ہر طرف ایک بے چینی سی ھے. سب لوگ سامان باندھ رھے ہیں گھروں کو تالے لگا رھے ہیں بازار ویران ھو رھے ہیں. بوڑھے،بچے،معذور افراد،نوجوان خواتین گود میں شیر خواروں کو اٹھائے گھروں سے نکل رھی ھیں ، ھر فرد بہت جلدی میں ھے مگر کسی نے سواری نہیں لی ھے سب پیدل ہیں، معذور لوگ ویل چیئرز پہ ہیں، کسی بزرگ کو نوجوان نے کندھوں پہ اٹھا رکھا ھے اور کوئی بیمار تو ھسپتال کہ بیڈ پہ پڑا ھے اور چند منچلے اسکے بیڈ کو گھسیٹے چلے جارھے ہیں غرضیکہ، دیکھتے ہی دیکھتے شہر ویران ھو گیا ھے،
کیا کوئی جنگ مسلط ھونے والی ھے؟ یا کوئی ہنگامی صورت حال ھے؟
پہلی بار دیکھنے والے کوئی شائد یہی لگے اور ابھی تک آپ بھی شائد ایسا ھی کچھ سوچ رھے ھونگے مگر ایسا بالکل نہیں ھے، کچھ دن بعد کربلا میں نواسئہ رسول ص امام حسین ع کا چہلم ھے اور یہ سب نجف شہر کے باشندے ہیں، اور یہ سب اتنی جلدی میں اسلئے ہیں کہ یہ سارے اس چہلم (جسے”اربعین”بولا جاتا ھے)میں شرکت کے لیے روانہ ھورھے ہیں، نجف سے کربلا کا فاصلہ تقریباً اسی کلومیٹر ھے، پوری دنیا سے لاکھوں کی تعداد میں زائرین نجف پہنچتے ہیں اور پھر وہاں سے پیدل کربلا کی جانب عازم سفر ھوتے ہیں، نجف سے کربلا جانے والے راستے پر آپ کو ان دنوں فقط سر ھی سر نظر آئیں گے، غرضیکہ پورے عراق سے لوگ آپکو کربلا کی جانب سفر کرتے نظر آئیں گے ،
لیکن یہ سفر عام سفروں جیسا نہیں ھے آپ جوں جوں نجف کی حدود سے نکلتے جائیں گے اور کربلا کی منزل کے قریب ھوتے جائیں گے آپکو عجیب مناظر دیکھنے کو ملیں گے آپ راستے میں جس جس شہر قصبے اور گاؤں سے گزریں گے آپ کو وہاں کہ باسی روکنے کی کوشش کریں گے اس لیے نہیں کہ وہ آپ کا مال اسباب لوٹنے والے ہیں بلکے اس لیے کہ وہ خدمت کرنے کا ایک موقع چاہتے ہیں وہ آپکو مشروبات فروٹ دودھ دیسی گھی یعنی کہ ھر نعمت پیش کریں گے… چھوٹے چھوٹے بچے آپکو سروں پہ ٹوکریاں اٹھائے اس راستےپہ کھڑے ملیں گے زائرین سارا دن ساری رات وہاں سے گزرتے رہیں گے اور اپنے پسند کی اشیاء لیکر آگے بڑھتے چلیں گے،
سفر میں اکثر رات بھی پڑ جاتی ھے راستے میں لوگ آپ کو اپنے گھر رات رکنے کی دعوت دیں گے آپ کے آگے گڑگڑائیں گے کہ خدارا آپ ہمارے مہمان بن جائیں، وہ یہ کسی لالچ میں نہی کر رھے بلکہ زائر حسین کے مرتبے کو جانتے ہیں اور انکی خدمت اور تواضع کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں.
راستہ بہت کٹھن ھے اور دشوار ھے آپکے پاؤں میں چھالے بھی پڑ سکتے ہیں ، راستے میں کچھ لوگ زیتون کا تیل لیے بیٹھے ھونگے آپکے پاؤں دھوئیں گے ٹانگوں کی مالش کریں گے پھر آپکو چند عمامہ پوشش معززین بھی نظر آئیں گے حلیے سے عالم لگتے ھیں وہ آپکے بوٹ پالش کرنے بیٹھ جائیں گے آپ منع کرتے رھیں گے اور وہ اسرار کرتے رہیں گے.
عجیب منظر ھے دنیا دولت کماتی ھے اور یہ سر پھرے دولت لٹائے جا رھےہیں. معززین اپنے منصب عہدے کی پرواہ کیے بغیر خدمت میں مشغول ہیں، نا دنیا کے پیسے دولت کی پرواہ نا ظاھری جاہ حشم کی فکر!!! آپ کے پوچھنے پر ایک ھی تعرف کروائیں گے ” نحن خدام الحسین”
آپ کو چند صلیبی بھی شائد ملیں حلیے سے مسیحی لگتے ھونگے وہ بھی عازم کربلا ھیں آپ پوچھیں گے تو وہ یہی کہیں گے اربعین کے لیے جا رھے ہیں، حسین ع نے بلا بھیجا ھے
اس سفر میں آپ کو ھر ملک کا پرچم ملے گا پاکستان ھندوستان کے جھنڈے ایک ساتھ عازم سفر نظر آئیں گے رنگ نسل زبان مذھب زبان سے بالاتر ھو کر آپکو ھر فرد حسینی ملے گا
پس یہ منظر دیکھ کر آپ بھی کہنے پر مجبور ھو جائیں گے کہ ارے نادانو یہاں آؤ دیکھو تم نے حسین کو حصوں میں بانٹ رکھا ھے مگر یہاں تو منظر ھی اور ھے یہاں تو سنی شیعہ عیسائی ھندو پارسی بھی خود کو حسینی کہہ رہا ھے یعنی میں یہ کہنے میں حق بجانب ھوں کہ انسانیت جیت گئی ھے اور جہالت ھار گئی ھے
ایک تحقیق کے مطابق یہ دنیا کی بڑی اور طویل ترین واک ھے جس میں لاکھوں لوگ پیدل سفر کرتے ہیں. وکیپیڈیا کے مطابق اربعین پر عراق پاکستان ایران لبنان شام افغانستان یورپ اور افریقہ سمیت پوری دنیا سے تقریباً پچیس لاکھ سے زائد زائرین اربعین کے موقع پر کربلا آتے ہیں.
حسین کے عشق میں ہم نے ملحد پاگل دیکھیں ہیں، یہ عشق کا سفر صدیوں سے جاری ھے. کبھی زندگی میں اگر موقع ملے تو شعیہ سنی دیوبندی ھندو عیسائی نہیں بلکے حسینی بن کر عشق کا یہ سفر کریں انسانیت کا اصل نام ھی حسینیت ھے جس میں انسانیت باقی ھے اس میں حسینیت باقی ھے اور جس میں حسینیت باقی ھے اس سے رب راضی ھے.
میں ایک شخص کا انٹرویو دیکھ رھا تھا وہ کہتا ھے
"مغرب ھونے کو تھی میں کربلا جانے والے راستے پہ اپنی گاڑی کے ساتھ موجود تھا کہ کوئی زائر مل جائے اور میں اسے مہمان بنا لوں، میں نے ایک ضعیف خاتون کو آتے دیکھا میں نے سلام کے بعد عرض کی کہ اماں اجازت دیں کہ میں آپکو منزل تک پہنچا دوں آج میری مہمان بن جائیں. یہ میرے لیے اعزاز کی بات ھوگی. خاتون کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کانپتی ھوئی آواز میں بولی جو اباعبدللہ ع کی زیارت کو جا رھا ھو وہ کہاں رکتا ھے؟”
میں انٹرویو میں اس مرد اور خاتون کی یہ گفتگو دیکھ رھا تھا اور جانے کب سے ضبط کیے بیٹھا تھا ، خاتون کے آخری جملے نے میرے ضبط کے سبھی بندھن توڑ دیے اور میری آنکھوں نے وضو کر لیا.
یہ لامتناہی عشق کا سفر جاری ھے اور جاری رہے گا.