سیرت النبی کو بطور مضمون نصاب میں شامل کیا جائے

رات گھر میں سوال اٹھا سماج میں قانون کے نفاذ کی اپنی اہمیت ، لیکن سماج کی تربیت کیسے ہوگی؟کیا اس کا کوئی بندو بست موجود ہے؟ اہلیہ نے کہا : سادہ سا حل ہے، نصاب میں سیرت النبی کو الگ سے بطور لازمی مضمون شامل کر دیا جائے اورجماعت اول سے جماعت دہم تک مرحلہ وار ایسے پڑھایا جائے جیسے پڑھانے کا حق ہے ، سماج کی شکل ہی بدل جائے گی‘‘۔

تو کیا آپ کے خیال میں مسلمان سماج کو سیرت کا مکمل علم نہیں ہے؟
جی میرا یہی خیال ہے. ہمارا علم بس واجبی سا ہے۔

بات ایسی تھی دل میں ترازو ہو گئی۔ کانسٹنٹ ورجل جارجیو کی کتاب’’محمد ﷺ، دی پرافٹ آف اسلام ‘‘ نہ پڑھ رکھی ہوتی تو میں شاید میں بحث کرتا اور کہتا کہ ہمارا مسلم سماج سیرت طیبہ کے ہر گوشے سے الحمد للہ واقف ہے۔ لیکن ایک غیر مسلم کی لکھی اس کتاب کے ایک ایک صفحے نے میرا دامن پکڑ کر یہی سوال پوچھا تھا سچ بتائو کیا تم پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت کے اس گوشے سے واقف تھے اور میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ندامت کے احساس کے ساتھ نفی میں جواب دیتا آگے بڑھتا رہا۔

کتاب ختم ہوئی تو رحمت دوجہاں ﷺ کی سیرت کا ایک اور ہی پہلو میرے سامنے تھا۔

ایک مسلمان کے دل میں رسالت مآب ﷺ سے زیادہ احترام اور محبت اور کس کا ہو سکتا ہے۔میرے دل کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا لیکن اس کتاب نے اس احترام اور اس محبت کو ایسے عنوانات دے دیے جن سے میں پہلے واقف نہ تھا۔

مسلم معاشرے میں ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوا، مذہب سے لگائو بھی تھا ، فقہ بھی دلچسپی سی پڑھی لیکن یہ کانسٹنٹ ورجل جارجیو کی کتاب تھی جس میں متعدد مقامات پر آدمی کتاب بند کر کے سوچتا ہے کہ اچھا تو فلاں واقعہ کا پس منظر یہ تھا۔ لکھنے والا غیر مسلم ہے لیکن اس نے ایک شاہکار تخلیق کر دیا ہے۔

یہ کتاب آپ کا ہاتھ پکڑ کے گویا آپ کو مکہ کے صحرامیں کہیں لے جاتی ہے اور اس عہد کے واقعات کو اس عہد کے سیاق و سباق میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔حجاب اٹھ رہے ہوتے ہیں اور گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔بہت سے واقعات جو ہم تفسیر کی کتابوں میں بچپن سے پڑھتے سنتے چلے آئے ہیں ایسی تفہیم کے ساتھ بندے پر آشکار ہوتے ہیں کہ ضبط کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔اللہ کے بندے نے سیرت پاک کا ایسا سماجی مطالعہ کیا ہے کہ دل کے تار ہلا دیے ہیں۔

سیرت طیبہ کا ایسا ہی ایک مطالعہ پروفیسر صفدر علی چودھری نے بھی شروع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا سیرت طیبہ کو سمجھنے کے لیے لازم ہے پہلے ان حالات کو سمجھا جائے جن میں نبی رحمت تشریف لائے۔ یہ ایک طویل کام تھا ۔لکھتے لکھتے اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ایک ہی جلد مرتب ہو سکی ۔آخری فقرہ بھی ادھورا ہی رہ گیا۔برادرم شعیب شاہد نے اسے ’’ سیرت خاتم المرسلین ﷺ‘‘ کے نام سے شائع کر دیا ہے۔

فرض کریں ماہرین تعلیم مل بیٹھیں، نصاب میں، اسلامیات سے الگ، سیرت کا ایک مکمل مضمون متعارف کرایا جائے جس میں مختلف مدارج ہوں۔ مثال کے طور پر پہلی جماعت کے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کا بچپن پڑھایا جائے اگلی جماعت میں بچوں کو پڑھایا جائے کہ رسول اللہ ﷺ کا بچوں سے کیا رویہ ہوتا تھا۔پھر سماجیات آ جائے ، اس کے بعد قانون و ریاست کے معاملات شامل نصاب کر لیے جائیں۔دسویں تک بچہ سماجی اقدار اور تہذیب نفس کے سارے مراحل سے گزر چکا ہو گا۔

حیات طیبہ میں گھر سے ریاست اور ذات سے معاشرت تک ہر معاملے میں رہنمائی موجود ہے اور رہنمائی بھی مثال کے ساتھ موجود ہے۔ افسوس ہم میں سے اکثریت کا علم محدود ہے ۔

بچپن میں جو چیز ذہن میں نقش ہو جائے وہ کبھی محو نہیں ہوتی۔ بچوں کے ان ابتدائی ایام میں اگر ان کو دس درجات میں ، دس جماعتوں میں سیرت طیبہ سے ، ایک اہتمام اور سیاق و سباق کے ساتھ یوں آگاہی دے دی جائے جیسے دینے کا حق ہے تو آپ کی اگلی نسل اس موجودہ نسل سے مختلف ہو گی۔

سوال صرف اتنا سا ہے کہ کوئی ہے جو اس سعادت کو حاصل کر پائے؟

ایک مسلمان نسل کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے،اس کے نبی ﷺ کی سیرت کیا ہے۔ وہ بچے تھے تو کن حالات سے گزرے ، سماج کی تربیت کی تو کن اصولوں پر کی ، امور ریاست کو دیکھا تو کیسے دیکھا۔ گھر کے معاملات کو دیکھا تو کس طرح ، سماج سے معاملات کیے تو کیسے کیے ، تجارت کی تو کن اصولوں کے ساتھ کی ۔ مشکلیں آئیں تو رویہ کیا رہا اور کشادگی آئی تو رویہ کیسا تھا۔ ایک دفعہ اسوہ حسنہ کو کھول کر بچوں کے سامنے رکھ دیجیے ، پھر دیکھیے نئی نسل اس سے کیا اثرات حاصل کرتی ہے۔ایک پوری نسل کی تربیت کا اس سے جامع ، اس سے حسین اور اس سے موثر طریقہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔بس اتنا سا اہتمام کر دیجیے کہ دسویں جماعت پاس کرنے والے بچے کو یہ معلوم ہو کہ سیرت طیبہ کیا تھی اور یہ معلومات اس کو پورے واقعاتی سیاق و سباق کے ساتھ ہوں۔
نتائج آپ کو حیران کر دیں گے۔اگلے دس سالوں میں ایک ایسی نسل سامنے آئے گی جو ہم سے یکسر مختلف ہو گی۔

حسن اتفاق سے ہم مسلمان ہیں کیونکہ یہ مسلمانی ہمیں میراث میںملی ہے اور ہم ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ لیکن ذرا غور کیجیے کہ ہمارے فہم دین کا عالم کیا ہے۔عربی ہمیں آتی نہیں ، قرآن میں کیا لکھا ہے ہم نہیں جانتے ، عشق رسول ﷺ کا دعوی ضرور ہے لیکن اسوہ رسول ﷺ سے مکمل آ گہی نہیں ہے۔دین کا ہمارا علم چند احکامات کی تفہیم اور چند روایات تک محدود ہے۔دین ہمارے لیے اب محض چند رسومات کا نام ہے۔
نتیجہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے جو ہم پر بیت رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے