ بند کرنے کی کوشش کی جاچکی ہیں.صوبے کے عوام رو پیٹ چکے کہ وہ ریلوے سے محبت کرتے ہیں ، بلوچستان میں ریلوے سروس کو کم ازکم دیگر صوبوں کے برابر لایا جائے مگر حکومت تک یہ صدائیں اور التجائیں نہیں پہنچیں.حکومت کو اور بہت سے کام جو ہیں.
بلوچستان کے بوستان ژوب مرحوم ریل روٹ کی داستان پر کچه عرصہ قبل ریلیز ہونے والی فلم "مور” ( پشتو میں مور کامطلب ماں ہے)بهی دیکهنے کے قابل اور اس روٹ کی اہمیت کی عکاس ہے.اس پر پهر کبهی بات ہوگی.
ذکر ہورہا تها درہ بولان ریل روٹ کا.یہ روٹ بهی عجوبہ اور اس پر سفر کئی حوالوں سے دنیا کے دلچسپ ریل کےسفر میں سے ایک ہے جو تا عمر نہیں بهولتا.
20 سرنگیں ،پہاڑوں کے درمیان بل کهاتی ٹرین اور اسے کهینچتے دو ریل انجن آپ کو انوکهے تجربے سے روشناس کرتے ہیں.کبهی ٹرین اس قدر بلند ہوجاتی ہے کہ کهڑکی سے باہر جهانکنے پر لگتا ہے کہ آپ ٹرین نہیں بلکہ ہیلی کاپٹر پر محو پرواز ہیں.اس روٹ میں آج بهی دلچسپیوں کے ہزاروں سامان ہیں.معروف ادیب مرزا ہادی رسوا نے امراوء جان ادا جیسی یادگار کتاب لکهی جس پر انڈیا میں کئی فلمیں بهی بن چکی ہیں ، وہ انڈیا (متحدہ ہندوستان )سے اس بولان ریلوے لائن کا سروے کرنے آئےاور تعمیر میں بهی شریک رہے. معروف بروڈ کاسٹر اور کالم نگار نے اپنی کتاب میں کیا خوب لکها ہے کہ ہادی رسوا نہ ہوتے تو ایک شریف گهرانے کی لڑکی کوٹهے تک اور ہندوستان کے میدانوں کی گاڑی کوئٹے تک نہ جاتی.محقق لکهتے ہیں کہ یہ ریلوے لائن دنیا کی دشوار گزار ریلوے لائن ہے جس کا موازنہ صرف بهارت کی ریلوے لائن نیل گرے اورسوئٹزر لینڈ کی ریلوے لائنوں سے کیا جاسکتا ہے.
آب گم ریلوے اسٹیشن سطح سمندر سے 2157 فٹ بلند ہے جبکہ صرف 22 میل بعد کول پور اسٹیشن پہنچ کے یہ بلندی 5600 فٹ ہوجاتی ہے، اسی لئے یہاں ہر ٹرین کو چلانے کے لئے بیک وقت دو انجنوں کی ضرورت پڑ تی ہے جبکہ انگریزوں کے دور میں یہاں تین انجن لگائے جاتے تهے.
یہ راستہ چڑہائی سے زیادہ اترائی پر خطرناک ہوجاتا ہے اسی وجہ سے بلندی سے نیچے آنے والی کوئی ٹرین بے قابو ہوجائے تو اسے روکنے کے لئے چار مقامات آب گم ،دوزان،ہرک اور مچ پر ایسی ریلوے لائن بچهائی گئی ہے جو پہاڑی بلندی پر چلی جاتی ہے.جسے تکنیکی زبان میں کیچ سائیڈ جبکہ ریلوے کے ملازم اسے جہنم لائن کے نام سے جانتے ہیں. ٹرین کے بریک فیل ہوجائیں تو اسے جہنم لائن پر ڈال دیا جاتاہے.جیسا 17نومبر کو ہوا جب کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس کو آب گم کے قریب اوور شوٹ ہونے پر جہنم لائن پر ڈال دیا گیا.
ٹرین پہاڑی پر چڑهی اور نہ رک سکی ،اس سانحہ میں 17 مسافر جاں بحق اور ڈیڑه سو سے زائد زخمی ہوگئے.انجن سمیت 9 بوگیاں بهی تباہ ہوگئیں.کوئٹہ کےریلوے ڈرائیوروں نے کئی روز تک ہڑتال کی.ان کاکہنا تها کہ خستہ حال انجن اس روٹ پر حادثات کا سبب ہیں.
آج کل اس ریلوے ٹریک پر سفر سب سے غیر محفوظ ہے جہاں چند برس کے دوران راکٹ باری،فائرنگ ، ٹریک پر بم دهماکوں اور حادثات کے سبب درجنوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں.ٹرین کے حالیہ سانحہ میں مجموعی طور پر ریلوے کو 50 کروڑ کا نقصان ہواجس میں 24 کروڑ روپے کا ریلوے انجن بهی شامل ہے. وزارت ریلوے پہلے ہی ناقص بریک والے فرسودہ اور قدیم انجن تبدیل کردیتی تو کروڑوں کا یہ نقصان نہ ہوتااور انسانی جانوں کا نقصان تو ناقابل تلافی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ کیا اب بهی وزارت ریلوے اس روٹ پر خراب ریلوے انجن تبدیل کرے گی اور کیا انگریزوں کی بنائی گئی جہنم لائن کی جگہ کوئی متبادل نظام اپنایا جائے گایا اسی 129برس قدیم نظام پر انحصار جاری رہے گا.اورلوگ جہنم لائن سے جنت کو سدهارتے رہیں گے.