ٹویٹر پرصحافی اعزاز سید اور رؤف کلاسرا کے درمیان نوک جھونک تلخی میں کیوں بدلی؟

اتوار6 ستمبر2020 کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پاکستانی صحافیوں اعزاز سید اور رؤف کلاسرا کے درمیان کافی نوک جھونک شروع ہوئی جو بعد میں شدت اختیار کر گئی۔

اس گفتگو کا آغاز رؤف کلاسرا کی ایک ٹویٹ سے ہوا جس میں وہ لیفٹننٹ جنرل (ر)عاصم باجوہ سے مخاطب ہو کر ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ وزیراعظم کے معاو ن خصوصی برائے اطلاعات اور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل(ر)عاصم سلیم باجوہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں رؤف کلاسرا کو پبلک ٹی وی پر کئی ماہ کے وقفے کے بعد پروگرام شروع کرنے پر مبارک باد دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’آپ کی کمی بہت محسوس کی گئی ، آپ کی اسکرین پر واپسی آنا اچھا لگا‘‘ ۔

رؤف کلاسرا نے عاصم باجوہ کا تہنیتی جواب اس تبصرے کے ساتھ ری ٹویٹ کیا ’’ جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب آپ کی اس مہربانی کا شکریہ حالانکہ ہم نے آپ کے معاملے میں ایک دو تنقیدی ولاگز بھی کیے تھے۔‘‘

جیو نیوز کے رپورٹر اعزاز سید نے رؤف کلاسرا کی شکریہ والی ٹویٹ اس سوال کے ساتھ ری ٹویٹ کی :’’اگر کسی نے جناب کلاسرہ صاحب کا باجوہ صاحب کے حوالے سے کوئی ناقدانہ وی لاگ ، کالم یا ٹویٹ دیکھا ہے تو مجھے مطلع کرے‘‘ ۔ اس کے بعد بحث چھڑ گئی اور اس قدر طول پکڑ گئی کہ اگلے دن تک بھی جاری ہے۔

رؤف کلاسرا نے اعزاز سید کوکئی برس قبل ان کی ڈان نیوز میں نوکری کے لیے جمع کرایا گیا سی وی یاد دلاتے ہوئے لکھا:’’جب آپ نے ڈان ٹی وی میں نوکری لینے کے لیے اپنے سی وی میں میرا ریفرنس دیا تھا تو بیوروچیف ارشد شریف نے فون کر کے پوچھا کون ہے۔تمہارا نام استعمال کررہا ہے اور تمہیں انکار نہیں کرسکتا۔ کوئی سڑک چھاپ لگتا ہے۔میں نے کہا اس کا گھر کا چولہا چل جائے گا دے دو۔ یہ غیرت اس وقت دکھاتے صاحب‘‘


اس پر اعزاز سید نے لکھا:’’جناب یہ بالکل درست ہے کہ آپ کا نام میرے سی وی کے ریفرنس میں تھا لیکن کیا اس کے بعد مجھ پر پابندی ہے کہ میں کبھی آپ سے سوال نہیں کرسکتا ؟ میرے سادہ سے سوال پر آپ اتنا غصے میں آگئے؟ کہیں کچھ پردہ داری تو نہیں؟ ‘‘

اس پر رؤف کلاسرا نے کہا:’’ضرور کریں لیکن کچھ ریسرچ کر لیتے کہ میں اور عامر متین نے YT پر تین شوز جنرل باجوہ پر کیے۔آپ نے کبھی میرے بریک کیے سکینڈلز پر شو/کالم لکھے؟ایک ٹویٹ پر شو کرتے؟ جب تک چیزیں کلیر نہ ہوں کیسے پروگرام کرتے؟ جنگ جیو دی نیوز نے اسٹوری استعمال کی؟میر ابراہیم کو بھی یہ سوال پوچھنا تھا۔‘‘

رؤف کلاسرا نے ایک اور ٹویٹ میں اپنے ولاگز کے لنک ڈال کر لکھا : جارج برنادشا کا ایک جملہ لکھا : ’’میں بہت پہلے یہ جان لیا تھا کہ سور سے لڑائی مت لڑو،گندے ہو جاؤ گے جبکہ سورتو اسے (گندگی کو)پسند کرتا ہے‘‘

روف کلاسرا کی ٹویٹ کا ڈان نیوز کے اینکر مبشر زیدی نے جواب دیا :’’میں اس وقت ڈان ٹی وی کا ایڈیٹر تھا اور اعزاز کو میں نے appoint کیا تھا‘‘ اسی بحث کے دوران مبشر زیدی احمد نورانی اور اعزاز سید کی تحقیقاتی صحافت سے متعلق پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو سراہا۔


اسلام آباد میں مقیم صحافی وسیم عباسی نے رؤف کلاسرا کی ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا:’’ریفرنس تو ہر نیا آنے والا کسی نہ کسی کا دیتا ہے مگر ریفرنس دینے والوں کو اس طرح کی چھوٹی بات زیب نہیں دیتی۔کلاسرا صاحب آپ سے اس لیول کی بات کی توقع نہیں تھی۔ اعزاز جیسے صحافی پاکستان میں باقی کاسہ لیسوں اور چاپلوسوں کی موجودگی میں ہماری برادری کے کیے باعث فخر ہیں۔‘‘

جنگ اور جیو نیوز سے وابستہ صحافی عمر چیمہ نے لکھا:’’اکثر اوقات مختلف صحافیوں کی درخواستیں میرے پاس ان غیر ملکی اداروں کی طرف سے آتی ہیں جہاں انہوں نے فیلوشپ وغیرہ کیلئے اپلائی کیا ہوتا ہے لیکن انہیں جتائے/بتائے بغیر ایسے لوگوں بارے مثبت رائے دی ہے جو اہل ہیں اعزاز کبھی بھی ایک نااہل رپورٹر نہیں رہا وہ اپنے ادارے کیلئے اعزاز ہوتا ہے‘‘


کالم نگار محمد تقی نے لکھا :’’کوئی اپنے سینئر کو تعلیم یا ملازمت کے لیے ریفری یا حوالے کے طور پر زحمت دے تو یہ اعزاز کی بات ہے اور پیشہ ورانہ حلقوں میں ایک طرح کا فرض سمجھا جاتا ہے۔ اساتذہ سے اختلاف بھی جائز ہے۔ ریفرینس کو اس وقت جتانا جب آدمی کی پیشہ ورانہ کارکردگی پر سوال اٹھایا جائے نہایت کم ظرفی ہے‘‘

بلاگر اور ایکٹوسٹ گل بخاری نے رؤف کلاسرا کی ٹویٹ کا یوں جواب دیا:
’’ویسے جاب ایپلیکیشن پہ اپنے کسی کولیگ یا سینئیر کا نام ریفرینس کے طور پہ دینا ریکوائرمنٹ بھی ہوتی ہے اور عین پروفیشنل طریقہ بھی ۔ لیکن اگر بد قسمتی سے ریفرینس دینے والا کم ظرف شخص ہو تو دس سال بعد بھی اپنی اوقات دکھا دیتا ہے‘‘

سینئرصحافی اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیڑی اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے رؤف کلاسرا کے ٹویٹ پر کافی سیخ پا ہوئے اور انہوں نے اپنی ٹویٹ میں رؤف کلاسرا کو طنز کا نشانہ بنایا:’’احمد نورانی اور اعزاز سید کی ٹوٹی ہوئی جوتی کے برابر بھی اوقات نہیں ان جانی واکر ٹی وی ایکٹرز کی جو اپنے ضمیر کی لوٹ سیل اسلام آباد کے اتوار بازار میں ٹھیلا لگا کر بیچتے ہیں‘‘


ٹویٹر پر رؤف کلاسرا کی حمایت میں بھی بہت سارے لوگ تبصرے کرتے رہے۔

ایک صارف شفقت چوہدری نے رؤف کلاسرا کو ان الفاظ میں مخاطب کیا :’’سوچ سے تھوڑا بہت اختلاف ہو سکتا ہے مگر جن چند دیانت دار صحافیوں کا ہمیں علم ہے ان میں سے ایک آپ ہیں‘‘

خاتون صحافی مونا خان نے لکھا :’’جھوٹی پراپیگنڈا زرد صحافت کو بے نقاب کرنے پہ مبارک باد ‘‘

ایک غیر واضح شناخت کے اکاؤنٹ نے تبصرہ کیا:’’عاصم سلیم باجوہ صاحب نے رؤف کلاسرہ صاحب کی تعریف کیا کردی اعزاز سید ، احمد نورانی وغیرہ سب لفافہ ٹامی ان کے پیچھے پڑ گئے۔ویسے میں کلاسرا صاحب کا فین نہیں ۔ ‘‘

پیر کی صبح جیو نیوز کے صحافی فخر درانی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا :’’ہم سرائیکی دراصل پسماندہ علاقوں سے غربت کی چکی میں پس کر بڑے شہر میں آتے ہیں۔ہم میں سےاگر غلطی سے کوئی اپنا نام بنا لےاور کسی پر احسان کرلے تو اس پر احسان جتانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔اسکی وجہ ہماری احساس کمتری ہے۔ہم نے لوگوں کو بتانا ہوتا ہےکہ دیکھو ہم کتنی بڑی چیز بن گئے ہیں۔‘‘

چند دن قبل عاصم باجوہ کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق خبر دینے والے صحافی احمد نورانی بھی اس بحث میں کودے ۔ چونکہ یہ تنازع شروع ہی عاصم باجوہ کی ٹویٹ سے ہوا تھا جن کے بارے میں چند دن قبل احمد نورانی نے ایک غیر معمولی خبر بریک کی تھی۔

احمد نورانی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا :’’ایک اہم بات جوآپ رئوف کلاسرہ کو ہر بار میرا ذکرکرتےہوئےلازمی کرنی چاہیےکہ آپ لوگوں کوبتائیں کہ احمد نورانی ہی وہ صحافی ہےجس نےمیرےخلاف یوسف رضا گیلانی کی حکومت سےغلط طریقےسےپلاٹ حاصل کرنےکی کرپشن کی خبر سن دوہزار نومیں بریک کی تھی(اصل موضوع سےتوجہ ہٹانےکی کوشش ناکام ہو گی)‘‘

اس پر رؤف کلاسرا نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا:’’امید ہے احمد نورانی عدالت میں وہ گیلانی صاحب والا پلاٹ نکال کر مجھے دیں گے۔بندہ بدنام بھی ہو اور پلاٹ بھی نہ ملے یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔مبشر زیدی بھی ڈھونڈتے رہے پلاٹ نہ ملا تو اب عدالت نے دس لاکھ جرمانہ کر دیا ہے۔ امید ہے میرا دوست نورانی ڈھونڈ نکالے گا۔آخر اتنا بڑا رپورٹر ہے‘‘

رؤف کلاسرا نے احمد نورانی کو مخاطب کرتے ہوئے مزید لکھا:’’دو سال پہلے بھی آپ نے کچھ میرے بارے فرمایا تھا۔ جواب دیا تھا تو اپ رونے لگ گئے تھے۔ اب ان ڈی ایم کے سکرین شاٹس شئیر کر دیے تو پھر پوری عوام ناراض ہو جائے گی آپ کی شان میں گستاخی ہوگئی۔ ویسے مبشر زیدی اور اسد طور کو اسی الزام پر دس دس لاکھ جرمانہ ہوچکا عدالت سے۔آپ بھی ا جائیں‘‘

اس سے قبل رؤف کلا سرا نے پیر کی صبح سو ا پانچ بجے اپنے ٹویٹر اکاونٹ ہے دو صفحات کی تصاویر لگا کر ساتھ لکھا تھا:’’دوستو. مبشر زیدی اور اسد طور نے تین چار سال قبل مجھ پر مختلف الزامات لگائے تھے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ مجھے یوسف رضا گیلانی صاحب نے پلاٹ دیا تھا۔اب تین سال اسلام آباد عدالتی سماعت بعد فیصلہ آگیا ہے۔ جھوٹ پر زیدی اور طور کو دس دس لاکھ جرمانہ ہوا ہے۔اللہ کا شکر اس نے عزت رکھ لی۔‘‘

اس بحث کے دوران کچھ صحافی اعزاز سید اور رؤف کلاسرا سے بات ختم کرنے کی درخواست کرتے رہے۔

جیونیوز کے اینکر اور کالم نگار سلیم صافی نے لکھا:’’ہم میں کوئی فرشتہ نہیں۔ ہرکوئی اپنےاپنےانداز میں اپنی بقاکی جنگ لڑرہاہے۔ہرایک کاطرزصحافت مختلف ہے۔ہمیں صحافت کی آزادی نہیں بلکہ اس کی بقاکی جنگ درپیش ہے۔آپس میں لڑیں گےتووہ جنگ کیسے لڑیں گے۔میں رؤف کلاسرااوراعزاز سید سےمعافی مانگتےہوئےالتجاکرتاہوں کہ اس جنگ کوبندکردیں۔‘‘

صحافی سبوخ سید نے لکھا:’’ٹویٹر پر صحافی دوستوں کی باہمی چپقلش پر مبنی ٹویٹس دیکھ کر انتہائی دُکھ اور افسوس ہو رہا ہے۔ میں ان سے عمر اور پروفیشن میں بہت چھوٹا ہوں اور ان سے انتہائی ادب کے ساتھ درخواست کرتا ہوں کہ براہ مہربانی اپنی ٹویٹس ڈلیٹ کر کے اس معاملے کو ختم کر دیں۔‘‘

اس لڑائی کے دوران کئی صارفین اور صحافیوں نے یہ شکایت بھی کہ انہیں سوال اٹھانے پر رؤف کلاسرا نے ٹویٹر سے بلاک کر دیا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم صحافی بشارت راجہ نے اپنی فیس بک پررؤف کلاسرا کی ٹویٹس کے اسکرین شاٹس لگا کر لکھا :’’یہ صحافت کا وہ ہمالیہ ہے جس نے میرے جیسے سڑک چھاپ صحافی کے سوال کا جواب دینے کی بجائے بلاک کر دیا‘‘

خیال رہے کہ صحافی رؤف کلاسرا اور عامر متین نے حال میں ایک چینل ’’پبلک نیوز‘‘ پر طویل وقفے کے بعد اپنا پروگرام شروع کیا ہے۔ اس سے قبل انہوں نے’’آپ نیوز ‘‘ پھر کچھ عرصہ پروگرام کیا تھا جو بند ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد رؤف کلاسرا اپنے یوٹیوب چینل پر پروگرا م کرتے تھے اور دیگر ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بطور مہمان تجزیہ کار شرکت کرتے تھے۔

پیر کی صبح جب رؤف کلاسرا نے صحافی مبشر زیدی اور اسد طور سے متعلق ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ عدالت نے ان دونوں صحافیوں پر دس دس لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا ہے، اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر رؤف کلاسرا کے مداح انہیں فتح مندی پر مبارک باد دے رہے ہیں اور مقابل صحافیوں کوطنزکا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک مبشر زیدی اور اسد طور کی جانب سے رؤف کلاسرا کی اس ٹویٹ پرردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ اعزاز سید نے اپنے تازہ ٹویٹ میں لکھا:’’ایک بے ضرر سوال نے کسی کی نیندیں اُڑا دیں ۔ وہ رات بھر اپنی تعریفیں کرتا رہا ۔۔ لوگوں کو بُرا بھلا کہتا رہا ۔۔ صرف ایک سیدھا سوال نیندیں اُڑا دیتا ۔ خدا ہمیں ایسی صورتحال سے بچائے (آمین)‘‘

خیال رہے کہ پاکستان کے گزشتہ چند برسوں کے سیاسی حالات نے یہاں کی صحافت کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔اب صحافیوں پر مختلف سیاسی جماعتوں یا فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کے الزامات معمول ہیں۔مختلف خبروں اورایشوز پر رائے اور تبصرے کے معاملےمیں یہ تقسیم زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں قائم تحریک انصاف کی حکومت سے میڈیا کے ایک بڑے حصے کو کافی شکایات ہیں، اس دورِ حکومت میں صحافیوں کی بہت بڑی تعداد اپنی نوکریاں کھو چکی ہے۔ ایک تأثر یہ بھی کہ پاکستانی میڈیا میں فوجی اسٹبلشمنٹ پر تنقید کرنے والی آوازوں کو مسلسل خاموش کیا جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے